اللّٰه کے ذکر سے مومنوں کے دل نرم ہوتے اور کافروں کے دِلوں کی سختی بڑھتی ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
ترجمہ:
تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے) تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں ۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں۔
ایک اور مقام پر اللّٰه تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ" (انعام: ۱۲۵ )
*ترجمہ:* اور جسے اللّٰه ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰه تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب یہ آیت ’’ اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ‘‘ تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:
یا رسولَ اللّٰه صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سینے کا کھلنا کس طرح ہوتا ہے؟
ارشاد فرمایا کہ جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھلتا ہے اور اس میں وسعت ہوتی ہے۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اس کی کیا علامت ہے؟
ارشاد فرمایا: ’’ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف متوجہ ہونا اور دھوکے کے گھر (یعنی دنیا سے) دور رہنا اور موت کے لئے اس کے آنے سے پہلے آمادہ ہونا۔
*(الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الخامس، ص۳۵۶، الحدیث: ۹۷۴)*
فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ : تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔
یعنی ان کے لئے خرابی ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے یا اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو وہ پہلے سے زیادہ سکڑ جائیں اور ان کے دلوں کی سختی زیادہ ہو جائے ، یہی لوگ جن کے دل سخت ہو گئے حق سے بہت دور اور کھلی گمراہی میں ہیں۔
*(ابوسعود، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴/ ۴۶۵، ملخصاً)*
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مشہور تصنیف تفسیر خازن میں فر ماتے ہیں:
’’نفس جب خبیث ہوتا ہے تو اسے حق قبول کرنے سے بہت دوری ہوجاتی ہے اور اللّٰه تعالیٰ کا ذکر سننے سے اس کی سختی اور دل کا غبار بڑھتا ہے اور جیسے سورج کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہوتا ہے ایسے ہی اللّٰه تعالیٰ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دِلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔
*(خازن، الزمر، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴/ ۵۳)*
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا اپنا شعار بنالیا ہے، وہ صوفیوں کے ذکر کو بھی منع کرتے ہیں، نمازوں کے بعد اللّٰه کا ذکر کرنے والوں کو بھی روکتے اور منع کرتے ہیں، ایصالِ ثواب کے لئے قرآنِ کریم اور کلمہ پڑھنے والوں کو بھی بدعتی بتاتے ہیں اور ان ذکر کی محفلوں سے بہت گھبراتے اور دور بھاگتے ہیں، اللّٰه تعالیٰ انہیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰه تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کیا کرو کیونکہ اللّٰه تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ گفتگو دل کی سختی ہے، اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور وہ ہو تا ہے جس کا دل سخت ہو۔
*(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲ - باب، ۴ / ۱۸۴، الحدیث:۲۴۱۹)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ ارشـد رضـا خـان رضـوی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7620132158*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں