کافر حربی سے عقد میں زائد رقم لینا کیسا؟

« احــکامِ شــریعت » 
---------------------------------
کافر حربی سے عقد میں زائد رقم لینا کیسا؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے کرام کافر حربی سے سودی کاروبار کرنا کیسا ہے؟
*سائل: محمد عباس اشرفی کچھوچھہ شریف*
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ

*وعلیکم السلام ورحمة اللّٰه وبرکاته*
*الجواب بعون الوھاب*
کافر حربی اور مسلمان کے درمیان سود کے لین دین کا معاملہ مختلف ہے ۔
📑ہدایہ میں ہے: *”لا ربوا بین المسلم وَالْحَرْبِی“*
ترجمہ: مسلمان اور حربی کافر کے درمیان سود نہیں ہوتا۔
*(📕ہدایہ آخرین، صفحہ 90)*
یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے کافر حربی سے اس عقد کے ذریعے نفع لینے کو جائز قرار دیا ہے جو سودی طریقے پر مشتمل ہو مثلاً کافر کو قرض دے کر زائد رقم لینا مسلمان کے لئے جائز ہے لیکن سود کی نیت ہرگز نہیں کرے گا بلکہ جائز نفع سمجھ کر لے گا

*(📘اور اسی طرح فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۳۸۵ پر ہے کہ )*
کافر حربی اور مسلمان کے درمیان سود نہیں 

📄جیسا کہ حدیث پاک ہے 
*لا ربوا بین المسلم والحربی فی دار الحرب*

*(📒اور اسی طرح بہار شریعت حصہ ۱۱ صفحہ ۳۸۷ پر ہے کہ )*
مسلم اور کافر کے درمیان جو عقد ہو اس میں سود نہیں

*(📗اور اسی طرح در مختار جلد ۳ کتاب البیوع باب الربوا صفحہ ۱۴۹ پر ہے )*
*لا بین حربی و مسلم*
یعنی حربی اور مسلمان کے درمیان سود نہیں
اور ایک بات یاد رکھیں کہ
کفار سے منافع لینا شرعا جاٸز تو ہے لیکن دھوکا و دیگر ناجاٸز طریقے سے لینا جاٸز نہیں

*واللہ اعلم باالصواب*
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ

*✍🏻کتبــــــــــــــــــــــــــــہ:*
*حضرت مفتی محمد مظہر علی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی خادم التدریس مدرسہ غوثیہ حبیبیہ بریل دربھنگہ بہار۔*
*+918051028089*

*✅الجواب صحیح و صواب حضرت مفتی محمد رضا امجدی صاحب قبلہ ھرپوروا باجپٹی سیتامڑھی بہار۔*
*✅الجواب صحیح و المجیب نجیح حضرت مولانا محمد جابرالقادری رضوی صاحب قبلہ مسجد نور جاجپور اڑیسہ۔*
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے