حضرت مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللّٰه علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسم گرامی:* خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللّٰه علیہ۔
*لقب:* برہانِ ملت، برہان الدین، برہان السنت، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، ممدوحِ اعلیٰ حضرت، مظہرِ شریعت۔
*سلسلۂ نسب اس طرح ہے:* حضرت علامہ مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری بن عید الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ عبد السلام جبل پوری بن مولانا شاہ محمد عبد الکریم قادری نقشبندی بن مولانا شاہ محمد عبدالرحمن بن مولانا شاہ محمد عبدالرحیم بن مولانا شاہ محمد عبد اللہ بن مولانا شاہ محمد فتح بن مولانا شاہ محمد ناصر بن مولانا شاہ محمد عبدالوہاب صدیقی طائفی۔ علیہم الرحمۃ والرضوان۔
آپ کا خاندانی تعلق حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰه عنہ سے ہے۔ نویں پشت میں آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ عبدالوہاب صدیقی رحمہ اللّٰه سلطنتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں نواب صلابت جنگ بہادر کے ساتھ طائف سے ہندوستان تشریف لائے، اور حیدر آباد دکن میں سکونت اختیار کی۔ یہاں حکومتِ آصفیہ کی جانب سے مکہ مسجد کی امامت اور محکمۂ مذہبی امور کے جلیل القدر عہدے پر مامور ہوئے۔
آپ کے خاندان میں مسلسل پانچ پشتوں میں پانچویں آصف جاہ کے زمانے تک برابر قائم رہا۔

مولانا برہان الحق رحمۃ اللّٰه علیہ کے جد امجد مولانا شاہ عبدالکریم رحمہ اللّٰه (م16/رمضان المبارک 1317ھ) اپنے وقت کے جید عالم اور شیخِ طریقت تھے۔ تمام علومِ عقلیہ و نقلیہ کے ماہر کامل اور بالخصوص فقہ اور علم طب میں یگانۂ روزگار تھے۔ 
حضرت برہانِ ملت کے والد گرامی عید الاسلام حضرت شاہ عبدالسلام جبل پوری رحمۃ اللّٰه علیہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کے محبوب خلیفہ تھے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ اور آپ کے شہزادگان کا اس خاندان سے جو قرب رہا وہ انہیں کا خاصہ ہے۔ کسی دوسرے گھرانے اور خاندان کو یہ شرف حاصل نہ ہوا۔ انہیں کی محبت میں اعلیٰ حضرت بریلی سے جبل پور تشریف لےگئے اور پھر مفتیِ اعظم ہند رحمۃ اللّٰه علیہ ایک ماہ سے زائد قیام فرما کر ان کو شرف بخشا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا پروفیسر مسعود احمد رحمہ اللّٰه رقم طراز ہیں:
’’کہ یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام احمد رضا رحمتہ اللّٰہ علیہ سے خلافت حاصل ہے، اور آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی برہان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے، جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجت الاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ اور حضرت مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے‘‘۔
(جذباتِ برہان:12)

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 21/ربیع الاول 1310ھ مطابق 13/اکتوبر 1894ء کو بعد نماز فجر پیدا ہوئے۔ آپ کے جد امجد مولانا شاہ محمد عبدالکریم نقشبندی رحمۃ اللّٰه علیہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب برہان ملت کی دادی محترمہ نے ولادت کی خبر سنائی تو اس وقت آیت کریمہ ’’قدجاءکم برھان من ربکم‘‘ جاری بزبان تھی۔ خبر سنتے ہی فرمایا کہ ’’الحمد للہ! برھان آگیا‘‘۔
*(برھانِ ملت کی حیات و خدمات: 42)*

*تحصیلِ علم:* حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰه علیہ کی ولادت باسعادت ایک علمی و روحانی گھرانے میں ہوئی۔ جہاں شب و روز قال اللہ اور قال رسول اللہﷺ کا درس جاری رہتا تھا۔جس گھرانے سے پورا عالم اسلام رشد و ہدایت حاصل کر رہا تھا۔ لہذا آپ پانچ سال کی عمر کو پہنچتے ہی کافی باشعور و صاحبِ فراست ہوگئے تھے۔ اس کم عمری ہی میں آپ اپنے تمام ہم عمر بچوں میں بالکل ممتاز و منفرد اور ایک نرالی شان رکھتے تھے۔ چونکہ آپ کی والدہ ماجدہ اپنے وقت کی ولیہ اور رابعہ بصریہ تھیں۔ سنت و شریعت کی عاملہ اور عشقِ مصطفیٰﷺ سے سرشار تھیں۔لہذا ان کی حسنِ تربیت نے علم کی محبت اور حصولِ علم کا جذبہ آپ کے دل میں پیدا کردیا۔ پانچ برس کی عمر 21/ربیع الاول 1315ھ کو آپ کے جد امجد نے ’’بسم اللہ شریف‘‘ کی افتتاح فرمائی۔ عربی والد ماجد سے، فارسی چچا حافظ بشیر الدین صاحب سے پڑھی۔ اسی طرح آپ نے ناظرہ سے لے کر علوم ِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل اپنے آبائی مکان جبل پور میں کی۔

*اعلیٰ حضرتسے شرفِ تلمذ:* حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:  
’’دورانِ درس، گفتگو کے درمیان اکثر و بیشتر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کا ذکرِ خیر ہوتا تو میرا دل زیارت اور قدم بوسی کی تمنا میں بےتاب ہوجاتا‘‘۔
تکمیلِ علوم کے بعد بھی ایک خواہش باقی تھی کہ مجددِ وقت امام اہل سنت کے بحرِ بےکنار سے کچھ موتی چُنوں۔بالآخر آپ کی یہ تمنا شوال المکرم 1332ھ کے دوسرے ہفتے میں پوری ہوئی۔ جب آپ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کی خدمت میں پہلی مرتبہ حاضر ہوئے، تو انہوں نے آپ کے چہرے کے خدوخال اور آثار وقرائن سے اول ملاقات میں ہی آپ کی ذہانت و فطانت اور آثارِ سعادت کو محسوس فرمالیا تھا۔ اس لئے پہلی ملاقات ہی میں فرمادیا تھا: 
’’اللہ تعالیٰ تمہیں برہان الحق، برہان الدین اور برہان السنت بنائے‘‘۔ 

پھر آپ اعلیٰ حضرت کے دارالافتاء میں بیٹھ کر ارشادات نقل کرتے، اور دارالعلوم منظر الاسلام کے صدر مدرس مولانا ظہو الحسن رامپوری رحمتہ اللّٰہ علیہ کے پاس بھی درس میں شریک ہوجاتے۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کے صاحبزادے مفتیِ اعظم ہند رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللّٰه علیہ کے ساتھ دارالافتاء میں آپ کا وقت گزرتا۔ یہ تینوں حضرات ساتھ ہی کھانا تناول فرماتے۔ حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کم و بیش تین سال اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کی خدمت میں گزارے تمام علوم و فنون میں مزید پختگی اور فتویٰ نویسی میں مہارت حاصل کرلی۔

آپ کو فقہ و فتویٰ میں اس قدر مہارت ہوگئی تھی کہ خود اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ آپ کی فقہ اور افتاء سے مطمئن و خوش تھے، اور آپ کی ذات پر کامل اعتماد فرمانے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ کو غیر منقسم ہندوستان کےلئے قاضیِ شرع اور مفتیِ شرع کی تقرری کرنا ہوئی تو حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو قاضیِ شرع اور حضور مفتیِ اعظم ہند اور حضرت برہانِ ملت علیہماالرحمہ دونوں کو ان کا معاون مفتیانِ شرع مقرر فرمایا۔فقہ اور فتاویٰ کے علاوہ امام اہل سے آپ نے ہندسہ، ہیئت، زیجات، تکسیر، جفر، مقالہ، توقیت وغیرہ جیسے کثیر علوم و فنون حاصل کیے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ آپ کو پینتالیس علوم و فنون کی اجازت عطاء فرمائی۔
*(برہانِ ملت کی حیات و خدمات:46)*

*جن علمائے کرام سے تحصیلِ علم کیا ان کے اسمائے گرامی:* اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، مولانا شاہ محمد عبدالکریم، مولانا شاہ محمد عبدالسلام، مولانا قاری بشیر الدین، مولانا عبدالرحمن افغانی، مولانا جلال امیر پشاوری رحمۃ اللّٰه علیہم اجمعین۔

*بیعت و خلافت:* 1335ھ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰه علیہ سے بیعت کی سعادت حاصل کی، اور 26/جمادیُ الثانی 1337ھ کو جبل پور میں عیدگاہ کلاں کے جلسۂ عام میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آپ کو 45 علوم اور 11 سلسلوں کی اجازت عطاء فرمائی، اور آپ کے والد ماجد سے ارشاد فرمایا:
’’مولانا عید الاسلام صاحب! برہاں میاں آپ کے جسمانی فرزند ہیں اور میرے روحانی فرزند ہیں۔ دورانِ قیام بریلی میں فقیر نے ان کا ذہنی، علمی، عملی جائزہ بخوبی لے لیا ہے۔اخلاق، تقویٰ، فتویٰ، اتباعِ سنت و شریعت وغیرہا، ہر پہلو سے آزما لیا ہے۔ میں اپنے اس روحانی فرزندِ سعادت مند، برہان الحق کو دستارِ فضیلت سے مزین کرکے 45؍علوم اور 11؍ سلسلوں کی اجازت دیتا ہوں‘‘۔
(ایضا: 54)

*سیرت و خصائص:* برہانِ ملت، برہان الدین، برہان السنت، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، ممدوحِ اعلیٰ حضرت، مظہرِ شریعت، آفتابِ طریقت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، حضرت علامہ مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ کی خاندانی شرافت، علمی و جاہت، فقہی بصیرت کی گواہی مجدداعظم رحمۃ اللّٰه علیہ نے دی ہے۔ اگر آپ کی زندگی کا خلاصہ نکالیں تو آپ حقیقۃً ’’عکسِ رضا‘‘ تھے۔ فقہ و افتاء و عزم و استقامت، تصلب فی الدین، احقاق حق، وابطال باطل، گیرائی و گہرائی، کلیات و جزئیات پر ملکہ و عبور، اسلاف کی عقیدت، سرکارِ دو عالمﷺ سے سچی محبت۔
الغرض ہر ہر وصف و خوبی میں اپنے پیر ومرشدکے سچےخلف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے علماء و مفتیان کرام دور دراز علاقوں سے سفر کرکےآپ کی زیارت و استفادہ کےلئے حاضر ہوتے، جنہیں اعلیٰ حضرت کی زیارت یا صحبت حاصل ہوئی تھی وہی فرماتے تھے کہ حضرت برہانِ ملت کی زیارت سے اعلیٰ حضرت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

*سیاسی بصیرت:* حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ جہاں دینی و علمی اعتبار سےبلند پایہ عالمِ دین تھے۔ اس کےساتھ ساتھ ملی، ملکی، بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے۔اسی طرح اہل سیاست کے مکر و فریب اور دنیاوی و سماجی مسائل کی نزاکت کو بخوبی سمجھتے۔ اللہﷻ نے آپ کو ایسی سیاسی بصیرت عطاء فرمائی تھی کہ بڑے بڑے سیاسی لوگ اور حکام و افسران آپ کے سامنے تابِ گفتگو نہ رکھتے تھے۔ آپ کے زمانے میں دوچار نہیں بلکہ بےشمار قومی و ملی مسائل آئے، اور بعض مسائل میں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کفر و باطل کی تند و تیز ہوائیں اسلام کو لے اڑیں گی، اور مسلمانوں کو ان مسائل میں شکست ہوجائے گی۔ لیکن حضرت برہان ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہر ایک مسئلہ کا جم کر مقابلہ کیااور اہل باطل کو مات دی۔ گاؤ کشی کی بات ہو، یا مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ، اوقاف کی باز یابی کی بات ہو، یا فسادات جبل پور میں شجاعت و بہادری کے کارنامے، ہندو مسلم اتحاد کی بات ہو، یا تحریکِ پاکستان ہرجگہ اور ہر مسئلے میں آپ نے قوم و ملت کی صحیح راہ نمائی فرمائی۔اللہﷻ کی مدد سے کامیاب رہے۔

حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰہ جیسی جامع کمالات شخصیت کے لئے چند صفحات ناکافی ہیں۔آپ کے تمام علمی کمالات اور کارناموں کےلئے کئی صفحات درکار ہیں۔
حضرت برہانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں ہیں۔ صرف فتاویٰ کی 19 ضخیم جلدیں ہیں۔ بہت سی کتب ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔درجنوں کتب، ہزاروں تلامذہ و مریدین و خلفاء کے علاوہ آپ نے چار صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں یاد گار چھوڑے ہیں۔ آپ کے مزید حالات کےلئے ’’برہان ِ ملت کی حیات و خدمات، تالیف: مولانا عبدالوحید مصباحی دام ظلہ‘‘ کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

*تاریخِ وصال:* 26؍ربیع الاول 1405ھ، مطابق 20؍دسمبر 1984ء، شبِ جمعہ، شام سوا چھ بجے واصل باللہ ہوئے۔ خانقاہِ سلامیہ جبل پور مدھیہ پردیش( انڈیا ) میں مدفون ہیں۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے