« احــکامِ شــریعت »
------------------------------------
میت کو کندھا دینے کا طریقہ کیا ہے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سلام مسنون
علماء کرام کی بارگاہ میں عرض ہے یہ بتائیں کہ میت کو کندھا کس سمت سے دیں زید کہتا ہے میت کو دائیں جانب سے کندھا دیں گے تو اپنا اور میت کا بایاں کندھا ہوگا پھر بائیں جانب سے کندھا دیں گے اپنا اور میت کا دایاں کندھا ہوگا اسی طرح کندھا دیں یہ زید کا کہنا ہے جبکہ بکر اس کے برعکس کندھا دینے کا صحیح طریقہ بتا رہا ہے
اب ان دونوں میں کونسا درست ہے؟ برائے مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں.. نوازش ہوگی
*سائل: عبداللہ گنانا راجستھان*
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام و رحمةاللّٰہ وبرکاتہ*
*الجواب بعونہ تعالیٰ :*
بکر کا کہنا صحیح ہے میت کو کندھا دینے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے داہنے سرہانے کندھا دے پھر دہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے،
📃 فتاویٰ ہندیہ میں ہے *: ثم إن في حمل الجنازة شيئين نفس السنة وكمالها أما نفس السنة فهي أن تأخذ بقوائمها الأربع على طريق التعاقب بأن تحمل من كل جانب عشر خطوات وهذا يتحقق في حق الجمع و أما كمال السنة فلا يتحقق إلا في واحد و هو أن يبدأ الحامل بحمل يمين مقدم الجنازة كذا في التتارخانية. فيحمله علي عاتقه الايمن ثم المؤخرالايمن علي عاتقه الايمن ثم المقدم الأيسر على عاتقه الأيسر ثم المؤخر الأيسر على عاتقه الأيسر هكذا في التبيين.*
*(📘ج 1 کتاب الصلاۃ الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ، صفحہ 162)*
📄فتاویٰ رضویہ میں ہے : جنازہ کو یوں لے چلیں کہ سرہانہ آگے کی جانب ہو اور پہلے سرہانے کا داہنا پایہ اپنے داہنے شانے پر لے، پھر پائینتی کا داہنا، پھر سرہانے کا بایاں پھر پائینتی کا بایاں، اورہر بار کم از کم دس قدم چلے، یہ ایک دَور ہُوا۔اس پر چالیس گناہ کبیرہ معاف ہونے کی بشارت ہے،حسب طاقت وحالت جتنے دورے ممکن ہو کرے۔
*(📙جلد 9 صفحہ 82)*
📜بہار شریعت جلد اول میں ہے: سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ کہ پہلے داہنے سرہانے کندھا دے پھر داہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے کہ حدیث میں ہے، ’’جو چالیس قدم جنازہ لے چلے اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیے جائیں گے۔‘‘ نیز حدیث میں ہے،’’جو جنازہ کے چاروں پایوں کو کندھا دے،ﷲ تعالیٰ اس کی حتمی مغفرت فرما دے گا۔‘‘
*(📚 حصہ 4 صفحہ 823 رضا اکیڈمی)*
*واللہ اعلم سبحانہ وتعالیٰ ورسولہ اعلم ﷺ*
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبـــــــــــــــــہ:*
*حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی خادم شمس العلماء دار الافتاء والقضاء، جامعہ اسلامیہ میرا روڈ ممبئی مقام ساکن نل باری سوناپوری اتردیناجپور بنگال۔*
*+918793969359*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: اسرار احمد نوری بریلوی خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں