Header Ads

سورہ کوثر اور شان رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم. از قلم مفتی محمد قاسم عطاری

 سورہ کوثر اور شان رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

 ( مفتی محمد قاسم عطاری)

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:( اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲) اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳))(پ،30الکوثر:1تا3)


ترجمہ: اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔


اِس سورت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی شہزادے کے انتقال پر ابولہب، عقبہ بن معیط، عاص بن وائل وغیرہا کفار دل آزار جملے کہنے لگے، کسی نے کہا:محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کی جڑکٹ گئی۔ کسی نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کی بات نہ کرو وہ تو ایسا آدمی ہے جس کی جڑکٹی ہوئی ہے، اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، جب فوت ہوگا تو اس کا نام مٹ جائے گا۔ان کفار کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کےلئے یہ سورت نازل فرمائی کہ اے حبیب! ان لوگوں کی باتوں پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ ہمارے فضل وکرم پر نظر رکھیں کہ ہم نے تمہیں بے شمار خوبیوں اور نعمتوں سے نوازا ہے لہٰذا تم اُن کے شکرانے میں نماز پڑھو اورقربانی کرو اور جہاں تک تمہارے دشمنوں کا تعلق ہے تو ان ہی کی جڑ کٹی ہوئی ہے اور یہی ہر خیر سے محروم ہیں ۔


حقیقت یہ ہے کہ رہتی دنیا تک رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں گستاخی کرنے والاہر شخص خیر سے محروم اور اِس آیت کے تحت داخل ہے۔


یہ سورت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ ِ خداوندی میں عظمت ووجاہت اور اللہ رب العزت کی نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی بہت پیاری دلیل ہے کیونکہ کفار نے جب آپ کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے خود جواب دیا کہ تمہارا دشمن ہی ابتر (خیر سے محروم) ہے اور یہ محبت کی علامت ہوتی ہے کہ اگر کوئی محبوب پر اعتراض کرے تو محب اس کا جواب دیتا ہے۔ یہ انداز قرآن مجید میں دیگر کئی جگہوں پر بھی ہے، مثلا: جب ولید بن مغیرہ نےنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیوانہ، مجنون کہا تو اللہ تعالیٰ نے ولید کی مذمت میں اس کی نو(9)خامیاں بیان کیں اور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا کہ تم اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہو۔(پ29، القلم:2) اسی طرح ابولہب نے ایک موقع پر نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت میں پوری سورت اتاری اور فرمایا: ابولہب کے دونوں ہاتھ برباد ہوجائیں اور وہ ہلاک ہو ہی گیا۔(پ30، اللھب:1)


آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوثر یعنی بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ کوثر کا لفظ کثرت سے نکلا ہے اور مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے : بہت ہی زیادہ، بےانتہا کثرت، کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ لوگ اندازہ نہ لگاسکیں، وہ کثرت تعداد میں ہو یا مقدار ومرتبہ ومعیار میں یا کسی اور اعتبار سے۔ گویا یہ فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے دشمن تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تمہارے پاس کچھ نہیں حتی کہ بیٹا بھی فوت ہوگیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں اتنا دیا ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔


لفظ ِ کوثر میں بہت کچھ داخل ہے۔ ایک قوی قول یہ ہے کہ کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے چنانچہ ابوداؤدمیں ہے کہ ایک مرتبہ رسولُ اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی آنکھ لگ گئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا اور فرمایا : مجھ پر ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ نے سُوْرَةُ الْکَوْثَر آخر تک پڑھی اور فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : وہ جنت میں ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔(ابو داؤد،ج 4،ص313، حدیث:4747 ملتقطاً) ایک حدیث میں نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں جنت میں چلا جا رہا تھا تو اچانک ایک نہر آ گئی جس کے کنارے کھوکھلے موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے کہا : اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ پھر دیکھا تو اس کی خوشبو یا مٹی مہکنے والی کستوری کی طرح تھی۔(بخاری،ج 4،ص268، حدیث:6581) کوثر کے متعلق دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد حوضِ کوثر ہے چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ کو اونگھ آ گئی پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر اقدس بلند کیا اور فرمایا: ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے پھر آپ نے سورۂ کوثر تلاوت کی اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا: یہ وہ نہر ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں خیرِ کثیر ہے اور یہ وہ حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت پینے کےلئے آئے گی۔(مسلم، ص169، حدیث:894)


نہر کوثر جنت میں ہے اور حوض کوثر محشر کے میدان میں ہوگا، اس میں بھی جنت کے دو پرنالوں سے پانی گر رہا ہوگا۔ گویا حوض کی اصل بھی جنت والی نہر کوثر ہے۔(فتح الباری،ج 12،ص398ماخوذاً) حوضِ کوثر کی شان میں مسلم شریف کی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے برتن تاریک رات میں صاف روشن آسمان پر چمکنے والے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں۔جو اس سے آبِ کوثر پیے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، اس حوض کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے، جتنا عمان سے ایلہ تک فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔(مسلم، ص969، حدیث:5989)


نہر ِکوثر اور حوضِ کوثر بظاہر دو قول ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب ایک ہی قول کا حصہ ہیں اور وہ ہے ’’خیرِ کثیر‘‘ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُما کا قول ہے کہ کوثر سے مراد وہ خیر ہے جو اللہ نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو عطا فرمائی۔راوی کہتے ہیں: میں نے سعید بن جبیر رَضِیَ اللہ تَعَالی عَنْہُ سے پوچھا کہ لوگ توکہتے ہیں: وہ جنت میں ایک نہر ہے ؟اس پر آپ نے جواب دیا کہ جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اس خیر میں شامل ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی۔(بخاری،ج 3،ص390، حدیث:4966)


مجموعی طور پر ’’کوثر‘‘کی تفسیر میں تقریبا 30 اقوال ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بے انتہا خیر عطا کی گئی جس میں سب چیزیں داخل ہیں مثلاً ”خیرِکثیر‘‘ میں قرآن مجید بھی یقیناً داخل ہے کہ اس سے عظیم خیر اور کیا ہوگی؟ یونہی نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کواعلیٰ درجے کی حکمت بلکہ حکمتوں کے خزانے عطا کئے گئے اور حکمت کو خود قرآن نے خیرِ کثیر فرمایا ہے(پ3، البقرہ:269) یونہی جوامع الکلم یعنی کثیر معانی کوچند لفظوں میں سمونے کی صلاحیت عطا کی گئی۔


الغرض فرمایا گیا کہ اے حبیب! بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں، تمہیں قرآن،نبوت، رسالت، اسلام، آسان شرعی احکام، حکمت، علم، معرفت اورنورِ قلب سے مشرف کیا۔ تمہارے پاکیزہ کردار کو عبادت وریاضت اور اخلاقِ حسنہ، خصائلِ حمیدہ، شمائلِ جمیلہ سے آراستہ کیا۔ تمہیں کثیر معجزات، شفاعت، مقامِ محمود، حوضِ کوثر، نہرِ جنت اور ساری جنت عطا کی۔ تمہیں صحابۂ کرام کی پاکیزہ جماعت، امت کی کثرت،دین کا غلبہ، دشمنوں پر رعب اور فتوحات سے نوازا۔ تمہارا نسب عالی کیا اور تمہیں حسنِ ظاہر وباطن میں کامل بنایا۔ شرق وغرب، زمین و آسمان، دنیا وآخرت ہر جگہ ذکرِ حسن، تعریف و تحسین اورثناءِ جمیل کی صورت میں تمہیں رفعتِ ذکر عطا کی۔


ان تمام نعمتوں کے شکرانے میں تم اپنے رب کےلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ تمہیں اَبْتَر کہنے والا دشمن ہی خیر سے محروم ہے جبکہ تم تو بےانتہا خیر سے مالا مال ہو۔ سُبْحٰنَ اللہ! کس خوبصورت انداز میں رَبُّ الْعٰلَمِین نے شانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم بیان فرمائی ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی کو اپنے شعر میں یوں بیان فرماتےہیں:


اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدّاحِ حضور


تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسولُ اللّٰہ کی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے