اقسام بدعت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بدعات کو دو درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. بدعت واجبہ، بدعت مباحہ، مندوب یہ بدعت حسنہ کی ضمنی قسمیں ہیں. اسی طرح بدعت مکروہہ اور حرام بدعتیں، یہ تقسیم بدعات سئیہ میں داخل ہیں.
🌷امام نووی فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں: البدعة فی الشرع هی إحداث ما لم يکن فی عهد رسول الله ﷺ وهی منقسمة إلی حسنة و قبيحة. (تهذيب الأسماء واللغات، 22/3؛ المنهاج، 286/1؛ حسن المقصد فی عمل المولد، ص: 51)
یعنی شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کے زمانے میں نہ تھے، اور یہ بدعت، حسنہ اور قبیحہ میں تقسیم ہوتی ہے۔
براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام فی آخر ”کتاب القواعد“ البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق فی ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشريعة فان دخلت فی قواعد الايجاب فهی واجبة و إن دخلت فی قواعد التحريم فهی محرمة و إن دخلت فی قواعد المندوب فهی مندوبه و ان دخلت فی قواعد المکروه فهی مکروهة و ان دخلت فی قواعد المباح فهی مباحة. (تهذيب الأسماء واللغات، 22/3)
یعنی شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ”کتاب القواعد“ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروہہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے۔
🌷شرح مسلم میں فرماتے ہیں: قال العلماء: البدعة خمسة أقسام واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علی الملاحدة والمبتدعين وشبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران. (المنهاج بشرح صحيح مسلم بن الحجاج، 154/7)
یعنی علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ بیان کی ہیں۔ بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر اُمور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعتِ مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعتِ مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں.
🌷علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، وتطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، وإلَّا فهی من قسم المباح. (فتح الباری شرح صحیح البخاری، 253/4)
یعنی بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔
🌷حضرت امام شافعی سے روایت ہے:
المحدثات من الامور ضربان احدھما احدث مما یخالف کتاباً اوسنةً اواثراً اواجماعاً فھٰذہ البدعة ضالة والثانی ما احدث من الخیر ولاخلاف فیه لواحد من ھذا وھی غیر مذمومة. (القول المفید للشوکانی، 78/1)
نوپیدا باتیں دوقسم کی ہیں، ایک وہ ہیں کہ قرآن یا احادیث یا آثار اجماع کے خلاف نکالی جائیں یہ تو بدعت وگمراہی ہے، دوسرے وہ اچھی بات کہ احداث کی جائے اوراس میں ان چیزوں کاخلاف نہ ہو تو وہ بری نہیں.
🌷علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی، علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر الله به ورسوله ﷺ فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب ﷲ إليه و حض عليه الله أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي ﷺ قد جعل له في ذلک ثوابا فقال : [من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها] وقال في ضده: [من سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها] وذلک إذا کان في خلاف ما أمر الله به ورسوله ﷺ ، قال : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها. (لسان العرب، 6/8)
بقیہ...
ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام الله اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو الله تعالى نے مستحب قرار دیا ہو یا الله تعالى اور رسول الله ﷺ نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ امر محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول الله ﷺ نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: [من سن فی الاسلام... الخ] اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام الله تعالى اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعة ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی.
🌷 اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے میں رقم طراز ہیں: البدعة خمسة أقسام: واجب و محرم و مندوب ومکروهة والمباحة. (انوار البروق فی انوار الفروق، 202/5)
یعنی بدعت کی پانچ اقسام ہیں: وہ بدعت واجبہ، بدعت محرمہ، بدعت مستحبہ، بدعت مکروہہ اور بدعت مباحہ ہیں۔
🌷غیر مقلد عالم شوکانی، فتح الباری کے حوالے سے بدعت کی پانچ اَقسام بیان کرتے ہیں: البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق و تطلق فی الشرع علی مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة و إلَّا فهی من قسم المباح و قد تنقسم إلی الأحکام الخمسة. (نيل الاوطار شرح منتقی الأخبار، 63/3)
یعنی لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں.
🌷امام الوہابیہ مولوی وحیدالزماں لکھتے ہیں: اما البدعة اللغویة فھی تنقسم الی مباحة ومکروھة وحسنة و سیئه. (هدية المهدی، ص: 117)
یعنی با اعتبار لغت بدعت کی درج ذیل اقسام ہیں، بدعت مباحہ، بدعت مکروہہ،بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ.
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں