ریاست کیرلا کے مشاہیرفقہا از قلم طارق انور مصباحی

 مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما


ریاست کیرلا کے مشاہیرفقہا


طارق انورمصباحی


مدیر:ماہنامہ پیغام شریعت(دہلی)


کیرلا میں مخدومی خاندان کی علمی خدمات 


بعض روایتوں کے مطابق عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ہی دین اسلام کیرلا کا ایک مقبول اور پسندیدہ مذہب بن چکا تھا۔کیرلا کے راجا چیرمان پیرومال (راجاسامری)نے عہد رسالت ہی میں ایمان قبول کیا تھا ،اورآپ کا اسلامی نام عبد الرحمن سامری اوربعض روایتوں کے مطابق تاج الدین ہندی ہوا۔آپ کا مقبرہ یمن کی ریاست صلالہ کے مشہور علاقہ شحر کے مقام ظفار میں ہے۔


راجا سامری کی گزارش پر مبلغین اسلام کا قافلہ حضرت سیدنا مالک بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں کیرلا میں جلوہ گر ہوا ۔ کیرلا کے بے شمار لوگوں نے مذہب اسلام کوقبول کیا اورمتعددقصبات وبلادمیں مساجد تعمیرکی گئیں۔


ابتدائے عہد سے تا دم تحریر نہ جانے کتنے علما ،فقہا, سادات کرام ومشائخ عظام نے اس سرزمین کو اپنی بیش بہااورمخلصانہ دینی خدمات سے سرفراز فرمایا ۔


کیرلا کے علمائے متأخرین میں ’’مخدومی خاندان‘‘نے قوم مسلم کی شانداردینی ،تعلیمی وتبلیغی خدمات انجام دیں۔  


مخدومی خاندان،علمائے متاخرین میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ خاندان ہے۔یہ خاندان پونانی میں آباد تھا۔


ریاست کیرلاکے ضلع ملاپورم (Malappuram) میں

ساحل سمندرکے قریب آباد پونانی (Ponnani)ایک مشہورقصبہ ہے۔اس کوعربی زبان میں (فنان)کہا جاتا ہے۔پونانی ماضی قریب میں کیرلا کا علمی مرکز تھا ۔جہاں دنیائے اسلام کے علماوفقہا کی آمدورفت جاری رہتی ۔اسی وجہ سے قصبہ پونانی ریاست کیرلامیں ’’مکہ مالابار‘‘ کے نام سے مشہو ر تھا ۔


شجر نسب خاندان مخدومی 


مخدومی خاندان کے جد اعلیٰ شیخ احمد معبری یمنی ہیں۔آپ کے دوفرزندتھے:(1)شیخ زین الدین ابراہیم معبری (2)شیخ علی معبری 


شیخ علی بن احمد معبری یمنی کے ایک فرزندتھے:(۱1)شیخ زین الدین بن علی معبری مخدوم اول(مخدوم کبیر)


مخدوم اول شیخ زین الدین مخدوم کبیرکے تین فرزند تھے:(1)شیخ یحییٰ معبری(2)شیخ عبد العزیز معبری (3) شیخ محمد غزالی معبری۔


 شیخ محمدغزالی بن زین الدین مخدوم اول معبری کے فرزند شیخ زین الدین معبری مخدوم ثانی ہیں۔


مخدوم ثانی اپنے علم وفضل اور زہدوتقویٰ کے سبب مشہور دیار وامصار ہیں ۔آپ کی مشہور زمانہ فقہی تالیف ’’فتح المعین ‘‘ہے۔آپ مخدوم اول کے پوتے ہیں اور دونوں کے نام کے ساتھ ’’زین الدین ‘‘مستعمل ہے ۔دادا کو مخدوم اول اور مخدوم کبیر کہا جاتا ہے اورپوتے کو مخدوم ثانی اورمخدوم صغیر کہا جاتا ہے،لیکن مخدوم ثانی ہی زیادہ شہرت یافتہ ہیں۔


مخدومی خاندان کے مشہور علماوفقہامیں(1)شیخ زین الدین ابراہیم بن احمدمعبری،(2)شیخ زین الدین مخدوم اول(کبیر)،(3) شیخ عبدالعزیز معبری بن مخدوم اول(4)اور شیخ زین الدین مخدوم ثانی تھے۔


ان چار شخصیات میں ایک بزرگ مخدوم اول کے چچا ہیں ،ایک مخدوم اول کے بیٹے ہیں اور ایک مخدوم اول کے پوتے ہیں۔


مخدوم ثانی کے والد شیخ محمدغزالی کوشہرت حاصل نہیں ،بلکہ ان کے چچا شیخ عبدالعزیزمعبری کو شہرت حاصل ہے۔بعض مؤرخین نے لکھا کہ مخدوم ثانی کے والد شیخ عبد العزیز معبری ہیں ،حالاںکہ مخدوم ثانی کے والد شیخ محمد غزالی ہیں اورشیخ عبدالعزیز معبری چچاہیں۔


اس خاندان کے تین بزرگ کا نام ’’زین الدین‘‘ ہے۔ مخدوم اول ،اور ان کے چچا اوران کے پوتے کا نام ’’زین الدین ‘‘ ہے۔ 


مخدوم اول کو ابویحییٰ زین الدین ،مخدوم اول کے چچا کو زین الدین ابراہیم اورمخدوم اول کے پوتے کوزین الدین احمد کہا جاتا ہے۔ نام میں یکسانیت کے سبب کبھی شبہہ واقع ہوجاتا ہے۔اسی طرح ہرنام کے ساتھ مخدوم کا لقب آجانے سے بھی اشتباہ ہوجاتا ہے۔ 

 

شیخ زین الدین ابراہیم بن احمدمعبری


مخدومی خاندان کو شیخ زین الدین ابراہیم بن احمدمعبری یمنی نے نویں صدی ہجری کے آغاز میں کیرلا میں آباد کیا تھا ۔وہ یمن کے ساحلی علاقہ معبر سے تمل ناڈو(Tamil Nadu) آئے ،اور ایک زمانہ تک تمل ناڈوکے قصبہ کریکل (Karaikal)میں قیام پذیر رہے ۔یہ علاقہ یمن (Yaman)سے قریب ہے۔ اب کریکل پانڈیچری (Pondicherry)کا ایک حصہ ہے۔ابھی پانڈیچری دہلی حکومت کے زیر انتظام ہے۔


شیخ زین الدین ابراہیم معبری کریکل سے تمل ناڈوکے شہر کایل پٹنم(Kayalpatnam) (ضلع ٹوٹ کوڈی :Thoothukudi )میں دعوت دین وتبلیغ اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے ، پھر وہاں سے کیرلاکے مشہورشہر کوچین(Kochin) آگئے ۔کچھ مدت بعد وہاں سے پونانی چلے آئے اور دینی خدمات اور دعوت وتدریس میں مشغول ہو گئے ۔



شیخ زین الدین مخدوم اول(مخدوم کبیر)


حضرت شیخ ابویحییٰ زین الدین مخدوم اول بن علی بن احمد معبری شافعی ملیباری(872؁ -928 -1467؁-1521 ) کی ولادت شہر کوچین میں 12:شعبان872 مطابق 1467 کو ہوئی ۔آپ ماہر عالم ،فقیہ ،محدث ،محقق،شاعر ،مئولف ومصنف اور چشتی طریقت کے ایک عظیم صوفی تھے ۔آپ نے سب سے پہلے اپنے چچا ابراہیم معبری کے پاس کوچین میں علم حاصل کیا ،پھر اپنے چچا کے ساتھ پونانی چلے گئے۔ وہاں مسلسل جدو جہد کے بعد آپ علم وفن میں یکتائے روزگار ہوگئے ۔پونانی کے بعد آپ نے کالی کٹ(Calicut) کا رخ کیا اور وہاں حضرت شیخ علامہ فخر الدین ابوبکر بن قاضی رمضان شالیاتی کے پاس علم فقہ حاصل کیے۔


اس کے بعد آپ قاضی عبدالرحمن مصری کے پاس مصر گئے اور وہاں پانچ سال رہ کر آپ نے احادیث نبویہ کا علم حاصل کیا ۔قاضی عبدالرحمن مصری نے آپ کو حدیث،تفسیر اور فقہ کی اجازت بھی دی ۔


آپ نے مصر کے مشہور علما مثلاً شمس الدین جوجری ، شیخ الاسلام زکریاانصاری(833-936-1420-1520) اورشیخ کمال الدین محمد بن ابی شریف سے بھی  شرف تلمذ حاصل کیا۔


مصر سے آپ زیارت حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گئے ۔حج وعمرہ کے بعد پونانی واپس آئے اور وہاں کی عالی شان ’’جامع مسجد‘‘ تعمیر فرمائی اور وہیں تعلیم وتربیت میں مشغول ہوگئے ۔


شیخ زین الدین مخدوم اول کے عہد میں پُرتگالیوں (Portuguese)کے مظالم بڑھ گئے ،تو آپ نے ان سے مقابلہ کا عزم کیا اور مسلمانوں کو ان سے جہاد کرنے کے لیے ابھارا ۔مسلمان حکمرانوں کے پاس مسلمانان کیرلا کی مدد کے لیے خطوط بھیجے ۔ اسی درمیان 927مطابق 1521میں آپ کاوصال ہوگیا۔


پونانی میں اپنی تعمیر کردہ مسجد کے قریب آپ مدفون ہوئے ۔آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ ان میں بعض کتابیں منظوم ہیں۔چند تصانیف کا تذکرہ مع ذکر فنون مسطورہ ذیل ہے۔


 (1) شعب الایمان(علم حدیث:سیدنورالدین ایجی کی فارسی کتاب ’’شعب الایمان‘‘کاعربی ترجمہ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ زین الدین مخدوم اول فارسی زبان سے بھی آشنا تھے)

(2) ارشاد القاصدین  فی اختصار منہاج العابدین(علم فقہ:امام غزالی کی کتاب منہاج العابدین کامختصر)

(3)حاشیۃ وافیۃ علی الارشادلابن المقری (علم فقہ )

(4،5)حاشیتان علی التحفۃ لابن الوردی (علم فقہ)

(6)کفایۃ الفرائض فی اختصار الکافی فی الفرائض(علم میراث:شیخ صردفی کی کتاب ’’الکافی فی الفرائض‘‘کی تلخیص)

 (7)کتاب الصفاء من الشفاء(علم سیرت :قاضی عیاض مالکی کی مشہورکتاب ’’الشفا‘‘کی تلخیص)

(8)سیرۃ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(علم سیرت)(9)قصص الانبیاعلیہم السلام(علم تاریخ وسیرت)

(10) تحفۃ الاحباء وحرفۃ الالباء (حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ماثوراذکار ودعائیں)

 (11)مرشد الطلاب الی الکریم الوہاب (علم تصوف )

(12) سراج القلوب وعلاج الذنوب(علم تصوف) 

(13)المسعدفی ذکر الموت (علم ترغیب وترہیب)(14)قصیدۃ البرکۃ ونفی الفقر(وصابی کی کتاب البرکۃ سے ماخوذ)

(15)شمس الہدیٰ(علم المواعظ) (16) ہدایۃ الاذکیاء الیٰ طریقۃ الاولیاء (علم الاخلاق:189 :اشعار پرمشتمل ہے)

(17)تحریض اہل الایمان علیٰ جہاد عبدۃ الصلبان(قصیدہ جہادیہ :پرتگالیوں سے جنگ کی ترغیب)

(18)تسہیل الکافیۃ فی شرح الکافیۃ لابن الحاجب (علم نحو)(19)کفایۃ الطالب فی حل کافیۃ ابن الحاجب (علم نحو)

(20)حاشیۃ علی الالفیۃ لابن مالک(علم نحو:آپ کے بیٹے شیخ عبد العزیزمعبری نے اس کی تکمیل کی )


شیخ عبدالعزیز بن شیخ زین الدین مخدوم اول معبری 


 آپ شیخ زین الدین مخدوم اول کے فرزند اور شیخ زین الدین مخدوم ثانی کے چچاہیں ۔آپ نے اپنے والدماجد سے علوم دینیہ پونانی میں حاصل کیا۔اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے علامہ احمد قاضی کے پاس کالی کٹ گئے۔والد گرامی کی وفات کے بعد پونانی کی جامع مسجد میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے ۔آپ عوام مسلمین کی تربیت ونصیحت میں مہارت رکھتے تھے۔


پُرتگالیوں کو آپ ہمیشہ ناپسند کرتے رہے ،اور پُرتگالیوں کے خلاف مسلمانوں کی قیادت فرماتے ۔آپ نے بہت سی کتابیں اور رسالے تحریر فرمائے۔

 آپ کی تصانیف کی نا تمام فہرست مندرجہ ذیل ہے:


(1)قصیدۃ الاقسام والمفرد

 (2) باب معرفۃ الصغریٰ 

(3) باب معرفۃ الکبریٰ 

(4) ارکان الصلوٰۃ 

(5) ارکان الایمان

 (6)مرقاۃ القلوب

 

 آپ نے اپنے والد شیخ زین الدین مخدوم اول کے ’’حاشیۃ الالفیۃلابن المالک‘‘ کی تکمیل کی، اور اپنے والد کے قصیدہ ’’ہدایۃ الاذکیاء الیٰ طریقۃ الاولیاء ‘‘کی شرح تحریر فرمائی۔ شرح کا نام ’’مسلک الاتقیا ء ومنہج الاصفیاء‘‘ہے۔


996ہجری میں آپ نے اس دار فانی کو الوداع کہا اور اپنے والد گرامی کی قبر کے پاس پونانی کی جامع مسجد میں مدفون ہوئے ۔



شیخ زین الدین مخدوم ثانی (مخدوم صغیر) 


حضرت شیخ احمد زین الدین بن محمد غزالی بن مخدوم اول زین الدین بن علی بن ا حمد معبری فنانی ملیباری شافعی(938-991 - 1532-1583) کی شہرت کیرلا وبیرون کیرلامیں یکساں ہے۔آپ کے والد گرامی شیخ محمد غزالی شمالی مالابار کے قاضی القضاۃ تھے ۔یہ چومبال (Chombal) میں سکونت پذیر ہوگئے۔ وہاں ایک مسجد تعمیر فرمائی، اور چومبال ہی میں آپ کی شادی ہوئی ۔ابھی چومبال پانڈیچری (Pondicherry)میں واقع ہے۔ پانڈیچری دہلی حکومت کے زیرنگرانی ہے۔


 چومبال کے پاس کنہی پلی (Kunhippalli)میں آپ کا مسکن تھا ۔شیخ زین الدین مخدوم ثانی کا مقبرہ کنہی پلی میں ہے۔


زین الدین مخدوم ثانی کی ولادت 938 مطابق 1532میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے چومبال میں حاصل کی۔اس کے بعد اپنے چچا شیخ عبد العزیز بن زین الدین مخدوم اول کے پاس پونانی آگئے، اور ان سے علمی استفادہ کرتے رہے ۔اس کے بعد آپ حرمین طیبین کے حج و زیارت کے واسطے روانہ ہوئے ۔حج کعبہ وزیارت روضہ رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعد 10 :سال مکہ معظمہ میں قیام پذیر رہے۔ وہاں اکابر علما ومشائخ سے اکتساب فیض فرمایا ،جن میں حضرت علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی(909-974-1504-1567 ) ،علامہ عزالدین بن عبدالعزیز زمزمی ،علامہ وجیہ الدین عبدالرحمن بن زیاد اور حضرت سید عبدالرحمن صفوی قابل ذکر ہیں ۔


قطب زماں حضرت زین العابدین علیہ الرحمۃوالرضوان سے آپ نے علم وتصوف حاصل کیا اور تصوف میں آپ کا رتبہ بلندیوں تک جا پہنچا۔شیخ زین العابدین نے انہیں گیارہ خرقہ عطافرمایا اور قادریہ طریقت کی خلافت بھی عطا کی۔اس طرح اپنے شیخ طریقت زین العابدین محمد بن ابو الحسن بکری صدیقی قدس سرہ العزیزکی عنایتوں سے آپ راہ طریقت کے بھی رہنما بن گئے ۔شیخ زین الدین مخدوم ثانی ملک عرب سے اپنے وطن واپس آئے،اور زندگی کے باقی ایام آپ نے فنان (پونانی)میں گذارا۔


پونانی کی جامع مسجد میں آپ36 :سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔


مخدوم زین الدین اور اعلی حضرت


جس طرح بھارت کے متاخرین علمائے احناف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ القوی کی شخصیت انتہائی معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔اسی طرح کیرلا کے متاخرین علمائے شوافع میں شیخ زین الدین مخدوم ثانی علیہ الرحمۃوالرضوان کی شخصیت انتہائی معتبر مانی جاتی ہے۔


شیخ زین الدین مخدوم ثانی علیہ الرحمہ پُرتگالیوں کو ناپسند فرماتے ، اور جہاں کہیں بھی پُرتگالی قوم، مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھاتی ،آپ جائے حادثہ کا دورہ کرتے اور حالات کو قلم بند فرماتے ۔اس طرح آپ نے ایک جامع تاریخی دستاویز’’تحفۃ المجاہدین ‘‘ کے نام سے تالیف فرمائی ۔


آپ نے کالی کٹ کے سامودری راجا کو پُرتگالیوں سے جنگ کے لیے آمادہ کیا۔ آپ اپنے وقت کے ماہر عالم ،عظیم مؤرخ اور مشہور مصنف تھے ۔آپ نے عربی زبان میں بہت سی مفید ونافع کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ آپ کی تصانیف مندرجہ ذیل ہے:


 (1)مختصر شرح الصدور للسیوطی(علم حدیث:امام سیوطی کی کتاب ’’شرح الصدورفی احوال الموتیٰ والقبور‘‘کامختصر )

 (2) الجواہر فی عقوبۃ اہل الکبائر (علم حدیث)

(3) قرۃ العین بمہمات الدین (علم فقہ: شافعی)

(4) فتح المعین شرح قرۃ العین(علم فقہ: شافعی) 

(5) احکام احکام النساء(علم فقہ :شافعی)

(6)الفتاوی الہندیہ (علم فقہ وفتاویٰ)

(7) الاجوبۃ العجیبۃ عن الاسئلۃ الغریبہ(فتاویٰ فقہیہ کا مجموعہ)

(8) ارشاد العباد الی سبیل الرشاد(علم تصوف)

(9) تحفۃ المجاہدین فی بعض اخبار البرتغالین(علم تاریخ)

(10)مولودمنقوص (یہ مولودعربی زبان میں ہے،اور کیرلا واطراف کیرلا میں بکثرت اس کے پڑھنے کا رواج ہے)


فتح المعین فقہ شافعی کی مشہور ومعتبر اور انتہائی مفید ونافع کتاب ہے ۔تحفۃ المجاہدین کیرلا کی پہلی تاریخ ہے ۔ مشرق ومغرب کے مؤرخین اس کتاب کو اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عرب وعجم کے محققین بھی اس کتاب کو معتبر ومستند تاریخی دستاویز شمار کرتے ہیں ۔اس کتاب کا کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔مثلا انگلش،لاطینی ،پُرتگالی ،فرانسیسی ،المانی اسبانی وفارسی وغیرہ ۔بھارتی زبانوں میں بھی اس کے تراجم موجود ہیں ،جیسے اردو ،ہندی ،تمل ،کنڑ وملیالم وغیرہ ۔


حضرت شیخ زین الدین مخدوم ثانی قدس سرہ العزیزکے دو بیٹے تھے، اور ایک بیٹی ۔ ابوبکر ،عبدالعزیزوفاطمہ ۔آپ کاوصال 991مطابق1583میں قصبہ چومبال میں ہوا ،اور آپ وہیں کنجی مسجد (Kunji Palli)کے پاس مدفون ہوئے ۔اللہ تعالیٰ ان تمام فقہائے اہل سنت وجماعت کے درجات بلند فرمائے ،اورہمیں ان کے فیوض وبرکات عطا فرمائے :آمین ثم آمین


جاری کردہ:یکم دسمبر 2020






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے