مسجد کے چندے سے کچھ رقم بطور قرض امام یا مؤذن کو دینا کیسا؟

 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
---------------------------------------------------
مسجد کے چندے سے کچھ رقم بطور قرض امام یا مؤذن کو دینا کیسا؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*سوال:*
کیا کوئی مسجد کی انتظامیہ امام یا موذن کو مسجد کے چندے میں سے بطورِ قرض یا ایڈوانس اس صورت میں دے سکتی ہے کہ مثلاً پچاس ہزار (50000) روپے دے اور یہ طے کرے کہ ہر ماہ وظیفہ (تنخواہ) میں سے پانچ ہزار (5000) روپے کی کٹوتی ہوگی، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ 
بینوا توجروا 
*سائل : حاجی اسرارالحق صدر مسجد انتظامیہ کمیٹی لاہور*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
عمومی طور پر کسی کو بھی مسجد کے چندے میں سے قرض دینا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اَحمد رَضا خان رَحْمَۃُ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مُتَوَلّی کو روا (یعنی جائز) نہیں کہ مالِ وقف کسی کو قرض دے یا بطورِ قرض اپنے تَصرُّف میں لائے۔
*(فتاوٰی رضویہ ج 16 صفحہ 574 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
لیکن اگر امام اور مؤذن بااعتماد ہوں اور کبھی ان کی خیانت ظاہر نہ ہوئی ہو اور ان کی ظاہری حالت بھی یہی بتاتی ہو کہ وہ اتنا عرصہ مسجد میں رہیں گے کہ ان کی تنخواہ میں سے کٹوتی کرکے قرض کی رقم ان سے وصول ہو جائے گا تو کسی بڑے سنی عالم یا مفتی صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد اور جہاں بڑے عالم اور مفتی صاحب میسر نہ ہوں تو مسجد کی کمیٹی آپس میں مشورہ کرنے کے بعد قرض کا اسٹام پیپر بنا کر گواہوں اور قرض لینے والے کے دستخط کروا کے انہیں قرض دے سکتی ہے اسلیے کہ اس طرح امام یا مؤذن کو قرض دینے میں مسجد کے مال کی حفاظت بھی ہے، اور چندہ دینے والوں کی طرف سے ان حضرات کو قرض دینے کی عموماً اجازت بھی ہوتی ہے جیسے مسجد اور مدرسہ وغیرہ کے عموماً اپنے بینک اکاؤنٹ بنے ہوتے ہیں جن میں ان کی رقم رکھنے پر مسلمانوں کا عرف ہے حالانکہ بینک اکاؤنٹ میں رقم بھی قرض کی حیثیت سے رکھی جاتی ہے تو جس طرح یہ جائز ہے اسی طرح وہ (یعنی امام اور مؤذن کو قرض دینا) بھی جائز ہے۔
اور امام و مؤذن کو مسجد کے مال سے قرض دینے کے عرف پر دلیل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مساجد کے امام یا مؤذن وغیرہ قرض مانگیں تو گنجائش ہونے کی صورت میں مخصوص شرائط کے ساتھ انہیں قرض دے دیا جاتا ہے اور پھر یا تو وہ واپس کر دیتے ہیں یا پھر ان کی تنخواہوں سے کاٹ لیا جاتا ہے، بہرحال امام یا مؤذن وغیرہ کو اس طرح قرض دینا ایڈوانس (یعنی پیشگی) تنخواہ دینے کی طرح ہے اور جہاں ایڈوانس (پیشگی) تنخواہ دینے پر عرف ہو وہاں پر دینا جائز ہے۔
لہذا کمیٹی کا مذکورہ طریقہ کار کے مطابق امام یا مؤذن کو مسجد کے چندے میں سے قرض دینا بالکل جائز ہے۔
چنانچہ علامہ ابن نجیم رحمۃ الله علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ذکر ان القیم لو اقرض مال المسجد لیاخذہ عند الحاجۃ، وھو احرز من امساکہ فلاباس، و فی (العدۃ) یسع المتولی اقراض ما فضل من غلۃ الوقف لو احرز"*
یعنی *"جامع الفصولین"* میں ذکر فرمایا :
کہ متولی اگر اس وجہ سے مسجد کا مال قرض دے کہ حاجت کے وقت اس سے لے لیگا، اور وہ اس کے پاس روکنے (رکھنے) کے مقابلے میں مسجد کے مال کی زیادہ حفاظت کرے گا تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اور *"العدۃ"* میں ہے کہ متولی کے لئے گنجائش (اجازت) ہے کہ وقف کے غلہ (ضروری اخراجات) سے جو بچے، اس کو قرض دیدے اگر وہ زیادہ حفاظت کر سکے۔
*(البحرالرائق، کتاب الوقف، جلد 5 صفحہ 259 بیروت)*
مجمع الضمانات میں ہے :
*"ليس للمتولي إيداع مال الوقف و المسجد إلا ممن في عياله، و لا إقراضه فلو أقرضه ضمن، و كذا المستقرض، ذکر ان القیم لو اقرض مال المسجد لیاخذہ عند الحاجۃ، وھو احرز من امساکہ فلاباس، و فی (العدۃ) یسع المتولی اقراض ما فضل من غلۃ الوقف لو احرز"*
یعنی یعنی *"جامع الفصولین"* میں فرمایا : متولی کو جائز نہیں کہ اپنے عیال کے سوا کسی اور کے پاس، وقف اور مسجد کے مال کو امانت کے طور پر رکھے، اور نہ اس کا قرض دینا جائز ہے، پس اگر اس (وقف یا مسجد کے مال کو) کو قرض دے گا تو تاوان دے گا، اور ایسے ہی قرض لینے والا ہے (کہ اس کے لئے بھی مالِ وقف اور مسجد کے مال سے قرض لینا جائز نہیں ہے.)
اور (یہ بھی اس کتاب میں) ذکر فرمایا کہ :
متولی اگر اس وجہ سے مسجد کا مال قرض دے کہ حاجت کے وقت اس سے لے لیگا اور وہ اس کے پاس روکنے (رکھنے) کے مقابلے میں مسجد کے مال کی زیادہ حفاظت کرے گا تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اور *"العدۃ"* میں ہے کہ متولی کے لئے گنجائش (اجازت) ہے کہ وقف کے ضروری اخراجات سے جو بچے، اس کو قرض دیدے اگر وہ زیادہ حفاظت کرسکے۔
*(مجمع الضمانات، باب فی الوقف، جلد 1 صفحہ 333 دارالکتاب الاسلامی)*
العقود الدریہ میں ہے :
*"قال فی جامع الفصولین : ليس للمتولي إيداع مال الوقف و المسجد إلا ممن في عياله، و لا إقراضه فلو أقرضه ضمن، و كذا المستقرض، ذکر ان القیم لو اقرض مال المسجد لیاخذہ عند الحاجۃ، وھو احرز من امساکہ فلاباس، و فی (العدۃ) یسع المتولی اقراض ما فضل من غلۃ الوقف لو احرز"*
یعنی *"جامع الفصولین"* میں فرمایا : متولی کو جائز نہیں کہ اپنے عیال کے سوا کسی اور کے پاس، وقف اور مسجد کے مال کو امانت کے طور پر رکھے، اور نہ اس کا قرض دینا جائز ہے، پس اگر اس (وقف یا مسجد کے مال کو) کو قرض دے گا تو تاوان دے گا، اور ایسے ہی قرض لینے والا ہے (کہ اس کے لئے بھی مالِ وقف اور مسجد کے مال سے قرض لینا جائز نہیں.)
اور (یہ بھی اس کتاب میں) ذکر فرمایا :
کہ متولی اگر اس وجہ سے مسجد کا مال قرض دے کہ حاجت کے وقت اس سے لے لیگا، اور وہ اس کے پاس روکنے (رکھنے) کے مقابلے میں مسجد کے مال کی زیادہ حفاظت کرے گا تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اور *"العدۃ"* میں ہے کہ متولی کے لئے گنجائش (اجازت) ہے کہ وقف کے ضروری اخراجات سے جو بچے، اس کو قرض دیدے اگر وہ زیادہ حفاظت کرسکے۔
*(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، کتاب الوقف، الباب الثالث، جلد 1 صفحہ 229 دارالمعرفہ)*
اور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :
مدرسینِ وقف کو دو، چار، چھ ماہ کی پیشگی تنخواہ دینا روا (جائز) یا ناروا (ناجائز ہے) ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
"روا (جائز) نہیں مگر جہاں اجازتِ واقف یا تعاملِ قدیم ہو *"لانہ یحمل علی المعھود من عند الواقف"* (کیونکہ یہ خود واقف کی طرف سے معہود پر محمول ہوگا۔)
*(فتاوی رضویہ جلد 16 صفحہ 569 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*کتبــــه✍️ ابواسید عبید رضا مدنی*
03068209672

*تصدیق و تصحیح :*
ماشاء اللہ، بارک اللہ آپ نے جو آج ارجنٹ اتنا تحقیقی فتویٰ تحریر کیا ہے امام و خطیب کو مسجد کے مال میں سے متولی اور انتظامیہ کی طرف سے قرضہ دینے کے تعلق سے، اس کے جواز پر جو آپ نے یہ فتویٰ لکھا ہے، انتہائی مفصل و مدلل ہے، بندہ ناچیز اس کی بھرپور تائید و توثیق کرتا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکتیں عطاء فرمائے۔
*ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود معطر القادری مرکزی دارالافتاء اہلسنت محلہ نور پورہ میانوالی سٹی*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے