سلطان التارکین حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ

 « مختصــر ســوانح حیــات » 
------------------------------

سلطان التارکین حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
آپ کا نام محمد ابن احمد ابن محمد ہے۔ 
*لقب:* حمیدالدین ،سلطان التارکین ،سوالی، صوفی، سعیدی، ناگوری ہے۔

آپ کے والد ماجد شیخ احمد ابن محمد لاہور سے دہلی تشریف لائے تھے۔ آپ کے والد محترم جو نہایت دین دار، پاکباز ،متقی وپرہیزگار تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت سعید بن زید رضی اللّٰه عنہ سے ملتا ہے، جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ 
آپ کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ حسینی سیدہ تھیں۔آپ کی والدہ محترمہ بھی اپنے زمانے کی نہایت بزرگوار ، صالح، نیک اور پاکباز خاتون تھیں۔ صوفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں پیدا ہوا اگر ان دنوں کوئی عورت میری والدہ سے بہتر ہوتی تو میں اس کے شکم سے پیدا ہوا ہوتا۔

*ولادت:* سلطان الہند، خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری (خواجہ غریب نواز) رحمتہ اللہ علیہ کی بشارت پر محمد غوری نے 1129ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر جب دہلی پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا اس کے بعد مسلم گھرانوں میں جو بچہ سب سے پہلے پیدا ہوا وہ صوفی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے آپ کی پیدائش دہلی میں589ھ مطابق 1193ء میں ہوئی تھی۔ 

*حصول علم و فیض:*
صوفی علیہ الرحمہ کے استاذ مولانا شمس الدین حلوائی تھے جن سے آپ نے علوم شریعت و طریقت کا وافر حصہ اور درجۂ کمال حاصل کیا۔ انہوں نے مولانا حلوائی کے علاوہ شیخ حمیدالدین خوئی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے بھی استفادہ کیا ۔ یوں تو انہوں نے کئی خدارسیدہ بزرگان دین کی صحبت اٹھائی اور علوم ظاہری وباطنی حاصل کئے-
صوفی علیہ الرحمہ ایک نہایت حسین وجمیل نوجوان تھے اور آپ پر خلق خدا فریفتہ تھی۔ ایک مرتبہ خواجہ غریب نواز بیٹھے ہوئے تھے اور صوفی حمیدالدین جارہے تھے جیسے ہی خواجہ غریب نواز کی نظر صوفی حمیدالدین کے جمال باکمال پر پڑی آپ نے فرمایا سبحان اللہ اگر تو میرے پاس آجائے تو حق تعالیٰ بھی تیرے جمال پر عاشق ہوجائے۔ چنانچہ اسی وقت تائب ہوکر آپ خواجہ غریب نواز کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے-
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے بعد جس شخصیت کو سب سے زیادہ خواجہ معین الدین چشتی سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا وہ صوفی حمیدالدین ناگوری تھے۔ آپ برسوں خواجہ صاحب کی خدمت میں رہے اور روحانی فیض اٹھاتے رہے۔ آپ نے ایک لمبی مدت تک ریاضت ومجاہدے کئے
آپ کی صحبت میں رہ کر تصوف ومعرفت کے راز ہائے سربستہ کا مشاہدہ کیا اور عشق الٰہی سے اپنے سینے کو منور کیا یہاں تک کہ آپ خواجہ غریب نواز کے منظور نظر ہوگئے۔اور اس کے بعد خواجہ صاحب نے خرقہ خلافت عطا کیا۔ اپنے مرشد کے حکم سے ناگور گئے جہاں بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ روحانیت میں اس قدر غرق تھے اور دنیا کے معاملات سے اس قدر بیزار تھے کہ خواجہ صاحب نے آپ کو سلطان التارکین اور صوفی کے ا لقاب عنایت فرمائے۔

*لقب سلطان التارکین:*
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ خواجہ غریب نواز نے بحالت خوشی حاضرین سے دریافت کیا کہ جو کچھ مانگناچاہتے ہو مانگو کیونکہ قبولیت کے دروازے کھلے ہوئے ہیںکسی نے دنیا اور کسی نے عقبیٰ کی درخواست کی ۔ صوفی حمیدالدین نے عرض کیا کہ بندے کی کوئی خواہش نہیں ہے جو کچھ چاہیں مولا تعالیٰ چاہیں۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے عرض کیا کہ بندے کو اختیار نہیں ہے جو حکم ہو آپ کو اختیار ہے۔ اس پر خواجہ غریب نواز نے فرمایا ”التارک من الدنیا والفارغ عن العقبیٰ الواصل بالمولیٰ سلطان التارکین حمید الدین صوفی“ اس طرح اس دن سے آپ کا لقب سلطان التارکین ہوگیا۔

*کرامات:*
آپ کی کرامات سے متعلق ایک اور واقعہ منقول ہے کہ ناگور میں ایک تاجر تھا جو ہر سال تل لے کر ملتان کی منڈی میں جاتا اور وہاں سے روٹی لے کر ناگور آتا تھا۔ وہ صوفی علیہ الرحمہ کے خطوط حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللّٰه کے نام سے لے جاتا اور ان کے جواب لا کر حضرت کو دیا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی نے کسی تاجر کے ساتھ دو باردان سونے چاندی سے پر کر کے آپ کی خدمت میں بھیجے اور اسے قبول کرنے کی درخواست بھی کی آپ نے اس تاجر سے فرمایا کہ یہ زروجواہر گیندانی تالاب کے میدان میں ڈال دو تاکہ غریبوںاور مسکینوں کے کام آجائے اور ہماری طرف سے اسی میدان کے سنگ ریزے بھر کر لے جاﺅ اور شیخ الاسلام کی خدمت میں تحفة ً پیش کردو۔ تاجر نے ایسا ہی کیا ۔ ملتان پہنچنے پر وہ سنگ ریزے ہیرے جواہرات بن گئے یہ دیکھ کر تاجر حیران رہ گیا۔

*روحانی ولایت:* ناگور شریف
خواجہ غریب نواز نے قطب صاحب کو دہلی اور آپ کو ناگور کی روحانی ولایت عطا کی، اسی وجہ سے آپ ناگوری کہلاتے ہیں۔ جب آپ ناگور تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر چالیس برس تھی۔
 آپ راجستھان کے شہر ناگور کے قریب واقع آج پھاگلی گاﺅں کے نام سے مشہور ایک جگہ پر جہاں ان کی کاشت کی ایک بیگہہ زمین تھی اسی سے متصل چھپر پوش کچی دیواروں کے ایک کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ نہایت غربت اور ناداری کی حالت میں زندگی گزاررہے تھے، جس سے متاثر ہو کر حاکم ناگور نے کچھ زمین اور کچھ نقدی حضرت صوفی صاحب کی خدمت میں پیش کی جس کو آپ نے چشتیہ روایت کے تحت فقیرانہ شان سے رد کردیا۔ اس کے بعد حاکم ناگور نے سلطان دہلی کو لکھ کر ایک گاﺅں اور پانچ سو چاندی کے ٹنکے صوفی صاحب کی خدمت میں نذر کے لئے منگوائے لیکن آپ نے اپنی اہلیہ بی بی خدیجہ سے جب مشورہ کیا تو انہوں نے بھی نذرانہ قبول کرنے منع فرمایا حالانکہ صوفی صاحب کا تہ بند پھٹ رہا تھا اور خود بی بی صاحبہ کر سر پر دوپٹہ نہیں تھا۔
اسی موقع پر بی بی خدیجہ نے صوفی صاحب کو بتلایا کہ اپنے دوپٹے اور آپ کی تہ بند کے لئے میں نے سوت کات کر رکھا ہوا ہے۔

*حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ کا اخلاق و کردار:*
حضرت صوفی علیہ الرحمہ کا اخلاقی وکردار اس وقت محبوب خلائق تھا یعنی آپ کے حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک آپ سے متاثر تھا اور آپ سے عقیدت ومحبت رکھتا تھا۔ صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ آپ جانوروں سے بھی بے حد نرمی، رحم دلی اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے ۔ آپ صلح پسند تھے اور باہمی امن وآشتی کا درس دیتے تھے۔ آپ اپنے وقت کے ایک عابد وزاہد اور تارک دنیا بزرگ تھے۔ مسلسل چالیس برس تک بے آب وگیاہ جنگلاتی سرزمین پر عبادت وریاضت میں مشغول رہے۔ اس قدر نفس کشی کی کہ ساری عمر میں صرف ایک من جو تناول فرمایا۔ اپنا کل اثاثہ اور کاشت کی زمین غرباء و مساکین میں تقسیم کرنے کے بعد صرف ایک بیگہہ زمین پر قانع تھے جس پر اپنے ہاتھ سے کاشت کرکے اہل وعیال کی کفالت کرتے تھے۔

*خشوع و خضوع عبادت:*
آپ عبادت وریاضت میں اس قدر منہمک ہوجاتے تھے کہ آپ کو دنیا کی کوئی کوئی خبرنہ ہوتی تھی چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ پیر نہر والی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کے استاذ مولانا شمس الدین حلوائی اور دیگر لوگ جو اجمیر سے ان کے پاس آئے تھے مسجد میں آگئے صوفی علیہ الرحمہ اسی طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے رہے اور انہیں مذکورہ حضرات کی آمد کی قطعاً خبر نہ ہوئی۔

*کثیر اللسانی، ذوق علم و آگہی:*
آپ اپنے وقت کے ایک عالی مرتبت اور بلند نظر کثیر اللسان عالم تھے انہیں عربی ،فارسی اور ہندی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد ذوق وشوق تھا ۔ قرآن پاک کی مختلف تفسیر یں اور مستند مشائخ کی تحریر کردہ حدیث کی بلند پایہ کتابیں آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی۔

*تصانیف:*
آپ خود بھی کئی معتبر اور مستند کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصوف وسلوک ،شریعت وطریقت تفسیر وحدیث فقہ اور علم الفرائض (میراث کے اسلامی قوانین) آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے۔ آپ کے حق آگاہ قلم کی چند نگارشات جنہیں آج بھی علماء و صوفیاء کے درمیان نہایت قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں
رسالہ اصول الطریقت ، رسالہ چہار منزل، رسالة السماع، رسالة العشق، رسالہ آیات القرآن، رسالہ سوال وجواب، رسالة السلوک ، فتاویٰ حمیدیہ ، ملفوظ شرف الانوار اور فارسی زبان میں دیوان حمید کے نام سے آپ کا شعری مجموعہ بھی تھا۔ 
مذکورہ کتابوں میں سے چند آج کل ناپید ہوچکی ہیں۔

*حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ کے مشہور خلفاء:*
حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری علیہ الرحمہ کے مشہور خلفاء جن میں شیخ عبداللہ، یاسین ترک، سید حیدر، نصیر الدین خوئی اور ابوبکر کہالیٰ رحمہم اللّٰه نہایت معروف ہیں ۔

*اولاد وامجاد:*
آپ کی اولاد میں دو صاحبزادے شیخ عزیز الدین اور حضرت مجیب الدین رحمۃ اللّٰہ علیہم تھے۔
حضرت شیخ عزیزالدین رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ کے خلیفۂ اعظم اور اپنے وقت کے ولی کامل تھے 
آپ کی ایک صاحب زادی بھی تھیں۔

*وصال:*
آپ 29 ربیع الآخر 673 ہجری بروز پیر واصل بحق ہوئے۔

*مزار پرانوار:*
آپ کی آخری آرام گاہ راجستھان کے شہر ناگور میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے