مولوی علی محمد جماعتی رحمۃ اللّٰه علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯مولوی علی محمد جماعتی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*اسم گرامی:* حضرت مولانا علی محمد ابن مولوی احمد الدین۔ 
*مقام ولادت:* موضع فتو والا ضلع فیروز پور (بھارت) میں تقریباً ۱۳۰۸ھ میں پیدا ہوئے۔

آباء و اجداد نہایت نیک سیرت تھے۔ آپ نے قرآن کریم اپنے والد ماجد سے پڑھا اور جب حضرت مولانا محمد حسین ساکن انگہ شریف ضلع سرگودھا (تلمیذ رشید امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خاں قدس سرہٗ) بریلی شریف میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے فروز پور پلٹن میں تشریف لائے تو درس نظامی کی تحصیل کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔ معمول یہ تھا کہ مغرب کی نماز پلٹن میں ادا کرتے اور رات کے بارے بجے اسباق سے فارغ ہو کر واپس آتے نیز روزانہ گائے کا دودھ استاد کی خدمت میں پیش کرتے ۔ 
مولانا محمد حسین آپ پر نہایت مہربان تھے ۔ مولانا علی محمد کو بھی ان سے حد درجہ عقیدت تھی ،وہ نہ صرف ایک بلند پایہ فاضل تھے بلکہ ولی کامل بھی تھے ، دوران تدریس ہاتھ ہلا ہلا کر فرمایا کرتے کہ۔۔۔
’’مولوی علی محمد ! ہوش کرو ، فتنے آئے ، فتنے آئے‘‘ 
مولانا فرمایا کرتے کہ ہم نے آپ کی اس ارشاد کی تصدیق ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔ اسی زمانہ میں مناظر اسلام مولانا محمد عمر اچھروی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی آپ کے یہاں قیام پزیر رہے اور مولانا محمد حسین قدس سرہ سے اسباق پڑھ کر واپس آجاتے اور آپ سے بھی استفادہ کرتے ۔

مولانا علی محمد قدس سرہ فتویٰ والا سے فرائض امامت و خطابت کے لئے فیروز شیڈ میں آگئے اور سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔ نصف بخاری شریف پڑھی تھی کہ استاد مکرم کا وصال ہو گیا چنانچہ آپ ہمہ تن خدمت دین میں مصروف ہو گئے ، علم دین کا شغف دیکھئے کہ آپ علوم دینیہ کی تحصیل میں تقریباً تیس سال تک منہمک رہے ۔ فیروز پور شیڈ میں ۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۷ء تک معروف شیخ طریقت حضرت سید محمد اسمٰعیل شاہ قدس سرہ العزیز (کرمانوالہ ) آ کر اقتداء میں نماز جمہ ادا فرماتے رہے، شاہ صاحب آپ کو ولی کامل سمجھتے تھے اور اس کا اظہار اپنے مریدین میں بھی کیا کرتے ۔

آپ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت پیر جماعت لعی شاہ محدث علی پوری قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت تھے ، پیرو مرشد کی آپ پر نظر عنایت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ حاضر خدمت ہوتے تو وہ آپ کو ا پنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے۔

تقسیم ملک کے بعد آپ لائل پور شیڈ میں آگئے اور یہاں ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی۔ حضرت محدث اعظم لائپوری قدس سرہ نے جب دار العلوم کی ترقی میں پوری دلچسپی لیتے رہے ۔

لائل پور سے آپ کوٹ ال گڑھ قصور تشریف لے آئے اور یہاں مسجد چھتی گلی میں فرائض امامت انجام دینا شروع کردیا نیز کوٹ حلیم خاں کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے رہے ۔ مسجد چھتی گلی میں بھی آپ نے سلسلہ تدریس جاری رکھا اور مسلسل سال تک فارسی ، صرف و نحو اور تفسیر کا درس دیتے رہے ۔ کتب بینی آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا ،آپ نے کئی مرتبہ بخاری شریف پڑھی اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے آج تک جس مقصد کیلئے اسے پرھا ہے ۔ بحمدہ تعالیٰ ہمیشہ کامیاب رہا ہوں ۔ دینی معاملات میں آپ کسی بڑے سے بڑے آدمی کی رعایت نہ کرتے اور ڈنکے کی چوٹ صحیح مسئلہ بیان کرتے ، فرقۂ وہابیہ کے تو آپ جانی دشمن تھے اور مسائل متنازعہ کے حل کے لئے دلائل کے انبار لگا دیا کرتے تھے۔

قصور میں آپ سے جن تلامذہ نے استفادہ کیا ان میں صوفی سردار احمد (امام و خطیب کوٹ حلیم خاں ) ، مولوی برکت اللہ (مان ) ، شاہ محمد چشتی خوشویس اورحافظ عبد الحق قابل ذکر ہیں ۔ آپ کے ہاں تین صاحبزادے ہوئے جو صغر سنی ہی میں انتقال کر گئے۔

*وصال:* 24 ربیع الثانی، 7 جولائی (۱۳۸۹ھ؍۱۹۶۹ء) بروز ہفتہ صبح ساڑھے آٹھ بجے آپ کا وصال ہوا اور کوٹ ال گڑھ کے بڑے قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے