آہ! حضرت سید محمدافضل میاں قادری مارہروی طاب اللہ ثراہ
دل افسردہ ہے، آنکھیں نمناک ہیں ۔ تقریباً ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوا کہ سید افضل میاں صاحب کی طبیعت علیل ہوئی تھی، اس وقت میں مارہرہ شریف میں ہی تھا، مجھے وہ دن بہت اچھے سے یاد ہیں جب آپ کی صحت یابی کے لیے حضور رفیق ملت دام ظلہ کے حکم پر تمام طلبہ و اساتذہ جمعرات کے دن آخر کی تین گھنٹیوں میں ( جس میں بزم ہوتی تھی) برکاتی مسجد میں پہنچے، آیت کریمہ کا ورد ہوا اور پھر حضور رفیق ملت نے صحت یابی کی دعا فرمائی۔
آپ کی علالت نے نہ خانقاہ شریفہ اور جامعہ احسن البرکات کے در دیوار کو بھی سونا کردیا تھا ۔ حضور رفیق ملت دامت برکاتہ القدسیہ ( طلبہ؛. جن کو پدرانہ شفقت کی وجہ سے " ابا حضور" کہتے ہیں) کی افسردگی دیکھ کر سبھی افسردہ خاطر تھے
عرس حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کی وہ ساعت بھی خوب یاد ہے جب سید افضل میاں صاحب موبائل کال کے ذریعے اپنی دل نشین آواز میں کلام اعلیٰ حضرت سنا رہے تھے اور ساری محفل گلزار بنی ہوئی تھی.
حضور رفیق ملت سے جب بھی افضل میاں صاحب کی طبیعت کے متعلق دریافت کیا جاتا تو فرماتے کہ دعا کریں، دعا کی سخت ضرورت ہے ۔ اور یہ دعاؤں کی درخواست آج تک جاری رہی، بلکہ آج بھی حضرت نے طلبہ و اساتذہ کو کہا تھا کہ بعد نماز ظہر سورۂ انعام کی تلاوت کریں اور سید افضل میاں صاحب کے لیے دعا کریں
اتنی عظیم خانقاہ کے یہ چشم و چراغ، مزید یہ کہ تمام بھائی اعلیٰ عہدوں پہ فائز، ہر ایک کا ایک عظیم حلقہ ہے مگر اللہ نے آپس میں تمام بھائیوں میں بے پناہ محبت رکھی ہے ۔ ایک دل ایک جان ہوکر رہنا کوئی شاہزادگان سرکار احسن العلماء سے سیکھے ۔
یوں ہی شہزادۂ امین ملت، حضرت سید امان میاں صاحب بھی ہر جمعہ کو اپنے وہاٹس ایپ اسٹیٹس کے ذریعے دعا کی درخواست کرتے رہے، اخیر کے دنوں میں روزانہ ہی درخواست کرتے رہے ۔ اللہ یہ محبت سلامت رکھے
حضور رفیق ملت دام ظلہ کی صحبت بابرکت میں بیٹھنے والا جانتا ہے کہ آپ کی محفل مشائخ مارہرہ و بریلی بالخصوص حضور احسن العلما و حضور مفتی اعظم کے تذکروں سے آباد رہتی ہے، کبھی کبھار آپ کے برادران گرامی وقار کے تذکرے بھی چھڑ جاتے ہیں ۔
سید افضل میاں صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ کو اعلیٰ حضرت کی شاعری کا ذوق حضور احسن العلما سے ورثے میں ملا ہے، اعلیٰ حضرت کے بہت سارے کلام آپ کو مکمل یاد ہیں،
ایک بار فرمارہے تھے کہ افضل بھائی کو بخاری شریف کی بہت ساری حدیثیں زبانی یاد ہیں، ڈیوٹی سے فارغ اوقات میں بخاری شریف و دیگر کتب احادیث کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔
اللہ اللہ ۔ یقیناً یہ نور والے گھرانے میں ہی ممکن ہے کہ ایل ایل بی اور پھر آئی پی ایس بن کر مختلف جگہ اپنی خدمات انجام دینے کے ساتھ دین سے لگاؤ بھی خوب گہرا رہا اور کلام رضا سے عشق رسالت کا اظہار بھی کرتے رہے ۔
خوشا نصیب کہ شوال المکرم 1440ھ سے مارہرہ شریف میں رہ کر تدریسی خدمات کا موقع ملا، لیکن حرماں نصیبی کی ایک سال قیام کے دوران حضرت سید افضل میاں صاحب سے ملاقات کا شرف نہ حاصل ہوسکا ۔ اور ملاقات کی یہ حسرت ہمیشہ کے لیے ادھوری رہ گئی کہ اب....من جملہ خاصان مے خانہ انہیں یاد کرکے رو رہے ہیں ۔
آپ خاندان برکات کے چشم و چراغ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی صلاحیت و لیاقت کی بنیاد پہ مثل انجمن تھے، ایل ایل بی کیا، ایل ایل ایم اور پھر آئی پی ایس بنے ۔
ہندوستان کی دو عظیم یونیورسٹیوں (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) کے رجسٹرار رہے، مختلف اوقات میں ڈی آئی جی، ایس پی(گوالیار، راجگڑھ،. چھتر پور،) اے ایس پی (جبل پور بھوپال) اور مدھیہ پردیش پولیس میں اے ڈی جی کے عہدے پر فائز رہے ۔
ان منصبوں پہ رہتے ہوئے آپ نے مکمل ایمانداری و دیانت داری کے ساتھ قوم و ملک کی خدمات انجام دیں ، حضرت رفیق ملت فرماتے ہیں کہ بہت سارے ایسے پریشان حال لوگ اپنی پریشانی لے کر آئے اور آپ نے منٹوں میں ان کی پریشانی حل کردی ۔
جس وقت آپ گوالیار میں ایس پی تھے، ایک بزرگ شخص اپنی بیٹی کے ساتھ فریاد لے کر آئے کہ اس کو اس کے سسرال والوں نے تنگ کر رکھا ہے ۔ افضل بھائی نے تفصیل معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم ایٹہ ضلع سے آئے ہیں، اتنا سننا تھا کہ آپ نے کہا کہ پھر تو یہ میری بھی بیٹی ہے کیونکہ میرے ضلع کی ہے، فوراً ان کے ناشتہ وغیرہ کا انتظام کیا اور کہا کہ میں فی الحال کسی ضروری کام سے کہیں جارہا ہوں لیکن آپ بالکل فکر نہ کریں آپ کا مسئلہ سمجھیں حل ہوگیا ۔ اور پھر ان بزرگ اور بیٹی کو اپنے گھر پہ ہی ٹھہرایا اور واپس آکر ان دونوں کو ساتھ لیا اور اس لڑکی کے سسرال پہنچے اور کہا کہ یہ میری بیٹی ہے، آپ لوگ آج کے بعد اسے کسی طرح سے اسے پریشان نہ کریں گے ۔ اس طرح سے ایک عام شخص کی زندگی کو خوشحال بنایا اور دونوں خاندان میں الفت و محبت کی فضا قائم کی(مفہوماََ از کلام رفیق ملت ادام اللہ فیوضہ) ۔
اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو آپ کے اعلیٰ اخلاق اور مثال کردار کو بیان کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنوری 2019 ء میں بے داغ کیریئر اور مثالی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند کی طرف سے " صدر جمہوریہ ایوارڈ" پیش کیا گیا ۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے بارگاہ حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ کے چاروں صاحبزادگان سے بھی اپنی الفت و محبت کا اظہار کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
خوبصورت ، خوب سیرت ، وہ امینِ مجتبیٰ
اشرف و افضل ، نجیبِ زاہرہ ملتا نہیں
وہ امینِؔ اہل سنت رازدارِ مرتضٰی
اشرفؔ و افضلؔ ، نجیبِؔ باصفا ملتا نہیں
ایک دوسری منقبت میں یوں فرماتے ہیں :
استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا حسن
اشرف و افضل نجیب و عترتِ زہرا حسن
اللہ کہ بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا، حضرت سید افضل میاں کی بے حساب مغفرت فرما، انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما، تمام اہل خانہ،. متعلقین و متوسلین بالخصوص مرشد گرامی سیدی امین ملت و محسن و کرم فرما سیدی رفیق ملت اطال اللہ عمرہما کو صبر جمیل اور اجر جزیل عطا فرما ۔آمین
حضور تاج الشریعہ کے ان دعائیہ مصرعوں پہ بات ختم کرتا ہوں :
علم کا اس آستانے پر سدا پہرہ رہے
صورتِ خورشید تاباں میرا مارہرہ رہے
اخترِؔ خستہ ہے بلبل گلشنِ برکات کا
دیر تک مہکے ہر اک گل گلشنِ برکات کا
شریک غم
یکے از گدایان خاندان برکات
شاداب امجدی برکاتی
خادم التدريس : جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
29 /4/1442 ھ
16/12/2020 ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں