سازشوں کو توڑو=مظلوموں کو جوڑو
دنیا بھر میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔جہاں جو قوم غالب ہے,وہ مسلمانوں کو کچلنے کی فکر میں ہے۔
چین میں دہریہ(کمیونسٹ )اسلام ومسلمین کے خلاف,برما میں بدھسٹ ہمارے خلاف,یورپ میں نصاری اور مشرق وسطی میں یہود,بھارت میں ہنود ہمیں نیست و نابود کرنے کی تمنا لئے بیٹھے ہیں۔
چوں کہ میں اس قدر عظیم نہیں کہ میری بات عالمی سطح پر قبول ہو سکے,اس لئے میں نے اپنی سیاسی تحریروں کا دائرہ بھارت تک محدود کر رکھا ہے۔
بھارت میں امن وامان کا قیام اسی وقت ممکن ہے,جب برہمن قوم کے ہاتھوں میں حکومت نہ ہو۔
یہ وہ قوم ہے جو ساڑھے تین ہزار سال سے بھارت پر اپنی حکومت قائم رکھنے کی سر توڑ کوشش کرتی رہی ہے۔اگر یہ قوم انصاف کی راہ پر چلتی تو محکوموں کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا,لیکن یہ قوم بنی اسرائیل کی طرح مفاد پرست,متکبر اور ظالم ہے۔اپنے علاوہ کسی کو انسان ہی نہیں سمجھتی اور حکومت پر قبضہ کے لیے ہمیشہ شاطرانہ چالوں کو بروئے کار لاتی ہے۔
جب یہ قوم 1500:قبل مسیح میں بھارت آئی تو اپنی شاطرانہ چالوں کے ذریعہ رفتہ رفتہ بھارت کی مقامی حکومتوں پر قابض ہوتی چلی گئی۔
اپنی حکومت وسلطنت کو مضبوط کرنے کے واسطے ویدک دھرم(سناتن دھرم/ہندو دھرم)کی تشکیل کی۔مذہبی کتابیں اور مذہبی قوانین لکھے۔
ان کتابوں میں بھارت کے اصل باشندگان(مول نواسی اقوام)کو شودر یعنی برہمنوں کا پیدائشی غلام قرار دیا اور یہ عقیدہ پیش کیا کہ شودر حکومت وبادشاہت کے لائق نہیں,لیکن کچھ مدت بعد شودروں کی عظیم موریہ سلطنت قائم ہوئی اور بھارت میں برہمنی حکومتوں کا نام ونشان مٹ گیا۔
سلطنت موریہ کے عظیم شہنشاہ اشوک سمراٹ نے بدھ مت کو قبول کر لیا اور ویدک دھرم مغلوب ہو گیا۔سلطنت موریہ کے آخری راجہ کو اس کے برہمن سپہ سالار پشیا متر شنگ نے قتل کر دیا اور موریہ سلطنت پر قبضہ کر لیا۔اب پھر بھارت میں برہمنوں کی حکومت قائم ہو گئی۔
اس کے بعد بھارت میں کبھی بدھسٹوں کا غلبہ ہوا,اور کبھی برہمن غالب ہوئے۔ایک مدت بعد بھارت میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔اس کے بعد انگریزوں نے ملک پر قبضہ جما لیا۔انگریزوں سے ملک آزاد ہوا اور انگریزوں نے اسے ایک جمہوری ملک کی صورت میں آزادی دی۔جمہوریت آزادی کے شرائط میں شامل تھی۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ انگریزوں نے بھارت کو برہمن راشٹر کے طور پر ازادی دینے کو منظور نہیں کیا,لیکن برہمنوں نے بھارت پر قبضہ کے لئے پہلے سے ہی اپنی شاطرانہ چالوں کا جال بچھا رکھا تھا۔
1909میں مارلے منٹو ایکٹ آیا تھا,اس میں بھارت کے ہر ایک بالغ باشندہ کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا, اسی وقت سے برہمنوں نے شودروں کو ہندو کہنا شروع کر دیا,تاکہ شودروں کا ووٹ ہماری جھولی میں آئے۔
برہمنی دھرم یعنی ویدک دھرم میں شودروں کو پڑھنے لکھنے پر پابندی تھی۔مسلم حکومتوں نے اسے سناتن دھرم کا ایک مذہبی مسئلہ سمجھ کر خاموشی اختیار کی۔
انگریزوں کے عہد میں شودروں کو پڑھنے لکھنے کا موقع ملا۔پڑھ لکھ کر یہ لوگ برہمنوں کی سازشوں سے واقف ہوئے تو اس قوم کے تعلیم یافتگان مثلا جیوتی با پھولے,ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر,پیریار وغیرہ نے برہمنی نظام کے خلاف آوازیں بلند کیں اور ان لوگوں نے اپنی قوم کو برہمنوں کے حقائق وعزائم سے آشنا کیا۔
ان لوگوں نے اپنی قوموں کو بتایا کہ ہم لوگ ہندو نہیں۔محض برہمنوں نے اپنا محکوم و غلام بنائے رکھنے کے واسطے ہمیں ہندو(سناتن دھرمی)بنا رکھا ہے۔برہمن لوگ ساڑھے تین ہزار سال سے ہم پر ظلم وستم ڈھا رہے ہیں,لیکن شودروں کی اکثریت جاہل تھی,اس لئے مجموعی طور پر برہمنوں کی سازش کامیاب ہوتی گئی۔
برہمنوں نے اپنی اکثریت ثابت کرنے کے واسطے شودروں کو زبردستی ہندو بنا رکھا ہے۔
پھولے,امبیڈکر اور پیریار کے بعد اس پروگرام کو کانشی رام نے آگے بڑھایا۔الحاصل قریبا دیڑھ صدی سے شودر اقوام کے لیڈروں کی جانب سے برہمن واد کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔وہ لوگ اعلانیہ اپنے ہندو ہونے کا انکار کر رہے ہیں۔
یہ بہت اچھا موقع ہے کہ قوم مسلم بھی ان کے اپنے قول وقرار کے مطابق انہیں غیر ہندو تسلیم کرے اور ان سے سیاسی اتحاد کرے,تاکہ برہمنوں کی اصل تعداد یعنی ان کی اقلیت ظاہر ہو اور وہ حکومت سے بے دخل ہو سکیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہود و برہمن کبھی کسی کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ان لوگوں کی حکومت میں کبھی بھی کوئی امن و امان سے نہیں رہ سکتا۔
بھارتی میڈیا اور متعصب سیاسی لیڈران محض اس لئے اسلام و مسلمین کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں کہ شودر اقوام ہندو مسلم معاملات میں الجھ کر رہیں۔وہ اپنے اوپر ہونے والے ساڑھے تین ہزار سالہ برہمنی مظالم سے غافل رہیں اور ملک میں برہمنوں کی حکومت قائم رہے۔
اسلام ومسلمین کے خلاف زہر افشانی کا واحد مقصد شودر اقوام(SC, ST & OBC)کو ہندو بنائے رکھنا ہے,تاکہ شودر اقوام کے ووٹ برہمنوں کو ملتے رہیں اور بھارت میں ان کی حکومت قائم رہے۔
واضح رہے کہ شودر اقوام کی تعداد بھارت میں قریبا اسی فی صد % 80 ہے۔اتنی بڑی تعداد کو کوئی قوم آسانی سے نہیں چھوڑ سکتی۔قوم مسلم کے لئے سنہرا موقع ہے کہ وہ مول نواسی اقوام(شودر اقوام)سے سیاسی اتحاد کر کے انتخابات میں فتح یابی کی کوشش اور حکومت سازی کا پلان بنائے۔
پارلیامنٹ اور اسمبلی میں دو چار ممبران اپ کی اواز بلند کر سکتے ہیں,لیکن وہاں بھی فیصلے ووٹنگ سے ہوتے ہیں۔قلت تعداد کے سبب اپ کی گزارشوں پر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔سوچو اور آگے بڑھو۔بھارت جمہوری ملک ہے۔برہمن راشٹر نہیں۔
جب اپ کی حکومت ہوگی تو اج جو لوگ اپ کے خلاف بکتے رہتے ہیں,وہ اپنے چلو میں اپ کا پیشاب چھان کر غٹاغٹ پئیں گے اور اسے امرت سمجھیں گے۔
قوم مسلم بھی مظلوم ہے اور مول نواسی قومیں بھی مظلوم۔مظلومیت کے نام پر تمام مظلوم متحد ہو جاؤ اور ظالم سے تخت وتاج چھین لو۔جمہوریت میں ووٹوں کے ذریعہ کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم بنایا جاتا ہے,بشرطے کہ ووٹنگ مشین میں خیانت نہ کی جائے۔
حکیم میری نواؤں کا راز کیا سمجھے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:04:نومبر2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں