امام المحدثین حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللّٰه علیہ

 « مختصــر ســوانح حیــات » 
-----------------------------------------------------------
امام المحدثین حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* وصی احمد۔
*لقب:* شیخ المحدثین۔ علاقہ "سورت" کی نسبت سے سورتی کہلاتے ہیں۔
*سلسلۂ نسب اسطرح ہے:* مولانا وصی احمد محدث سورتی بن مولانا محمد طیب بن مولانا محمد طاہربن محمد قاسم بن محمد ابراہیم۔ (علیہم الرحمہ) آپ علیہ الرحمہ کا شجرۂ نسب صحابیِ رسول، حضرت سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اور آپ اپنے نام کے ساتھ حنفی اور حنیفی لکھا کرتے تھے۔

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1252ھ، مطابق 1836ء کو "راند یر" ضلع سورت، ہند وستان میں ہوئی۔

*تحصیل علم:* ابتدائی تعلیم اپنے والدِگرامی مولانا محمد طیب سورتی سے حاصل کی۔ مسجدِ فتح پور دہلی میں قیام کیا۔ اُس وقت مسجد فتح پور میں حضرت مفتی محمد مسعود محدث دہلوی درس و تدریس میں مصروف تھے۔ اُن کے ہی مشورے پر مدر سۂ حسین بخش میں داخلہ لیا اور علماء و فضلاء سے صرف و نحو، تفسیر و تراجم اور دیگر قرآنی علوم حاصل کیے اور ایک سال بعد 1279ھ میں" مدرسۂ فیض عام" کانپور میں داخلہ لیا اور تمام علوم میں فراغت حاصل کی۔طب کی تعلیم حکیم عبدالعزیز لکھنوی سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں یہ نابغہ ٔروزگار ہستیاں ہیں۔ 
حضرت مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھی، حضرت مولانا احمد حسن کانپوری، حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی، حضرت مولانا محمد علی مونگیری، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری۔ (علیہم الرحمہ)

*بیعت و خلافت:* اویسِ دوراں حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی علیہ الرحمۃ سے دوران تعلیم بیعت ہوئے اور تکمیلِ ریاضت کے بعد خلافت سرفراز ہوئے۔

*سیرت و خصائص:* امام المحدثین، استاذ المدرسین، جامع علومِ نقلیہ و عقلیہ، فقیہِ کامل، حامیِ سنتِ، دافعِ بدعت، محسنِ اہلِ سنت، محبِ اعلیٰ حضرت، وحید العصر، خادم الفقہِ والحدیث، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا شاہ وصی احمدمحدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ سراپا علم و حکمت تھے۔ تمام علوم پر مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ باالخصوص فنِ حدیث میں وحیدِ زمانہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ علم و فضل، تقویٰ وعمل میں اپنے اسلاف کی تصویر تھے۔ آپ نے انتہائی سادہ، نیک، باوضع، اور با اخلاق مزاج پایا تھا۔ لباس سادہ استعمال کرتے تھے اور معمولی غذا استعمال کرتے تھے۔ طلبہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔غریب طلبہ کی مالی اعانت فرماتے تھے۔ عام مسلمانوں سے ہمدردی سے پیش آتے تھے۔

 آپ کو غرور، تکبر، اور غیبت، بُرائی، سے شدید نفرت تھی۔تصوف سے خاص لگاؤ تھا، مگر خانقاہی زندگی اور ترک ِدنیا سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ آپ کا دل مسجد و مدرسہ میں زیادہ لگتا تھا۔ آپ سنت کی پابندی کو سب سے بڑی کرامت اور فقیری فرماتے تھے۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ زمانۂ طالبِ علمی میں مولانا وصی احمد پر خصوصی عنایت فرماتے اور دیگر طالب علموں سے کہتے کہ ان کی عزت کیا کرو یہ ہندوستان میں فرمانِ رسولِ مقبولﷺ کے محافظ قرار پائیں گے۔ مولانا وصی احمد جب حصن حصین کے درس سے فارغ ہوئے تو شاہ فضل رحمن نے آپ کو خلافت عطا کی اور فرمایا کہ علم کے اظہار میں کبھی بخل نہ کرنا اور حق بات چاہے اپنے اور دوسروں کے حق میں کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو عوام الناس کی فلاح کیلئے عام کرنا۔ 

*خدمتِ دین:* اللّٰه جل شانہ نے آپ کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ہر معاملہ میں علمی نکتے نکالنا اور ہر مسئلہ کو ایک خاص نقطۂ نظر سے پرکھنا آپ کا معمول تھا۔ مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ ایک ایک کتاب کو کئی کئی مرتبہ پڑھتے حتیٰ کہ وہ حفظ ہوجایا کرتی تھی۔ حدیث و فقہ کی اکثر کتب درسیہ آپ کو زبانی یاد تھیں۔ محدثین کے سلسلے ازبر تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے پیلی بھیت میں"مدرسۃ الحدیث" کی بنیاد رکھی۔ اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے اس وقت کی عظیم شخصیت مجدد اسلام حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کیا گیا۔ علمائے ہندوستان کی موجودگی میں امام اہلسنت نے فنِ حدیث پر تین گھنٹے بیان فرمایا۔ جس پر علماءِ کرام عش عش کر اٹھے۔حضرت محدث سورتی ہروقت درس وتدریس، تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ علوم و فنون کے علاوہ آپ نے مستقل چالیس برس حدیث شریف کا درس دیا۔ آپ کےدرسِ حدیث کی دور دور تک شہرت تھی۔دہلی، سہارنپور، کانپور، رامپور، جون پور، علی گڑھ، بنگال، اور لاہور سے تحصیل ِعلوم کی غرض سے طلبہ آپ کے درس حدیث میں شرکت کےلیے پہنچتے تھے۔ نماز فجر کے بعد سے ظہر تک اور ظہر سے آدھی رات تک اور کبھی اس سےبھی زیادہ وقت تک درس جاری رہتا تھا، ہر وقت آپ با وضو رہتے تھے۔ عشقِ رسول کریم ﷺ کا یہ حال تھا کہ درس میں حضورﷺ کا نام نامی ادا کرنے کے بعد قدرے توقف فرماتے تھے، اور آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے تھے۔ درسِ حدیث میں مولانا احمد علی محدث سہارنپوری آپ کواپنا جانشین کہتےتھے۔

*اصلاح عقائد کی جد و جہد:* تیرہویں صدی کے اواخر اور چودھویں صدی کے شروع میں محکوم ہندوستان میں زندگی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑ رہی تھی۔ طمع اور لالچ نے وہ جال پھیلا یا تھا کہ ہرشخص اپنے پیر چادر سے باہر دیکھنے کا آرزومند تھا۔ نت نئے مسائل اور جدّت طبع کی فراوانی تھی۔ خصوصاً مسلمانوں میں حمیت دینی روزبہ زوال اور نفس پرستی عام ہور ہی تھی۔ ایسی فضا میں کسی عالم کا روشِ دنیا سے علیحدہ رہنا اور اپنے حالات پرقناعت اختیار کرنا کرامت سے کم نہ تھا۔ پورے ہندوستان میں مغربی افکار کو فروغ دیا جارہا تھا اور کتاب و سنت کو مسجدوں اور حجروں تک محدود کرنے کی سامراجی سازش اپنے ہی دینی بھائیوں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی تھی اس سازش کے پیر جمانے میں مصلحت کوش علماء ، بے دین دانشور اور جاہل عوام سب ہی یکساں مصروف تھے۔ اعمالِ شریعت اور اوصافِ طریقت پر شرک و بدعت کا لیبل لگا کر سنت ِاسلاف پر عمل کرنے والوں کو کافر و بدعتی ٹھہرایا جا رہا تھا۔ مصلحت کا یہ حصار کچھ اس قدر وسیع تھا کہ اس میں خود بہت سے نام نہاد صاحب شریعت و طریقت گرفتار تھے۔

سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی اس کوشش میں بعض نا عاقبت اندیش علماء تو اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی ادائیگی کو بھی حاضر و غائب کی شرط لگا کر محدود کر دینا چاہا۔ اظہارِ عقیدت کے ذرائع مسدودکر دینے کی ہاں تک جسارت کی گئی کہ اساتذہ کی دست بوسی بھی خلافِ شریعت قرار پائی۔ غیر فطری سوالات اور مسائل اٹھائے گئے ۔ نماز میں رسولِ مقبول ﷺ کا خیال آنا جائز ہے یا ناجائز، رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا یا نہیں۔ بعد از نماز پیش امام سے مصافحہ کرنا مکروہ ہے یا مسنون، بعد از تلاوت قرآن حکیم کو بوسہ دینا حرام ہے یا حلال، غرض کہ مسلمانوں کے سامنے مذہب کو نہایت تنگ و تلخ بنا کر پیش کیا گیا تاکہ مسلمان اکتاہٹ کا شکار ہو کاس روحانی قوت سے کٹ جائیں جو تیرہ سو سال سے ان کی سرخروئی اور افضلیت کا باعث بنی ہوئی تھی۔

چنانچہ مولانا وصی احمد محدث سورتی نے اس فتنہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے علمی کاوشوں کا جال بچھا دیا اور ہر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لا کر عوام الناس کو اصول مذہب سے روشناس کرایا۔ سامراجی حکمرانوں کی سر پرستی میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا مفصل جواب دیا اور ان تمام عقائد باطلہ کا رد فرمایا جو اختلافِ امت اور ترکِ مذہب کا باعث بن رہے تھے۔ مولانا وصی احمد محدث سورتی نے جو درس حدیث کے ساتھ تصنیف و تالیف کی جانب بھی مکمل توجہ دے رہے تھے اصول حدیث اور مسائل فقہ کو عام کرنے اور عوام الناس کو صحیح العقیدہ بنانے کیلئے متعدد مذہبی کتابوں پر حواشی لکھے، اور مختلف مسائل پر فتاویٰ رسائل کی صورت میں شائع کرائے۔ اور کذب و اختراع کی دیوار پر برابر کاری ضربیں لگاتے رہے۔

*وصال:* آپ کا وصال 8/جمادی الاخریٰ 1334ھ ،مطابق 12/ اپریل 1916ء، بروز بدھ، بمقام پیلی بھیت میں ہوا۔ 
*تاریخ وفات:* اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے قرآن حکیم کی درج ذیل آیتِ کریمہ سے تاریخِ وفات نکالی۔ یطاف علیھم بانیۃ من فضہ واکواب ۔ 1334ھ

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہلسنت۔ تذکرہ محدث سورتی۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯امام المحدثین حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* وصی احمد۔
*لقب:* شیخ المحدثین۔ علاقہ "سورت" کی نسبت سے سورتی کہلاتے ہیں۔
*سلسلۂ نسب اسطرح ہے:* مولانا وصی احمد محدث سورتی بن مولانا محمد طیب بن مولانا محمد طاہربن محمد قاسم بن محمد ابراہیم۔ (علیہم الرحمہ) آپ علیہ الرحمہ کا شجرۂ نسب صحابیِ رسول، حضرت سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ اور آپ اپنے نام کے ساتھ حنفی اور حنیفی لکھا کرتے تھے۔

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1252ھ، مطابق 1836ء کو "راند یر" ضلع سورت، ہند وستان میں ہوئی۔

*تحصیل علم:* ابتدائی تعلیم اپنے والدِگرامی مولانا محمد طیب سورتی سے حاصل کی۔ مسجدِ فتح پور دہلی میں قیام کیا۔ اُس وقت مسجد فتح پور میں حضرت مفتی محمد مسعود محدث دہلوی درس و تدریس میں مصروف تھے۔ اُن کے ہی مشورے پر مدر سۂ حسین بخش میں داخلہ لیا اور علماء و فضلاء سے صرف و نحو، تفسیر و تراجم اور دیگر قرآنی علوم حاصل کیے اور ایک سال بعد 1279ھ میں" مدرسۂ فیض عام" کانپور میں داخلہ لیا اور تمام علوم میں فراغت حاصل کی۔طب کی تعلیم حکیم عبدالعزیز لکھنوی سے حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں یہ نابغہ ٔروزگار ہستیاں ہیں۔ 
حضرت مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھی، حضرت مولانا احمد حسن کانپوری، حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی، حضرت مولانا محمد علی مونگیری، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری۔ (علیہم الرحمہ)

*بیعت و خلافت:* اویسِ دوراں حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی علیہ الرحمۃ سے دوران تعلیم بیعت ہوئے اور تکمیلِ ریاضت کے بعد خلافت سرفراز ہوئے۔

*سیرت و خصائص:* امام المحدثین، استاذ المدرسین، جامع علومِ نقلیہ و عقلیہ، فقیہِ کامل، حامیِ سنتِ، دافعِ بدعت، محسنِ اہلِ سنت، محبِ اعلیٰ حضرت، وحید العصر، خادم الفقہِ والحدیث، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا شاہ وصی احمدمحدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ سراپا علم و حکمت تھے۔ تمام علوم پر مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ باالخصوص فنِ حدیث میں وحیدِ زمانہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ علم و فضل، تقویٰ وعمل میں اپنے اسلاف کی تصویر تھے۔ آپ نے انتہائی سادہ، نیک، باوضع، اور با اخلاق مزاج پایا تھا۔ لباس سادہ استعمال کرتے تھے اور معمولی غذا استعمال کرتے تھے۔ طلبہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔غریب طلبہ کی مالی اعانت فرماتے تھے۔ عام مسلمانوں سے ہمدردی سے پیش آتے تھے۔

 آپ کو غرور، تکبر، اور غیبت، بُرائی، سے شدید نفرت تھی۔تصوف سے خاص لگاؤ تھا، مگر خانقاہی زندگی اور ترک ِدنیا سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ آپ کا دل مسجد و مدرسہ میں زیادہ لگتا تھا۔ آپ سنت کی پابندی کو سب سے بڑی کرامت اور فقیری فرماتے تھے۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ زمانۂ طالبِ علمی میں مولانا وصی احمد پر خصوصی عنایت فرماتے اور دیگر طالب علموں سے کہتے کہ ان کی عزت کیا کرو یہ ہندوستان میں فرمانِ رسولِ مقبولﷺ کے محافظ قرار پائیں گے۔ مولانا وصی احمد جب حصن حصین کے درس سے فارغ ہوئے تو شاہ فضل رحمن نے آپ کو خلافت عطا کی اور فرمایا کہ علم کے اظہار میں کبھی بخل نہ کرنا اور حق بات چاہے اپنے اور دوسروں کے حق میں کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو عوام الناس کی فلاح کیلئے عام کرنا۔ 

*خدمتِ دین:* اللّٰه جل شانہ نے آپ کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ہر معاملہ میں علمی نکتے نکالنا اور ہر مسئلہ کو ایک خاص نقطۂ نظر سے پرکھنا آپ کا معمول تھا۔ مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ ایک ایک کتاب کو کئی کئی مرتبہ پڑھتے حتیٰ کہ وہ حفظ ہوجایا کرتی تھی۔ حدیث و فقہ کی اکثر کتب درسیہ آپ کو زبانی یاد تھیں۔ محدثین کے سلسلے ازبر تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے پیلی بھیت میں"مدرسۃ الحدیث" کی بنیاد رکھی۔ اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے اس وقت کی عظیم شخصیت مجدد اسلام حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کیا گیا۔ علمائے ہندوستان کی موجودگی میں امام اہلسنت نے فنِ حدیث پر تین گھنٹے بیان فرمایا۔ جس پر علماءِ کرام عش عش کر اٹھے۔حضرت محدث سورتی ہروقت درس وتدریس، تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ علوم و فنون کے علاوہ آپ نے مستقل چالیس برس حدیث شریف کا درس دیا۔ آپ کےدرسِ حدیث کی دور دور تک شہرت تھی۔دہلی، سہارنپور، کانپور، رامپور، جون پور، علی گڑھ، بنگال، اور لاہور سے تحصیل ِعلوم کی غرض سے طلبہ آپ کے درس حدیث میں شرکت کےلیے پہنچتے تھے۔ نماز فجر کے بعد سے ظہر تک اور ظہر سے آدھی رات تک اور کبھی اس سےبھی زیادہ وقت تک درس جاری رہتا تھا، ہر وقت آپ با وضو رہتے تھے۔ عشقِ رسول کریم ﷺ کا یہ حال تھا کہ درس میں حضورﷺ کا نام نامی ادا کرنے کے بعد قدرے توقف فرماتے تھے، اور آنکھوں سے اشک رواں ہوجاتے تھے۔ درسِ حدیث میں مولانا احمد علی محدث سہارنپوری آپ کواپنا جانشین کہتےتھے۔

*اصلاح عقائد کی جد و جہد:* تیرہویں صدی کے اواخر اور چودھویں صدی کے شروع میں محکوم ہندوستان میں زندگی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑ رہی تھی۔ طمع اور لالچ نے وہ جال پھیلا یا تھا کہ ہرشخص اپنے پیر چادر سے باہر دیکھنے کا آرزومند تھا۔ نت نئے مسائل اور جدّت طبع کی فراوانی تھی۔ خصوصاً مسلمانوں میں حمیت دینی روزبہ زوال اور نفس پرستی عام ہور ہی تھی۔ ایسی فضا میں کسی عالم کا روشِ دنیا سے علیحدہ رہنا اور اپنے حالات پرقناعت اختیار کرنا کرامت سے کم نہ تھا۔ پورے ہندوستان میں مغربی افکار کو فروغ دیا جارہا تھا اور کتاب و سنت کو مسجدوں اور حجروں تک محدود کرنے کی سامراجی سازش اپنے ہی دینی بھائیوں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی تھی اس سازش کے پیر جمانے میں مصلحت کوش علماء ، بے دین دانشور اور جاہل عوام سب ہی یکساں مصروف تھے۔ اعمالِ شریعت اور اوصافِ طریقت پر شرک و بدعت کا لیبل لگا کر سنت ِاسلاف پر عمل کرنے والوں کو کافر و بدعتی ٹھہرایا جا رہا تھا۔ مصلحت کا یہ حصار کچھ اس قدر وسیع تھا کہ اس میں خود بہت سے نام نہاد صاحب شریعت و طریقت گرفتار تھے۔

سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی اس کوشش میں بعض نا عاقبت اندیش علماء تو اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی ادائیگی کو بھی حاضر و غائب کی شرط لگا کر محدود کر دینا چاہا۔ اظہارِ عقیدت کے ذرائع مسدودکر دینے کی ہاں تک جسارت کی گئی کہ اساتذہ کی دست بوسی بھی خلافِ شریعت قرار پائی۔ غیر فطری سوالات اور مسائل اٹھائے گئے ۔ نماز میں رسولِ مقبول ﷺ کا خیال آنا جائز ہے یا ناجائز، رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا یا نہیں۔ بعد از نماز پیش امام سے مصافحہ کرنا مکروہ ہے یا مسنون، بعد از تلاوت قرآن حکیم کو بوسہ دینا حرام ہے یا حلال، غرض کہ مسلمانوں کے سامنے مذہب کو نہایت تنگ و تلخ بنا کر پیش کیا گیا تاکہ مسلمان اکتاہٹ کا شکار ہو کاس روحانی قوت سے کٹ جائیں جو تیرہ سو سال سے ان کی سرخروئی اور افضلیت کا باعث بنی ہوئی تھی۔

چنانچہ مولانا وصی احمد محدث سورتی نے اس فتنہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے علمی کاوشوں کا جال بچھا دیا اور ہر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لا کر عوام الناس کو اصول مذہب سے روشناس کرایا۔ سامراجی حکمرانوں کی سر پرستی میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا مفصل جواب دیا اور ان تمام عقائد باطلہ کا رد فرمایا جو اختلافِ امت اور ترکِ مذہب کا باعث بن رہے تھے۔ مولانا وصی احمد محدث سورتی نے جو درس حدیث کے ساتھ تصنیف و تالیف کی جانب بھی مکمل توجہ دے رہے تھے اصول حدیث اور مسائل فقہ کو عام کرنے اور عوام الناس کو صحیح العقیدہ بنانے کیلئے متعدد مذہبی کتابوں پر حواشی لکھے، اور مختلف مسائل پر فتاویٰ رسائل کی صورت میں شائع کرائے۔ اور کذب و اختراع کی دیوار پر برابر کاری ضربیں لگاتے رہے۔

*وصال:* آپ کا وصال 8/جمادی الاخریٰ 1334ھ ،مطابق 12/ اپریل 1916ء، بروز بدھ، بمقام پیلی بھیت میں ہوا۔ 
*تاریخ وفات:* اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے قرآن حکیم کی درج ذیل آیتِ کریمہ سے تاریخِ وفات نکالی۔ یطاف علیھم بانیۃ من فضہ واکواب ۔ 1334ھ

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہلسنت۔ تذکرہ محدث سورتی۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے