خاموش تقریر ‏

 خاموش تقریر 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 سامعین و حاضرین تک اپنا مافی الضمیر پہنچانے کے لئے عموماً زبان کا ہی استعمال کیا جاتا ہے جسے ہمارے ہاں تقریر و بیان کا نام دیا جاتا ہے، اپنے منہ سے کچھ بول کر سامعین  تک اپنی بات پہنچانے کا عمل قدیم زمانے سے آج تک نہایت ہی مؤثر  اور کارگر ہے، خواہ کوئی حق پر ہویا باطل پر ، عموماً ہر ایک اپنا نظریہ، مؤقف دوسرے تک پہنچانے کے لئے زبان کا استعمال کرتا ہے اور دین اسلام میں تو وعظ و بیان کو خاص اہمیت  حاصل ہے کہ  اسلام کی اولاً تبلیغ  ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زبان پر کلمہ حق ادا کرنے سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین  کلام اور بہترین انداز بیان عطا فرمایا، تقریر و بیان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "انَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا "یعنی بے شک بعض بیان جادُو ہوتے ہیں۔
*(صحیح بخاری: ج7، ص19، حدیث نمبر 5146، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )*

یہ تو ایک عمومی بات ہے کہ تقریر و بیان، زبان کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے مخلص  بندے ہوتے ہیں کہ ان کی گفتگو تو وعظ و بیان کہلاتی ہی ہے، لیکن ان کی خاموشی کو بھی اللہ تعالیٰ وعظ بنا دیتا ہے کہ ان کی خاموشی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے جو غافل دلوں کو بیدار کر دیتی ہے اور قلوب و اذہان میں ایمان کی شمع روشن کرنے میں وہ کردار ادا کر جاتی ہے، جو  حکمت و دانائی سے لبریز کلام بھی نہیں کر پاتا جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مولانا یار محمد صاحب بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں  لکھتے ہیں کہ: 
ایک بار مولانا یار محمد صاحب بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا کہ آج ہم نے چپ کا وعظ کرناہے یہ کہہ کر خاموش ہوگئے،دس منٹ کے بعد لوگوں میں جوش پھیل گیا، بعض لوگوں کو غشی بے ہوشی طاری ہوگئی، اگر زیادہ دیر یہ سلسلہ جاری رہتا تو خطرہ تھا کہ بعض لوگوں کی موت واقع ہوجائے یہ ہے خاموشی والی عبادت، بعض بزرگ مراقبہ میں فیض دیدیتے ہیں۔ 
*(مراٰۃ المناجیح: ج7، ص146، نعیمی کتب خانہ گجرات)*

لیکن یاد رکھئے اللہ تعالیٰ اُن نیک بندوں کی خاموشی کو وعظ و نصیحت  بناتا ہے جن کے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اور دکھلاوے سے پاک ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ  اپنی خواہش و ارادے کو اللہ تعالیٰ کا اطاعت و فرمانبرداری پر قربان کر دیتے ہیں جیسا کہ مہاجر بن حبیب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: 
میں حکمت والے کا ہر کلام قبول نہیں کرتا ،لیکن میں اس کا ارادہ اس کی خواہش قبول کرتا ہوں تو اگر اس کا ارادہ اور اس کی خواہش میری فرمانبرداری میں ہو تو اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد اور وقار بنا دیتا ہوں اگرچہ کچھ نہ بولے۔
*(سنن دارمی: ج1، ص316، حدیث نمبر258، مطبوعہ دار المغنی )*

اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پر قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
تحریر✍️ ابوقبیس محمد اویس مدنی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے