مسلک اعلیٰ حضرت کیوں کہتے ہیں

مسلک اعلیٰ حضرت کیوں کہتے ہیں

از قلم: مولانا محمد یوسف رضا قادری
اِس موضوع پر یہ وہ تحریر ہے جسے تاجدار خانقاہ مارہرہ مطہرہ حضرت علامہ ڈاکٹر سید امین میاں مارہروی دامت 

برکاتہم القدسیہ نے بے حد پسند فرمایا اور اپنے اہتمام سے اسے چھاپ کر تقسیم فرمایا۔


 سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ مسلکِ اعلحضرت سے مراد معاذاللہ کوئی نیا مسلک نہیں ہے ۔ بلکہ جس مسلک پر آج مسلکِ اعلیٰحضرت کا اطلاق ہو رہا ہے یہ وہی مسلک ہے جس پر صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین ، صالحین اور علماء امّت قائم تھے ۔
 دراصل اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریباڈیڑھ صدی قبل ہندوستان کی سرزمین پر کئی نئے فرقوں نے جنم لیا اور ان فرقوں کے علمبرداروں نے اہلسنّت و جماعت کے عقائد ومعمولات کو شرک و بدعت قرار دینے کی شرمنا ک روش اختیا ر کی ۔ خصوصاً مولوی اسمعیل دہلوی نے وہابی مسلک کی اشاعت کے لئے جو کتاب ــ تقویت الایمان کے نام سے مرتّب کی اس میں علم غیبِ مصطفے ﷺ ، حاضرو ناظر ، شفاعت ،استعانت ، نداء یا رسول اللہ ﷺ ، حیات النبی ﷺ ،اختیا رات النبی ﷺ ،وغیرہ تمام عقائدکو معاذاللہ کفر و شرک قرار دے دیا ۔ جب کہ یہ سارے عقائد روزِ اول سے قرآن و سنّت سے ثابت شدہ ہیں ۔اسی طرح میلا د ، قیام ، صلوۃ وسلام، ایصال ِ ثواب ، عرس یہ سب معمولات جو صدیوں سے اہلسنّت و جماعت میں رائج ہیں اور علماء امّت نے انہیں باعثِ ثواب قرار دیا ہے ۔ لیکن نئے فرقوں کے علمبرداروں نے ان عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دیتے ہوئے اپنی ساری توانائی انہیں مٹانے پر صرف کیں ۔ لیکن اسی زمانے میں علماء اہلسنّت نے اپنے قلم سے ان عقائد ومعمولات کا تحفظ فرمایا اور تحریر وتقریر اور مناظروں کے ذریعے ہر اعتراض کا دنداںشکن جواب دیا ۔
 عقائدکی اسی معرکہ آرائی کے دورمیں بریلی کی سرزمین پر امام احمد رضا خاں قدّس سرّہ پیدا ہوئے ۔ آپ ایک زبردست عالمِ دین تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ علمی صلا حیتوں سے مالا ما ل فرمایا تھا اور آپ تقریباً پچپن (55) علوم میں مہا رت رکھتے تھے خصوصاً علم فقہ میں آپ کے دور میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا ۔مولانا کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان کے مخا لف ہیں ۔ بہرحال مولانا نے اپنے دور کے علماء اہلسنّت کو دیکھا کہ وہ باطل فرقوں کے اعتراضات کے جوابات دے کر عقائد اہلِ سنت کا دفاع کر رہے ہیں ۔ تو آپ نے بھی اس عظیم خدمت کے لئے قلم اٹھایا اور اہلسنّت کے عقائد کے ثبوت میں دلائل وبراہین کا انبار لگادیا ۔ایک ایک عقیدہ کے ثبوت میں کئی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ ساتھ ہی ساتھ جو معمولات آپ کے زمانے میں رائج تھے ان میں سے جو قرآ ن وسنت کے مطابق تھے۔ آپ نے ان کی تائید فرمائی اور جو قرآن و سنت کے خلاف تھے آپ نے ان کی تردید فرمائی۔ اس طرح بے شمار مو ضوعات پر ایک ہزار (۱۰۰۰) سے زائد کتابوں کا عظیم ذخیرہ مسلمانوں کو عطا فرمایا۔بہر حال آپ نے باطل فرقوں کے ردمیںا ور عقائدو معمولاتِ اہل سنت کی تائید میں جو عظیم خدمات انجام دیں اس بنیاد پر آپ علماء اہلسنّت کی صف میں سب سے نمایاں ہو گئے۔ اور عقائد اہلسنّت کی زبردست وکالت کرنے کے سبب سے یہ عقائد امام احمد رضا کی ذات کی طرف منسوب ہونے لگے۔اور اب حال یہ ہے کہ آپ کی ذات اہلسنّت کا ایک عظیم نشان کی حیثیت سے تسلیم کر لی گئی ہے ۔یہی وجِہ ہے کہ کوئی حجازی یا شامی دیمنی یاعراقی و مصری بھی مدینہ منوّرہ میں ’’ یا رسول اللّٰہ‘‘ کہتا ہے تو نجدی اسے بریلوی ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ اس کا کوئی تعلق بریلی شہر سے نہیں ہوتا ۔ اس طرح اگر کوئی ’’اسئلک الشفاعت یارسول اللہ ﷺ‘‘ کہہ کر نبی کریم ﷺـ سے شفاعت طلب کرتا ہے تو وہ چا ہے جزیرۃ العرب ہی کا رہنے والاکیوں نہ ہو ، وہابی اسے بھی بریلوی ہی کہتے ہیں ۔ جب کہ بریلوی اسے کہنا چاہئے جو شہر بریلی کا رہنے والا ہو ۔ لیکن اس کی وجِہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلاف کے وہ عقائد ہیں جس کی امام احمد رضا قدس سرہ العزیز نے دلائل کے ذریعے شد ومدسے تائید فرمائی ہے ۔اور ان عقائد کے ثبوت میں سب سے نما یا ں خدمات انجام دی ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ عقائد امام احمدرضا سے اس قدر منسوب ہو گئے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان اگران عقائد کا قائل ہو تو اسے مولانا کی طرف سے منسوب کرتے ہوئے بریلوی ہی کہا جاتا ہے ۔
 اب چونکہ ہندستان میں فرقوں کی ایک بھیڑ موجود ہے اس لئے اہل سنت وجماعت کی شناخت قائم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے ۔ اس لئے کہ دیو بندی فرقہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی ظاہر کرتا ہے جب کہ دیوبندیوں کے عقائد وہی ہیں جو وہابیوں کے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اور ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے ۔ اور دیوبندی تقلید تو کرتے ہیں لیکن وہابیوں کے عقائد کو حق مانتے ہیں اس لئے موجودہ دور میں اصل اہل سنت وجماعت کون ہیں یہ سمجھنا بہت دشوار ہے ۔ یہی وجِہ ہے کہ ہمارے علماء نے اہل سنت وجماعت کو دیگر فرقوں سے ممتازکرنے کے لئے ’’مسلک اعلیٰحضرت ‘‘ کا اطلاق مناسب سمجھا ۔ اس کا سب سے بڑا فائد ہ یہ ہے کہ اب جو مسلک اعلٰحضرت کا ماننے والا سمجھا جائے گا اس کے بارے میں خود بخود یہ تصدیق ہو جائے گی کہ یہ علم غیب ، حاضرو ناظر ، استعانت ، شفاعت ، ندائے یارسول اللہ وغیرہ کا قائل ہے اور معمولا ت اہل سنت میلا د ، قیام ، صلوٰۃ وسلام وغیرہ کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہے۔
  اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں فقط اپنے آپ کو سنی کہنا کافی ہے تو میں یہ کہوںگا کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو سنی کہے تو آپ اسے کیا سمجھیں گے یہ کون سا سنی ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لی عنہ کی تقلید کرتے ہوئے وہا بی عقائد کو حق ماننے والا۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر ’’یا رسول اللہ ﷺ ‘‘کہنے والا ۔
 ظاہر ہے صرف سنی کہنے سے کوئی شخص پہچا نا نہ جائے گا ۔ مگر کوئی اپنے آپ کو بریلوی سنی کہے تو فوراً سمجھ میں آ جا ئیگا کہ یہ حنفی بھی ہے اور سچا سنی بھی ۔ یا پھر اپنے آپ کو کوئی مسلک اعلٰحضرت کا ماننے والا کہے تو بھی اس مسلمان کے عقائد ونظریات کی پوری نشاندہی ہو جاتی ہے ۔
 اہل ایمان کو ہر دور میں شناخت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔ دیکھئے مکہ کی وادیوں میں جب اسلام کی دعوت عام ہوئی تو اس وقت ہر صاحب ایمان کو مسلمان کہا جا تا تھا ۔ اور جب بھی کوئی کہتا کہہ میں مسلمان ہوں تو اس شخص کے بارے میں فوراًیہ سمجھ میں آجا تا کہ یہ اہل سنت وجماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔ یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے ۔ لیکن ایک صدی بھی نہ گذری تھی کہ اہل ایمان کو اپنی شناخت کے لئے ایک لفظ کے استعمال کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ لفظ ’’سنی ‘‘ ہے ۔ وجِہ یہ تھی کہ ایک فرقہ پیدا ہوا جس نے معاذ اللہ حضرت سیّدنا صدیق اکبر ، حضرت سیّدنا عمر فارو ق اعظم ، حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنھم پر تبّرا (لعن طعن) کرنا شروع کردیا اور اس میں حد سے تجاوز کر گیا ۔ لیکن وہ لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے اس لئے اس دور میں اہل سنت نے اپنے آپ کو سنی مسلمان کہا ۔ صرف مسلمان اگر کوئی اپنے آپ کو کہتا تو اس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ یہ کون سا مسلمان ہے؟ حضرت سیّدنا صدیق اکبر ، حضرت سیّدنا عمر فارو ق اعظم ، حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو ماننے والامسلمان ہے یا ان پر تبّرا (لعن طعن ) کرنے والا ؟ لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تو ا س کے بارے میں یہ سمجھ میں آجاتا کہ یہ خلفاء ثلاثہ کو ماننے والامسلمان ہے ۔ اس طرح خلفاء پر لعن طعن کرنے والے رافضیوں کے مقابلہ میں اہل سنت کی ایک الگ شناخت قائم ہوگئی ۔۔۔۔" سنی مسلمان " ۔
 اس سلسے میں کچھ لوگ یہ کہتے کہ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی یہ چار مسلک تو پہلے سے موجود ہیں پھر یہ پانچواں مسلک ـ" مسلک اعلیٰحضرت" کیوں کہا جا تا ہے ۔تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مسلک اعلیٰحضرت یہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ چاروں مسلک حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی حق ہیں اور کسی ایک کی تقلید واجب ہے ۔ اور یہی امر اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی کتب سے ثابت ہے اس لئے اگر کوئی شافعی یا حنبلی بھی اپنے آپ کو مسلک اعلٰحضرت سے منسوب کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ فروعیات میں اپنے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ عقائد و معمولات ِ اہل سنت کا بھی قائل ہے ۔
 رہا یہ سوال کہ مخالفین اس سے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ یہ ایک پانچواں مسلک ہے تو میں سارے وہابیوں ، دیوبندیوں کوچیلینج (Challenge) کرتا ہوں کہ وہ ثابت کریں کہ اما م احمد رضا نے کس عقیدہ کی تائیدقرآن وسنت کی دلیل کے بغیر کی ہے ۔ کسی بھی موضوع پر آپ ان کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ہر عقیدہ کے ثبوت میں انہوں نے قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ اورپھر اپنے موقف کی تائید میں علماء امت کے اقوال پیش کیے ہیں ۔ حق کو سمجھنے کے لئے شرط یہ ہے کہ تعصب سے بالا تر ہوکرامام احمد رضا قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ۔مطالعہ کے دوران آپ واضح طور پر محسوس کریں گے کہ اعلٰحضرت وہی کہہ رہے ہیں جو چودہ سو سالہ دور اسلامی کہ علماء وفقہاء کہتے رہے ہیں ۔
 اب بھی اگر کسی کو اطمنان نہ ہوا ہواوروہ مسلک کے لفظ کو اعلٰحضرت کی طرف منسوب کرنے پر معترض ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ یہ ایک نیا مسلک ہے تو وہابی ، دیوبندی سنبھل جائیں ۔اور میرے ایک سوال کا جواب دیں کہ مولوی محمد اکرام جو کہ دیوبندیوں کے معتمد مؤرخ ہیں۔ انہوں نے " موجِ کوثر" میں شاہ ولی اللہ محدّث کا تذکرہ کرتے ہوئے باربار ’’مسلک ِ ولی اللہی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ تو کیا چاروں مسلک سے علٰحیدہ یہ مسلک ِ ولی اللہی کوئی پانچواں اور نیا مسلک ہے ؟ ۔۔۔۔۔جو آپ کا جواب ہوگا وہی ہمارابھی ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے