« مختصــر ســوانح حیــات »
---------------------------------------------
حضرت سید محی الدین ابو نصر محمد رحمۃ اللہ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* محمد بن ابو صالح نصر۔
*مکمل نام:* محی الدین ابو نصر محمد۔
*کنیت:* ابو محمد۔
*لقب:* محی الدین۔
*سلسلۂ نسب:* محی الدین ابو نصر محمد بن سید ابو صالح عبد اللہ نصر بن سید عبد الرزاق بن غوث الاعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللّٰه تعالیٰ علیہم اجمعین۔
*تحصیل علم:* آپ کی تعلیم و تربیت والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ فقہ و حدیث دیگر علوم ِعقلیہ و نقلیہ کی تحصیل و تکمیل اپنے والد گرامی سے فرمائی۔ ان کے علاوہ آپ نے بہت سے مشائخِ وقت اور محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
جن میں حسن بن علی مرتضیٰ العلوی، ابو اسحق یوسف بن ابی حامد، ابی الفضل محمد بن عمر ارموی، وغیرھم۔
*بیعت و خلافت:* آپ رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے والد گرامی سید ابو صالح عبد اللہ نصر رحمہ اللّٰه سے بیعت ہوئے اور خلافت و خرقہ قادریہ سے مشرف ہوئے۔
*سیرت و خصائص:* سراج العلماء، زبدۃ الازکیاء، عمدۃ الاتقیاء، کثیر العلم حضرت سید محی الدین ابو نصر محمد رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے بیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ اپنے جدِّ امجد سیدنا غوث الاعظم رضی اللّٰه عنہ سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔
آپ اعلیٰ درجے کے محقق، محدث اور مدرس تھے۔ علم و مطالعہ کے بےحد شوقین اور اس کے متلاشی تھے۔ آپ اپنے تمام معاملات میں سنت نبوی کے مطابق کوشش بلیغ فرماتے، اور ہر کام محنت و کوشش سے کرتے جس میں سستی و کاہلی کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا۔ آپ اپنے وقت کے عظیم فقیہ تھے۔فقاہت کی بنیاد پر ’’مفتی عراق‘‘ مقرر ہوئے، اور اس وقت آپ کے والد گرامی عراق کے ’’قاضی القضاۃ‘‘ یعنی چیف جسٹس تھے۔ بعد میں آپ کو دارالخلافہ بغداد میں مسندِ قضاء پر فائز ہوئے۔ لیکن صرف ایک ہی مرتبہ عدالت تشریف لے گئے، پھر فوراً استعفیٰ دے دیا، اور بعد میں کبھی عہدۂ قضا قبول نہیں فرمایا۔
*درس و تدریس:* آپ کا گھرانہ علم و فن کا منبع تھا، اور آپ نے علم دین کے فروغ و اشاعت میں کامیاب کوشش کی، باب الازج کے مدرسے میں ابتداءً درس دیا۔ پھر اپنے جد امجد غوث الاعظم رضی ﷲ عنہ کے مدرسے میں تاحیات تدریس فرماتے رہے۔ آپ سے مشہور محدث حافظ دمیاطی وغیرہ نے احادیث کی سماعت کی ہے۔
*اولاد امجاد:* آپ کے چار فرزند تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر ثانی، شیخ عبد اللہ، شیخ ظہیر الدین ابو مسعود احمد، حضرت سید علی رضوان۔ علیہم الرحمہ۔
آپ کے صاحبزادے شیخ ظہیرالدین رحمہ اللّٰه نہایت ہی فصیح و بلیغ گفتگو فرماتے، اور جامع مسجد میں خطبہ دینے کے علاوہ اپنے مدرسے میں تدریس کرتے تھے۔
شیخ عزالدین فرماتے ہیں: کہ آپ فاضل اور واعظ تھے، اور شیخ سقری سے احادیث سماعت کی، 27؍ ربیع الاول بروز سہ شنبہ 681ھ کو لاپتہ ہوگئے، اور بعد میں ایک کنوئیں سے آپ کی نعش ملی۔
*خلفاء کرام:* آپ کےخلفاء میں صرف حضرت سید علی رحمہ اللّٰه کا نام موجود ہے۔
*تاریخ وصال:* آپ کے وصال کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ جن میں 27، اور 22، ربیع الاول 656ھ، بروز دوشنبہ مشہور ہے۔ ان کے علاوہ بعض نے 13؍ شوال، 22، ربیع الاول، 12؍ محرم 613ھ بھی لکھی ہے۔
*مزار مبارک:* آپ کا مزار مقدس بغداد شریف میں اپنے جد امجد حضرت غوث الاعظم رضی ﷲ عنہ کے مدرسے کے احاطے میں مرجع خلائق ہے۔
*(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص268)*
*شجرہ شریف میں اس طرح مذکور ہے:*
نصر ابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ
دے حیاتِ دیں محی جاں فزا کے واسطے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں