Header Ads

صمصام سنیت کی عبارت پر دیوبندی اعتراض

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

”صمصام سنیت“ کی عبارت پر دیوبندی اعتراض
دیابنہ کا یہ اعتراض ہے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے”صمصام سنیت“میں اسماعیل دہلوی کے کفر کو کفر التزامی کہا،پھر بھی اسے کافر نہیں کہا۔اگر دیوبند ی لوگ کسی پر اعتراض کی بجائے اپنے ایمان کی فکر کرتے تو امید تھی کہ راہ حق کوپالیتے۔اس رسالے کا پس منظر اور دیوبندی اعتراض کا جواب مندرجہ ذیل ہے۔

حامی سنت ماحی بدعت حضرت مولانا حافظ قاضی محمد عبد الوحید حنفی فردوسی علیہ الرحمۃوالرضوان:منتظم ماہنامہ تحفہ حنفیہ (پٹنہ)نے 27:محرم الحرام 1316ھ کوامام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیز کا رسالہ ”سل السیوف الہندیۃعلیٰ کفریات باباالنجدیہ“اراکین ندوہ میں سے (۱)صدر ندوہ:لطف اللہ حیدرآبادی،(۲)ناظم ندوہ:محمد علی مونگیری اور(۳)رکن ندوہ:شاہ سلیمان پھلواروی کے نام بذریعہ رجسٹری بھیجا۔

امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے مذکورہ رسالہ میں اسماعیل دہلوی کی کفریہ عبارتوں پر بحث فرمائی ہے۔ حیدر آباد کے کسی عبد اللہ نامی نے اسماعیل دہلوی کی حمایت میں چندصفحاتی تحریر لکھ کر حضرت قاضی عبد الوحید فردوسی علیہ الرحمہ کو بھیجا۔

حضرت قاضی عبد الوحید قدس سرہ القوی نے اس کا جواب ایک مختصر رسالہ میں دیا۔وہی رسالہ ”صمصام سنیت بگلوئے نجدیت“(1316)کے نام سے موسوم ہے۔

اس رسالے کوامام اہل سنت کی طرف منسو ب کیا جاتا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ اس رسالے کے مضامین امام اہل سنت کی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔

قاضی عبد الوحید فردوسی علیہ الرحمہ نے اسی رسالے میں حیدرآبادی کے جواب میں درج ذیل عبارت لکھی:

”بالجملہ کفریہ اولیٰ میں علم قدیم الٰہی کا انکار کلام اسماعیل سے ہرگز لزوماً ثابت نہیں،بلکہ بالیقین التزاماً ہے۔اب آپ اپنا لکھا یاد فرمائیں کہ علم قدیم کی نسبت اختیار کی صراحت ہوئی تو حکم کفرکا چنداں مضایقہ نہ تھا“۔
(صمصام سنیت بگلوئے نجدیت ص 97,96-مطبع اہل سنت وجماعت بریلی شریف)

اعلی حضرت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:”کفریہ اول:تقویۃ الایمان،مطبع فاروقی دہلی،ص ۰۲:
”غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہوکہ جب چاہے،کرلیجیے،یہ اللہ صاحب ہی کی شان ہے“۔
اس کاصاف یہ مطلب کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے۔جب چاہے،غیب کی بات دریافت کر لے توصراحۃً لازم کہ اسے بالفعل علم غیب حاصل نہیں۔ہاں،حاصل کرلینے کا اختیار رکھتا ہے۔یہاں صراحۃً اللہ تعالیٰ کی طرف جہل کی نسبت کیا اوراس کے علم قدیم کوازلی نہ مانا اور اس کی صفت کو اختیاری جانا۔یہ تینوں باتیں صریح کفر ہیں“۔ 

(سل السیوف الہندیہ علیٰ کفریات بابا النجدیہ ص241-242)

حیدرآبادی نے لکھا:”یہ بھی ظاہر ہے کہ لزوم کفر کفر نہیں،بلکہ التزام کفر کفر ہے،پس سوال اول میں جو آپ لکھتے ہیں کہ صراحۃً لازم کہ اسے بالفعل علم غیب حاصل نہیں:انتہی
اور اس لزوم سے کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔بعید از انصاف ہے۔اگر آیت ”لیعلم اللہ“کو ملاحظہ فرمایا ہوتا اور اس کی تفسیر دیکھی ہوتی تو شاید اس قدر جرأت نہ ہوتی۔البتہ علم قدیم باری تعالیٰ کی نسبت اختیاری ہونے کی قائل کے کلام میں صراحت ہوئی تو حکم کفر کا چنداں مضایقہ نہ تھا“۔(صمصام سنیت ص 68-69-مطبع اہل سنت بریلی)

قاضی عبد الوحید فردوسی نے حیدرآبادی کے الزامی جواب کے طورپر مذکورہ بالا عبارت رقم فرمائی۔اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جب حیدرآبادی مسئلہ علم الٰہی میں اسماعیل دہلوی کے لیے التزامی کفر مانتا ہے اور یہ بھی لکھتا ہے کہ اس اعتبارسے اسماعیل پر حکم کفر میں کوئی مضایقہ نہیں تو حیدرآبادی کوچاہئے کہ اس مسئلہ کے اعتبارسے اسماعیل کو کافر مانے،کیوں کہ التزامی کفر کے وقت حیدرآبادی بھی کفر کو تسلیم کرتا ہے،گرچہ لزوم کفر پر حکم کفر عائد کرنے کو تسلیم نہیں کرتا۔مذکورہ مسئلہ میں جب اسماعیل پر التزامی کفر ثابت ہے تو حیدرآبادی کاانکار اسی کی تحریر کی روشی میں غلط ہے۔


دیوبندی اعتراض کی تفصیل
 
دیابنہ کے اعتراض کی تفصیل یہ ہے کہ کفر التزامی کفر کلامی ہے۔جب اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے اسماعیل دہلوی کے کفرکوکفر کلامی کو مان لیاتو پھر دہلوی کو کافر کیوں نہیں کہا؟اب تک تو سنی حضرات یہ تاویل کرتے رہے کہ اسماعیل دہلوی کا کفر کفرفقہی ہے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے،اس لیے آپ نے اسماعیل دہلوی کوکافرنہیں کہا،لیکن صمصام سنیت کی عبارت بتار ہی ہے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے یہاں اسماعیل دہلوی کی بعض عبارتیں کفر کلامی کی ہیں تو ایسی صورت میں اسماعیل دہلوی کوکافر نہ کہنے کی وجہ کیا؟


دیوبندی اعتراض کاجواب 
 
یہ غلط فہمی ہے کہ کفر التزامی کفر کلامی ہے۔ کفر صریح کو کفر التزامی کہا جاتا ہے۔صریح کی دو قسمیں ہیں:
(الف)صریح متبین (ب)صریح متعین۔

مفسر صریح متعین ہے اور نص صریح متبین ہے۔

مفسر میں احتمال بعید کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔نص میں احتمال بعید کی گنجائش ہوتی ہے۔

متکلمین احتمال بعید کو قبول کرتے ہیں اور فقہا احتمال بعید کوقبول نہیں کرتے۔وہ صرف احتمال قریب کو قبول کرتے ہیں اور احتمال باطل کو فقہا و متکلمین دونوں قبول نہیں کرتے۔

جو کفر صریح متعین ہو، یعنی جو کفر، مفسر ہو، وہ متکلمین کے یہاں کفر التزامی ہے۔اس وقت متکلمین حکم کفر جاری کرتے ہیں۔کفر مفسر کو کفر کلامی کہا جاتا ہے۔اس میں تاویل قریب یا تاویل بعیدکی گنجائش نہیں ہوتی۔ 

متکلمین کفر کلامی کے علاوہ ہرکفر کو کفر لزومی کہتے ہیں اور فقہا کے یہاں فرق ہے۔

فقہا کفر متبین اور کفر متعین،یعنی کفرصریح کی دونوں قسموں کو کفر التزامی کہتے ہیں اور اس کے علاوہ جو کفر کی قسمیں ہیں،ان کو کفر لزومی کہتے ہیں۔ اس طرح فقہاکے یہاں کفر متبین کفر التزامی ہے اور متکلمین کے یہاں کفر متبین بھی کفر لزومی ہے۔

 فقہا کے یہاں کفر التزامی کی دوقسمیں ہیں:کفر متبین اور کفر متعین۔

متکلمین کے یہاں کفر التزامی کی صرف ایک قسم ہے،یعنی کفر متعین۔اسی کفرمتعین کو کفر کلامی کہا جاتا ہے۔

چوں کہ فقہا کے یہاں کفر متبین بھی کفر التزامی ہے،اس لیے وہ کفر متبین میں بھی ”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا حکم جاری فرماتے ہیں،جیسا کہ اسماعیل دہلوی کی تکفیر میں یہی حکم علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے جاری فرمایا۔

بعض احباب کو یہاں غلط فہمی ہوئی اور سمجھ بیٹھے کہ ”من شک:الخ“کا استعمال صرف کفر کلامی میں ہوتا ہے۔دراصل کفر صریح (کفر التزامی)میں اس کلیہ (من شک:الخ)کا استعمال ہوتا ہے۔

کفر متبین میں احتمال بعید ہوتاہے اور احتمال بعید متکلمین کے یہاں قبول کیا جاتا ہے،لیکن چوں کہ احتمال بعید پر کوئی دلیل نہیں ہوتی (احتمال بلادلیل کا نام احتمال بعید ہے،پھر اس احتمال پر دلیل پائے جانے کا سوال ہی نہیں) تواحتمال کا لحاظ کرکے متکلمین حکم کفر جاری نہیں کرتے اور عدم دلیل کا لحاظ کرکے حکم ضلالت جاری کرتے ہیں۔

یہاں فقہا ومتکلمین کا محض لفظی اختلاف ہے۔اس کی تفصیلی بحث ”البرکات:رسالہ دہم“میں مرقوم ہے۔

سل السیوف الہندیہ اور الکوکبۃ الشہابیہ میں مذہب فقہا کے مطابق دہلوی کی عبارتوں سے بحث ہے،اس لیے اس میں مذہب فقہا کے مطابق اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے۔اس کا ذکر حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ القوی نے ”الموت الاحمر“میں فرمایا ہے۔

صمصام سنیت میں بھی مذہب فقہا کے مطابق دہلوی کی عبارتوں سے بحث ہے، پس جہاں کفر متبین ہے،وہاں مذہب فقہا کے مطابق کفر التزامی کا لفظ استعمال ہوگا۔دہلوی کی بعض عبارتوں میں کفرمتبین نہیں پایا جاتا تو اسے فقہا کے مطابق بھی کفرلزومی کہنا ہوگا اور متکلمین کے مطابق دہلوی کی کسی عبارت میں کفر التزامی یعنی کفر متعین (کفرمفسر)نہیں پایا جاتا۔  
  
چوں کہ یہاں توضیح کی ضرورت ہے،اس لیے البرکات النبویہ کا ایک اقتباس منقولہ ذیل ہے۔


کفرکلامی کا تعین اورکفر فقہی کی قسموں کا بیان 

(۱)اگرکسی ضروری دینی کامفسر انکار،علم یقینی ہوتے ہوئے،ہوش وحواس کے ساتھ،اپنے قصدواختیارسے کرے،تویہ کفر ہے۔ خواہ تاویل کے ساتھ انکارہویا بلاتاویل،دونوں صورت میں فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں حکم کفر ہے۔یہ کفر التزامی وکفرکلامی ہے۔

(۲)اگر کسی ضروری دینی کا انکاربطریق نص ہو،خواہ تاویل کے ساتھ انکارہویا بلاتاویل،دونوں صورت میں یہ انکار فقہاکے یہاں کفر اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے،کیوں کہ متکلمین کے یہاں التزام کفر نہیں پایا گیا،بلکہ تاویل بعیدکی گنجائش ہے،اورفقہاکے یہاں التزام کفر ثابت ہوگیا اورتایل بعید فقہا کے یہاں مقبول نہیں۔ہم نے اس قسم کا نام کفرفقہی قطعی رکھا ہے۔

(۳)اگر کسی ضروری دینی کا انکار بطریق لزوم ہو،یعنی ترتیب مقدمات کے بعدضروری دینی کاانکارلازم آتا ہو، لیکن قطعی طورپر منکر نے اس کا انکار نہیں کیا تویہ کفرفقہی لزومی ظنی ہے۔ متکلمین کفرفقہی لزومی ظنی کی بعض صورتوں کو ضلالت کہتے ہیں،اوربعض صورتوں کوتسلیم نہیں کرتے۔اس کی تفصیلی بحث ماقبل میں ”کفرفقہی کی متعدد صورتیں اور متکلمین“کے عنوان کے تحت مرقوم ہوئی۔ 
کذب کا محض امکان عقلی ماننے سے صدق الٰہی کا انکار لازم آتا ہے،اورکذب کا امکان وقوعی مان لینے سے صدق الٰہی کا قطعی بالمعنی الاخص بطلان ہوجاتا ہے۔ خلافت صدیقی کے انکار کے سبب تضلیل جمیع صحابہ لازم آتی ہے،لیکن روافض نے تضلیل جمیع صحابہ کا اقرار نہیں کیا،بلکہ صحابہ کرام میں جواہل بیت ہیں،ان کوروافض اپنا مقتدا مانتے ہیں۔یہ فقہا کے یہاں کفراورمتکلمین کے یہاں ضلالت ہے۔ اس سبب سے متکلمین روافض کو گمراہ اور فقہاکافر کہتے ہیں۔اگر تضلیل جمیع صحابہ بطریق مفسر ہو تو متکلمین کے یہاں بھی کفر ہو گا۔
 
(۴)ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت(قطعی بالمعنی الاعم امور) کا تاویل کے ساتھ انکار فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر اور متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔ خواہ یہ انکار مفسر طورپر ہو،یا نص کے طورپر۔معتزلہ کا رویت الٰہی اورشفاعت مذنبین کا انکار اسی قبیل سے ہے۔  

(۵)اگر ضروریات اہل سنت (قطعی بالمعنی الاعم امور)کا انکار بطریق لزوم ہو،یعنی ترتیب مقدمات کے بعد انکار لازم آتا ہو، لیکن قطعی وصریح طورپر منکر نے اس کا انکار نہیں کیا تویہ فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفرفقہی لزومی میں شامل ہوگا۔اب جن کے یہاں لزوم کفر ثابت ہوگا، وہ اس کلام کو کفریہ قرار دیں گے۔جن کے یہاں لزوم ثابت نہیں ہوگا،وہ اس کلام کو کفر یہ قرار نہیں دیں گے۔

(۶)ضروریات اہل سنت یاکسی امر غیرضروری دینی کو دین کا امرقطعی مان کر بلاتاویل اس کامفسرانکارکرنا تحقیر دین اورکفر کلامی ہے۔ غیر مفسر انکارفقہاکے یہاں کفراورمتکلمین کے یہاں ضلالت ہے، جیسے حدیث موضوع کو حدیث نبوی اعتقاد کرکے محض قول نبوی ہونے کے سبب انکارمفسربسبب تنقیص شان نبوی کفر کلامی ہے۔اس کاغیرمفسرانکارفقہا کے یہاں کفر اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے۔ 

(۷)بعض فقہا غیر صحابہ کے اجماعی امور کے انکارکوبھی کفرکہتے ہیں۔یہ متکلمین کی بحث سے خارج ہے،یعنی فقہی بحث میں داخل ہے۔یہ حرام ہوگا اور متکلمین حرمت وعدم جواز سے بحث نہیں کرتے۔کبھی ضمنی طورپر حرام وناجائز کی بحث علم کلام میں شامل کی جاتی ہے۔

(۸)کفر محتمل جہاں تاویل قریب کی گنجائش موجود ہو،وہاں فقہا کا بھی اختلاف ہے،اور متکلمین گمرہی کا حکم بھی نافذنہیں کرتے۔

(البرکات النبویۃ فی الاحکام الشرعیہ جلد دوازدہم ص 111)

 وما توفیقی الاباللہ العلی العظیم:والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:21:اکتوبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے