Header Ads

ولادت سرکار پر تذکرہ یارِ ‏. غلام مصطفےٰ نعیمی

سیدنا ابوبکر: صدیق بھی، رفیق بھی 

ولادت سرکار پر تذکرہ یارِ

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی 

عام الفیل(570ء) کو دو سال چھ ماہ گزرے تھے کہ ابو قحافہ عثمان بن عامر کے گھر ایک سعادت مند بچے نے آنکھیں کھولیں۔نام عبدالکعبہ رکھا گیا۔خو بعد میں بدل کر عبداللہ کردیا گیا تھا۔پرورش کا زمانہ شروع ہوگیا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ عرب معاشرے میں دنیا بھر کی ساری برائیاں عام تھیں۔شراب نوشی و زنا کاری ان کا شوق تھی اور بت پرستی ان کی فطرت!
اسی بگڑے ہوئے معاشرے میں بچے نے پروان چڑھنا شروع کیا۔ جب یہ بچہ چار سال کا ہوگیا تو ایک دن ابو قحافہ اسے اپنے ساتھ لیکر بت خانے پہنچے اور ایک بڑے بت کی جانب اشارہ کرکے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ننھے بچے نے ایک نظر باپ کو دیکھا اور پھر بت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
"میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے۔میں تجھے پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو خود کو بچالے۔"
اتنا کہہ کر پتھر اٹھایا اور بت کو دے مارا۔بھلا وہ پتھر کی مورت کیا جواب دیتی اور کیا خود کو بچاتی؟پتھر لگا اور بت اوندھے منہ گر پڑا۔ابو قحافہ نے غضب ناک ہوکر بیٹے کے چہرے تھپڑ مارا۔مارے غصے کے گھسیٹتے ہوئے ان کی والدہ ام الخیر سلمی بنت صخر کے پاس لائے اور اس حرکت کی شکایت کی۔والدہ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا:
"ابو قحافہ! بچے کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔جب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے غیب سے اس کے بارے میں اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔"

(سیرت خلیفۃ الرسول:ص37/38)

بت پرستی عربوں کی رگوں میں رچی بسی تھی لیکن فضل ربی نے اس بچے کو شرک کی گندگی سے محفوظ رکھا۔جانتے ہیں یہ بچہ کون تھا؟
یہ خوش نصیب بچہ کوئی اور نہیں حضور سید عالم ﷺ کے یار غار سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے۔
بچپن گزرا، جوانی آئی۔عربوں کی خاندانی روایت کے مطابق آپ نے بھی تجارت کرنا شروع کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب پورے مکہ میں محمد عربیﷺ کی شرافت اور نیک نامی کی دھوم تھی۔لوگ اس جوان کی ایمان داری اور امانت داری کی قسمیں کھاتے تھے۔اتفاق یہ ہوا کہ ایک تجارتی سفر پر صدیق اکبر کو محمد عربیﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی۔سفر ملک شام کا تھا۔راستے میں ایک مقام پر بیری کا درخت تھا۔حضور اس کی چھاؤں میں بیٹھ گئے۔وہیں پاس میں ایک عیسائی راہب رہتا تھا۔اس نے آپ ﷺ کو دیکھا تو صدیق اکبر سے پوچھا،یہ شخص کون ہے؟
آپ نے جواب دیا:
عبد اللہ بن عبدالمطلب کے شہزادے محمد ہیں۔ﷺ
راہب نے کہا خدا کی قسم! یہ نبی ہیں۔اس درخت کے نیچے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعد سے آج تک کوئی نہیں بیٹھا۔راہب کی یہ بات آپ کے دل پر نقش ہوگئی اور آپ نے حضورﷺ کی صحبت ورفاقت کو خود پر لازم کرلیا۔
(تاریخ مشائخ نقش بندیہ:ج1:ص121/122)

حضورﷺ کے اعلان نبوت سے پورے مکہ میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔کل تک جس کی سچائی کی قسمیں کھائی جاتی تھیں آج اسے جھٹلایا جارہا تھا۔جس کی عقل وذہانت کی مثالیں دی جاتی تھیں آج اسی کو مجنون قرار دیا جارہا تھا۔جس وقت یہ معاملہ پیش آیا صدیق اکبر مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔جب آپ واپس لوٹے تو حضور کے اعلان نبوت کے بارے میں خبر ملی۔خبر ملتے ہی آپ ﷺ سے ملاقات کی۔حضور ﷺ نے اسلام پیش فرمایا۔آپ نے بغیر سوچ وبچار کے فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن عبدالرحمٰن نے بروایت عبد اللہ بن الحصین التمیمی بیان کیا:
 أن رسول الله ﷺ ـ قال: ما دعوت أحدا إلى الإسلام إلا كانت عنده كبوة و تردد و نظر، إلا أبا بكر ما عتم عنه حين دعوته، و لا تردد فيه
"رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے کسی کو بھی اسلام کی دعوت دی تو اس کو تذبذب میں پایا اور اس کو تردد ہوا سوائے ابو بکر کے۔جب میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر تذبذب اور تردد کے اسلام قبول کرلیا۔
(تاریخ الخلفا للسیوطی:ص32)

اللہ اکبر! 
جس کے ایمان کی فضلیت خود "جان ایمان" بیان کریں اس کے مقام ومرتبے کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟
قبل اسلام بھی صدیق اکبر عرب میں رائج برائیوں سے پاک وصاف تھے قبول اسلام کے بعد آپ کا کمال اور بڑھ گیا۔آپ نے خود کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وقف کردیا۔اور بڑے پیمانے پر دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا۔سب سے پہلے آپ نے اپنے اہل خانہ کو دین کی دعوت پیش کی۔آپ کی شہزادی حضرت اسما رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"ہمارے بابا جس دن ایمان لائے اسی دن سب گھر والوں کو اسلام کی دعوت پیش کی۔آپ اس وقت تک مجلس سے نہیں اٹھے جب تک ہم سب نے اسلام قبول نہیں کرلیا۔"
اہل خانہ کے بعد صدیق اکبر نے اپنے دوست واحباب کے درمیان تبلیغ دین کا آغاز فرمایا۔آپ کی مخلصانہ تبلیغ اور شخصیت سے متاثر ہوکر کئی مشاہیر افراد نے اسلام قبول فرمایا، اہم افراد میں حضرت عثمان غنی،حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ بن عبیداللہ،حضرت سعد بن وقاص، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف جیسی شخصیات شامل ہیں۔یہ پانچوں افراد "عشرہ مبشرہ" کی خوش نصیب جماعت کا حصہ ہیں۔عشرہ مبشرہ ان دس افراد کی جماعت کا نام ہے جنہیں حضورﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ان دس خوش نصیبوں میں پانچ افراد نے حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول فرمایا۔
اعلان نبوت کا دسواں سال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو ایک ایسے سفر پر بلایا جو آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی کے نصیب میں نہیں آیا۔اس سفر کا ذکر قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ۔
 ﴿سورہ بنی اسرائیل:۱﴾ 
"پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا۔مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی۔کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔"

مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصی (فلسطین)تک کا سفر "اسرا" کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں مکہ سے فلسطین کا فاصلہ تقریباً ایک مہینے سے زیادہ وقت میں طے ہوا کرتا تھا۔صدرالافاضل فرماتے ہیں:
"جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ سے زیادہ کی راہ ہے۔"
لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سفر صرف رات کے ایک حصے میں ہی کرادیا۔سفر کا اگلا مرحلہ مسجد اقصی سے آسمانوں کے سفر کا تھا۔جسے معراج کہا جاتا ہے۔سفر کا یہ مرحلہ ایک رات کے کچھ ہی حصے میں مکمل ہوا۔صبح مصطفےٰ جان رحمت نے اہل مکہ سے اس سفر کا تذکرہ فرمایا تو اہل مکہ نے آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جو سفر ایک مہینے میں طے ہوتا ہے وہ آپ نے رات کے مختصر وقت میں کیسے کرلیا؟
مکہ کا ہر انسان آپ ﷺ کو جھٹلا رہا تھا۔کیوں کہ عقلاً یہ سفر ناممکن تھا۔تیز رفتار گھوڑے اور اونٹ بھی ایک ماہ سے کم وقت میں مکہ سے فلسطین نہیں پہنچا سکتے تھے۔اس لیے کفار مکہ مسلسل آپ کے خلاف باتیں بنا رہے تھے۔مگر قربان جاؤں ابوبکر کی محبت پر کہ جب آپ نے یہ سنا تو فوراً حضور کی تصدیق فرمائی۔اسی واقعے کے بعد آپ کو بارگاہ رسالت سے صدیق اکبر کا خطاب حاصل ہوا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
 لما أسري بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد الأقصى؛ أصبح يتحدث الناس بذلك؛ فارتدَّ ناس ممن كان آمنوا به وصدقوه، وسعى رجال من المشركين إلى أبي بكر رضي الله عنه، فقالوا: هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أُسري به الليلة إلى بيت المقدس؟ قال: أو قال ذلك؟ قالوا: نعم قال: لئن قال ذلك لقد صدق، قالوا: أو تصدقه أنَّه ذهب الليلة إلى بيت المقدس، وجاء قبل أن يصبح؟ فقال: نعم، إني لأصدقه ما هو أبعد من ذلك، أصدقه في خبر السماء في غدوة أو روحة. فلذلك سُمِّي أبا بكر الصديق رضي الله عنه۔
(تاریخ الخلفا للسیوطی:ص 28)
"حضرت عائشہ فرماتی ہیں جس رات حضور کو معراج ہوئی تو صبح ہی مشرکین مکہ نے میرے والد کے پاس آکر کہا: آپ کو کچھ خبر ہے کہ آپ کے دوست یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ رات میں بیت المقدس پہنچا دئے گئے۔حضرت ابوبکر نے پوچھا کیا واقعی وہ ایسا کہتے ہیں؟
مشرکین نے کہا ہاں وہ یہی کہتے ہیں۔تو حضرت ابوبکر نے فرمایا وہ سچ کہتے ہیں۔اگر حضور صبح یا شام کو اس سے زیادہ آسمانوں کی سیر کی بھی خبر دیتے ہیں تو میں فوراً ہی اس کی تصدیق کرتا۔اسی تصدیق کی بنا پر آپ صدیق اکبر کے لقب سے مشہور ہوئے۔حضور سید عالم ﷺ فرماتے ہیں:
إنَّ الله بعثني إليكم، فقلتم: كذبت. في أول الأمر، وقال أبو بكر: صدقت. وواساني بنفسه وماله،
"اللہ تعالیٰ مجھے تمہاری جانب پیغمبر بنا کر بھیجا لیکن سب نے شروع میں مجھے جھٹلایا مگر ابوبکر نے میری تصدیق کی اور اپنے جان ومال کو میرے اوپر نچھاور کیا۔
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به :"ان قومي لا يصدقوني " فقال له جبريل :يصدقك أبو بكر وهو الصديق " مجمع الزوائد (19/41)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شب معراج میں نے جبریل سے کہا کہ میری قوم اس معراج کی تصدیق نہیں کرے گی۔حضرت جبریل نے عرض کیا:حضرت ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے وہ صدیق ہیں۔
امام حاکم نے نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین آپ ہمیں حضرت ابوبکر کے بارے میں بتائیے۔حضرت علی نے فرمایا:
"ذاك امرؤ سماه الله الصديق على لسان جبريل وعلى لسان محمد ، كان خليفة رسول الله- صلى الله عليه وسلم - رضيه لديننا فرضيناه لدنيانا۔(تاریخ الخلفا للسیوطی:ص 28)

"حضرت ابوبکر کی ہستی وہ ہستی ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل امین اور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی زبان مبارک سے صدیق رکھا۔اور وہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ تھے۔پس جس شخص سے رسول اللہ ﷺ ہمارے دینی معاملات میں راضی ہوئے ہم اس سے اپنی دنیا کے معاملات کے لیے راضی ہوگئے۔(انہیں اپنا خلیفہ منتخب کر لیا)

جسے فرشتوں کا سردار صدیق کہے ، جسے انبیا کے سردار صدیق کہہ کر پکاریں تو امت انہیں صدیق کیوں نہ کہے:
اصدق الصادقیں ، سید المتقیں
چشم و گوش وزارت پہ لاکھوں سلام

امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
صحب ابوبکر النبي عليه الصلاة والسلام من حين اسلم الي حين توفي لم يفارقه سفرا ولا حضرا ،الا فيما أذن له عليه الصلاة والسلام في الخروج فيه من حج وغزو ،وشهد معه المشاهد كلها ، (التاريخ الخلفا للسيوطي :32)
"تمام علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق قبول اسلام کے بعد سے حضور اقدس ﷺ کے وصال تک سفر وحضر میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔ سوائے اس کہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے آپ نے حج یا کسی غزوے میں شرکت کی ہو۔ ورنہ آپ ہر حال میں ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔یہ ساتھ اتفاقی نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود اپنے محبوب ﷺ کا ساتھی(صاحب) بنایا تھا:
اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔(سورہ توبہ :40)
"جب وہ دونوں غار میں تھے تو اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"

جسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوب کا صاحب(رفیق) بنایا ہو بھلا وہ کیوں کر حضور ﷺ سے دور رہ سکتا تھا؟
جب آپ رات کو گھر تشریف لے جاتے تو حضور سے ملنے کی خاطر پوری رات بے چینی سے گزارتے۔جیسے ہی صبح صادق کا وقت آتا فوراً حاضر خدمت ہوجاتے۔حضور علیہ السلام سے اس قدر محبت تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اسی دن اپنے پاس بلایا جس دن حضور ﷺ نے وصال فرمایا تھا۔
عن عائشة رضي‮ ‬اللّه عنها قالت‮: ‬إن أبابكر لما حضرته الوفاة قال‮: ‬أي‮ ‬يوم هذا؟ قالوا‮: ‬يوم الاثنين،‮ ‬قال‮: ‬فإن مت من ليلتي‮ ‬فلا‮ ‬تنتظروا بي‮ ‬لغد،‮ ‬فإن أحب الأيام والليالي‮ ‬إليّ‮ ‬أقربها من رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم‮.رواہ احمد (تاریخ الخلفا للسيوطي:68)
"ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جس روز حضرت ابوبکر کی وفات ہوئی آپ نے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟
عرض کیا گیا دوشنبہ ہے۔ فرمایا کہ آج رات میں انتقال کر جاؤں مجھے دفن کرنے میں کل تک تاخیر نہ کی جائے میں رسول اللہ ﷺ تک جتنا جلد پہنچ جاؤں اتنا ہی اچھا ہے۔"

 جیسا محبوب نے چاہا ویسا ہی ہوا۔ پیر کی رات میں بعمر 63 سال آپ کا وصال ہوا اور رات میں ہی آپ کو آپ کے محبوب ﷺ کے پہلو میں دفن کردیا گیا اس طرح جدائی کا صبر آزما زمانہ ختم ہوا اور یار غار یار مزار بن گیا۔

یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل
ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام

12 ربیع النور 1442ھ
30 اکتوبر 2020 بروز جمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے