سلطان الشھداء حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ تعالی عنہ

سلطان الشھداء حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ تعالی عنہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

سلطان الشھداء سیدناسالار مسعود غازی علیہ الرحمہ ھندوستان کے ان اولیاء کرام، شھداء عظام و مشائخ میں سے ہیں جنھوں نے اس کفر و شرک کی سر زمین پر اسلام کا پرچم بلند فرمایا.

*ولادت:*
آپ کی ولادت باسعادت 21رجب المرجب 405ھ مطابق 15 فروری 1015ع بروز اتوار بوقت صبح صادق اجمیر شریف میں ہوئی۔
 یہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی آمد سے ایک سو اکیاسی برس پہلے کازمانہ تھا آپ کاسلسلہ نسب بارھویں پشت میں شیر خداحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتاہے. 

جب آپ چار برس کے ہوئے تو رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئ والد سالار ساہو نے سید ابراہیم بارہ ہزاروی کو آپ کا استاذ مقرر فرمایا اس وقت آپ کے والد سلطان محمود غزنوی کی جانب سے ھندوستان کے گورنر مقرر تھے ..9سال کی عمر میں آپ نے علوم ظاھری وباطنی میں کمال حاصل کیا.

آپ سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کے حقیقی بھانجے ہیں۔ جنھوں نے اپنے والد سلطان سبکتگین کے کے بعد 23 برس تک سلطنت کی ذمہ داری نبھائی۔
والی قنوج کی سرکوبی کے لئے جب سلطان محمود غزنوی نے ھندوستان کارخ کیا توپہلی بار پیارے بھانجے حضرت مسعود غازی کا دیدار کیا۔ جب واپس ہوئے تو بہن بی بی ستر معلی اور بھانجے مسعود غازی کو اپنے ساتھ غزنہ لے گئے. جب کاہیلر میں بغاوت رونما ہوئی اس وقت سالار ساہو نے بیوی ستر معلی اور فرزند مسعو د غازی کو غزنہ سے کاہیلر بلالیا جہاں مسعود غازی کچھ دن قیام کے بعد دوبارہ غزنہ چلے گئے۔
سلطان محمود غزنوی کا ایک وزیر خواجہ حسن میمندی تھا جسے مسعود غازی کی بلند اقبالی کی بناء پر عداوت وحسد تھا سلطان اس حسد سے واقف تھے مگر عجلت میں کوئ اقدام کرنے کے بجائے آپ کو ھندوستان والدین کے پاس بھیجنے کا اردہ کیا جب سلطان نے اپنے بھانجے مسعود غازی سے اس ارادہ کااظہار کیا تو مسعود غازی نے فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے ھندوستان میں اشاعت اسلام کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ اس کفر وشرک کی سر زمین پر اللہ کانام بلند ہو سکے۔
سلطان نے کلیجے سے لگاکر آپ کو رخصت کیا۔ اور گیارہ ہزار جانثاروں کا قافلہ بھی آپ کے ہمرکاب ہوا.

چند ہی ماہ بعد 30 ربیع الاول 430ھ کو سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کا وصال پر ملال ہوگیا۔
ادھر مسعودغازی علیہ الرحمہ نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ دریائے سندھ کے راستے اجودھن ( پاک پٹن ) پہونچے جہاں کے راجاؤں کوشکشت دیکر دہلی روانہ ہوئے اس وقت دہلی کاراجہ مہ پال رائے تھا جس کے سامنے مسعود غازی علیہ الرحمہ نے دعوت اسلام پیش کی بالآخر جنگ کی نوبت آگئ جنگ جاری ہوئ جس میں دشمنوں کی طاقت وقوت بہت زیادہ تھی اس کے باوجود آپ نے اور آپ کے رفقاء نے جم کر مقابلہ کیابالآخر دشمنوں کوشکشت ہوئ اور بہت سے راجاؤں نے اطاعت قبول کی ..
میرٹھ اور قنوج ہوتے ہوئے ضلع بارہ بنکی کے قصبہ سترکھ پہونچے جہاں کے راجاؤں سے مقابلہ کے بعد آپ بہرائچ روانہ ہوئے.
شعبان 423ھ میں آپ بہرائچ پہونچے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ موجودہ درگاہ شریف کے پاس ایک مہوہ کا درخت تھا جس کے نیچے آپ اکثر قیام فرمایا کرتے تھے۔
 آپ فرماتے کہ ھندوستان آنے کے بعد مجھے کہیں سکون نہیں ملا اس درخت کے نیچے سکون محسوس کرتا ہوں۔ یہ آپ کی شھادت کی جانب اشارہ تھا۔
آپ کے بہرائچ آمد کے بعد ہر طرف مخالفت کی ہوائیں چلنے لگیں انہی دنوں آپ کے والد سالار ساہو کا بھی وصال ہوگیا.
والد کے وصال کے بعد بھی آپ کے عزم وحوصلہ میں کوئ کمی نہیں آئ بلکہ تبلیغ دین کے لئے جانفشانی کے ساتھ لگے رہے۔

بہرائچ و قرب و جوار کے راجاؤں کو آپ کی اقامت سے ناگواری ہوئی۔ انھوں نے آپ کو بھگانا چاہا اور کہا کہ اگر یہاں سے نہیں گئے تو لڑائی سے معاملہ طے ہوگا.
آپ نے فرمایا کہ چند روز بعد چلاجاؤں گاپھر بھی وہ نہ مانے یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئ۔ مخالفین نے دریائے بھکلہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں دونوں فوجوں کے مابین جم کر مقابلہ ہوا اسلام کے شیروں نے اس قدر جواں مردی کا مظاھرہ فرمایا کہ دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور ان کے کئ سردار گرفتار ہوئے ..
اس شکشت سے تمام راجاؤں میں بے چینی پیدا ہوگئ۔ راجا سہر دیو نے مشورہ دیا کہ اس بار میدان جنگ میں لوہے کی زھر آلود کیلیں بچھادی جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور دونوں فوجیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوئیں اس بار بھی دشمنوں کو شکشت کامنھ دیکھنا پڑا۔ اس جنگ میں سرکار غازی کے دوتہائی احباب نے جام شہادت نوش فرمایا ..
دوبارہ شکشت کے بعد ھندؤوں نے دھرم رکشا کے نام پر لوگوں کو ابھارنا شروع کیا سورج دیوتا کے نام پورے شمالی ھندوستان میں لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کیاگیا.
ہمالیہ کے دامن سے لیکر گھاگھراندی تک دشمنوں کاٹڈی دل لشکر مقابلے کے تیارہوگیا.
ادھر مسعود غازی علیہ الرحمہ بھی اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ میدان میں جلوہ بار ہوئے. جنگ کا نقارہ بجا جنگ جاری کئ روز تک آپ دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے مگراتنی کثیر فوج سے کب تک مقابلہ کرتے باقی ماندہ اکثر جاں نثار بھی شہید ہوگئے۔ دشمنوں نے آپ پر تیروں کی بارش شروع کردی. آپ اپنی محبوب سواری اسپ نیلی پر خون میں شرابور سوار تھے اس کے باوجود جدھر رخ فرماتے دشمن لرزہ براندام ہوجاتے۔

*وصال:*
بالآخر 14رجب المرجب 424 ھ مطابق 10 جولائ 1033ء کو دشمنوں کے سردار سہردیو نے ٹیلوں کے آڑ سے ایسا تیر مارا جو آپ کے گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ 
تیر لگتے ہی آپ کا توازن سواری پر قائم نہ رہ سکا، غشی طاری ہوئی قریب تھا کہ آپ گھوڑے سے نیچے آجاتے مگر آپ کے سچے عاشق سکندردیوانہ نے آپ کو سنبھالا اور سور ج کھنڈ کے نیچے مہوہ کے درخت کے نیچےلٹایا آپ کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا۔

عصر و مغرب کے درمیانی وقت آپ نے اس دار فانی کو خیر آباد کہا۔۔۔

ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز بردار کرے

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری 
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر


آپ کا مزار پر انوار اتر پردیش کے ضلع بہرائچ شریف میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔
ہرسال 14 رجب المرجب کو آپ کا عرس مقدس نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتا ہے.
خدا ہمیں ان کے فیوض وبرکات سے مستفید فرمائے. آمین۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍🏻 نفیس احمد رضوی مصباحی، دارالعلوم مخدومیہ ردولی شریف فیض آباد
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے