-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* خواجہ محمد۔
*لقب:* جلال الدین، کبیر الاولیاء۔
*مکمل نام:* شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء پانی پتی۔ *سلسلۂ نسب اس طرح ہے:* شیخ محمد جلال الدین کبیر الاولیاء بن خواجہ محمود بن کریم الدین بن جمیل الدین عیسیٰ بن شرف الدین بن محمود بن بدرالدین بن ابو بکر بن صدر الدین بن علی بن شمس الدین عثمان بن نجم الدین عبداللہ الیٰ آخرہ۔ رحمہم اللّٰہ
آپ کا سلسلہ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ذالنورین رضی اللّٰه عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔ آپ کے والد ماجد شیخ محمود امرائے پانی پت سے تھے۔
*(تذکرہ اولیائے برصغیر:221)*
*تاریخِ ولادت:* 23/شوال المکرم 557ھ مطابق 23/اکتوبر 1162ء، بروز بدھ، پانی پت(ہند) میں ہوئی۔ *(انسائیکلوپیڈیا جلد3: 611)*
آپ کے سنِ ولادت میں مختلف اقوال ہیں۔ صاحبِ اقتباس الانوارشیخ محمد اکرم قدوسی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ آپ کی عمر شریف ایک سو ستر سال سے زیادہ تھی۔ اسی طرح صاحبِ سیر الاقطاب جو آپ کی اولاد میں سے ہیں، انہوں نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت کی عمر مبارک ایک سو بہتر برس تھی۔
*(اقتباس الانوار:550/سیر الاقطاب:226)*
تو اس لحاظ سے تاریخِ ولادت 593ھ یا اس سے قریب قریب تصور کی جاسکتی ہے۔
مولوی زکریا کاندھلوی نے آپ کا سن ِ ولادت 695ھ لکھا ہے۔ یہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔تلاشِ مرشد میں جب حضرت کبیر الاولیاء رحمۃ اللّٰه علیہ سرگرداں تھے، اور اسی سلسلے میں شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللّٰه علیہ(م659ھ) سے بھی ملاقات ہوئی، اور ان سے بیعت کی درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنے علاقے پانی پت جائیں وہیں آپ کو شیخِ کامل ملےگا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ملاقات 659ھ سے پہلے ہوئی ہوگی۔ انہیں کے حکم پر 658ھ میں اپنے علاقے پانی پت واپس چلے گئے۔ پھر شیخ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ سے 680ھ کے بعد بیعت ہوئے، اور 712ھ میں خلافت سے مشرف ہوئے۔
*(تذکرہ حضرت علی احمد صابر کلیری:109)*
*تحصیلِ علم:* آپ کا تعلق ایک علمی و صاحبِ ثروت خاندان سے تھا۔ انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ آپ اس قت کے مروجہ علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی تصانیف میں ’’زاد الابرار‘‘ ایک لاجواب کتاب ہے۔ اس کے مطالعے سے آپ کی وسعتِ علمی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
*(سیر الاقطاب:215)*
*بیعت و خلافت:* آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں شیخِ کامل حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت سے مشرف ہوئے۔ اسی طرح حضرت شرف الدین بو علی قلندر علیہ الرحمہ آپ سے بچپن سے بہت محبت فرماتے تھے۔ بلکہ آپ سے ملاقات کے لئے آپ کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔
(ایضا: 215)
*سیرت و خصائص:* حجۃ الاولیاء، برہان الاتقیاء، زبدۃ الاصفیاء، سند الاولیاء، جامع کمالاتِ علمیہ و روحانیہ، برکت الزماں، قطب الزماں، حضرت خواجہ شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء پانی پتی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے عظیم مشائخ میں سے ہیں۔آپ کی ذاتِ والا برکات سے سلسلہ عالیہ کو فروغ حاصل ہوا۔بہت سے حضرات آپ کی صحبت کی بدولت واصل باللہ ہوئے۔آ پ کا فیضان عام تھا۔خاندانی نسبت اعلیٰ تھی۔ آپ پر بچپن سے ہی آثارِ سعادت نمایاں تھے۔ آباء کا تعلق امراء سے تھا۔اس لئے گھر میں ہرقسم کی فروانی و خوشحالی تھی۔ ابتداءً اپنی ذات کےلئے بےدریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔ آپ کا معیار رہائش اونچا تھا۔ آپ کا لباس اعلیٰ قسم کا ہوتا تھا۔ آپ لباس پر کافی پیسہ خرچ کرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت مخدوم شرف الدین قلندر رحمتہ اللّٰہ علیہ ایک عام گزر گاہ پر رونق افروز تھے۔ آپ گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرے، تو حضرت قلندر رحمتہ اللّٰہ علیہ نے جب آپ کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو فرمایا:
’’زہے اسپ و زہے سوار‘‘۔
(کیسا خوش قسمت گھوڑا اور کیسا خوش قسمت سوار ہے)۔
یہ سن کر آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ گھوڑے سے فوراً اترے، گریبان چاک کر کے جنگل کی راہ لی۔
چالیس سال آپ نے سفر میں گزارے۔ بہت سے درویشوں سے ملے اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوئے۔
ایک دن حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ اپنےحجرےکے دروازے پر رونق افروز تھے۔ مریدین و معتقدین حاضرِ خدمت تھے۔ آپ لباس فاخرہ پہنے گھوڑے پر سوار ان کے سامنے سے گزرے، انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی حاضرین سے فرمایا:
’’میں اپنی نعمت اس لڑکےکی پیشانی میں تاباں کو دیکھتا ہوں‘‘۔
ان کا یہ فرمانا تھا کہ آپ کی نظر ان پر پڑی۔ نظر کا پڑنا تھا کہ آپ بےاختیار ہوگئے۔ گھوڑے سے اترے اور سر نیاز ان کے قدموں پر رکھا، انہوں نے اپنے دست مبارک سے آپ کا سر اٹھایا اور آپ کو حکم دیا کہ
’’گھوڑے پر سوار رہو اور گھوڑے کو پھیرو‘‘۔
آپ حکم بجا لائے۔ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی نے اسی وقت آپ کو بیعت سے مشرف فرمایا اور کلاہ چرمی جو اس وقت پہنے ہوئے تھے اتار کر اپنے ہاتھ سے آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا۔
’’ ترا ایں ہم دادم وآں ہم دادم‘‘
(میں نے تمہیں یہ بھی دیا اور وہ بھی دیا)۔
یعنی دنیا و آخرت دونوں عطاء کر دیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے:
’’علاء الدین صابر کلیری رحمۃ اللّٰه علیہ کی کمائی، شیخ جلال الدین نے لٹائی‘‘۔
*(تذکرہ اولیائے پاک وہند: 111)*
*جود و سخا:* آپ بہت سخی تھے۔ ہر وقت لنگر جاری رہتا۔ہزاروں افراد لنگر کھاتے تھے۔ مسافر، نادار، یتیم بیوہ اور مستحق افراد کو باعزت کھانا ملتا تھا۔ اس میں نئی چیز یہ تھی کہ جو شخص جس برتن میں کھانا کھاتا وہ اسی کی ملکیت ہوتا تھا۔ اس کو دوبارہ لنگر میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ دنیا حیران تھی کہ روزانہ اتنا برتن اور اناج کہاں سے آتا ہے۔ یہاں خرچ کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اِس پر فِتن اور مہنگائی کے زمانے میں بھی اولیاء اللہ کے آستانوں سے غریبوں اور مسافروں کو بلا امتیاز کھانا ملتا ہے۔ پاک و ہند کی اکثر خانقاہوں پر ہروقت لنگر جاری رہتا ہے۔
خانقاہ میں ہزاروں لوگ اعلیٰ قسم کھانا کھاتے تھے۔ لیکن حضرت مخدوم الاولیاء رحمۃ اللّٰه علیہ کے گھر والوں پر اکثر فاقے رہتے تھے۔ ایک کیمیا گر شخص نے آپ کے صاحبزادے کو دیکھا تو کہنے لگا:
اے مخدوم زادے! تمھاری صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ تم کئی دن سے فاقے سے ہو۔ تم مجھ سے کیمیا بنانا سیکھ لو۔تاکہ خوش حال زندگی بسر کرو۔حضرت دیوار کے پیچھے سب باتیں سن رہے تھے۔ اس کے چلے جانے کے بعد فرزند کو بلایا اور فرمایا:
’’کہ اس حجرے کی طرف نظر کرو۔ جب انہوں نے آنکھ اٹھاکر دیکھا تو پورا حجرہ سونے کا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اے فرزند! یہ اکسیر پیدا کرو کہ جس پر نظر ڈالو، وہ کندن ہوجائے‘‘۔
*(تذکرہ اولیائے برصغیر:225)*
اسی طرح ایک دن آپ دریا کے کنارے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک جوگی آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔آپ کے وہاں پہنچنے پر جوگی نے آنکھیں کھولیں اور آپ کو سنگ پارس دیا۔ آپ نے اس پتھر کو دریا میں پھینک دیا۔ جوگی خفا ہوا۔ آپ نے جوگی سے فرمایا کہ دریا میں جا کر اپنا پتھر لے لے۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی پتھر نہ لینا۔ جب جوگی دریا میں گیا تو اس نے وہاں ہزاروں اس سے اعلیٰ قسم کے پتھر پائے۔ اس نے اپنے پتھر کے علاوہ ایک اور پتھر اٹھا لیا اور باہر آگیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ دوسرا پتھر کیوں چھپا کر لایا اس نے دونوں پتھر آپ کے سامنے رکھ دیئے اور آپ کا مرید ہوگیا۔ (ایضا:228)
*فضل و کمال:* ایک دن حضرت شیخ جلال الدین رحمہ اللّٰه کہیں جا رہے تھے کہ ایک ضعیف عورت سر پر پانی کا گھڑا رکھے جا رہی تھی، اس کے پاؤں کانپ رہے تھے آپ نے پوچھا کیا آپ کا کوئی اور آدمی پانی نہیں لاسکتا، کہنے لگی میں بے کس اور بے سہارا ہوں، حضرت نے پانی کا گھڑا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ کر چلنے لگے اور اس کے گھر پہنچے گھڑا رکھ کر فرمایا آج کے بعد ان شاء اللہ یہ گھڑا پانی سے بھرا رہے گا تمہیں پانی لانے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، وہ ضعیف عورت اس گھڑے سے پانی استعمال کرتی رہی مگر پانی کبھی کم نہ ہوا۔
آپ کوبہ نور باطن حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی بیماری کا علم ہوا، آپ بقوت روحانی ایک ساعت میں دہلی پہنچے، مخدوم جہانیاں کو حالت نزع میں پایا، آپ نے ان کی صحت کےلئے دعا فرمائی اور اپنی عمر کے چند سال ان کو دے کر اسی طرح ایک ساعت میں پانی پت واپس تشریف لائے۔ اسی وقت حضرت مخدوم جہانیاں صحت یاب ہوگئے۔حضرت کی صحت یابی کی خبر سن کر سلطان فیروز الدین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا صورت حال معلوم کرنے پر آپ نے بتایا کہ مجھے شیخ جلال الدین نے اپنی زندگی کے دس سال دیے ہیں ورنہ میرا وقت آ پہنچا تھا۔ سلطان فیروزالدین کو حضرت شیخ جلال الدین کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ وہ چل کر پانی پت آیا اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ (ایضا:225)
مشہور مفسر عارف باللہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ (صاحبِ تفسیرِ مظہری)، اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللّٰه علیہ آپ کی اولاد میں سے تھے۔
*(چند ممتاز علمائے انقلاب1857:127)*
*تاریخِ وصال:* 13/ربیع الاول 765ھ مطابق 18/جنوری 1364ء کو واصل باللہ ہوئے۔ مزار پر انوار پانی پت میں مرجعِ خلائق ہے۔
*ماخذ و مراجع:* سیر الاقطاب۔ تاریخ مشائخِ چشت۔ اقتباس الانوار۔ تذکرہ اولیائے بر صغیر ۔ خزینۃ الاصفیاء۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں