بدعتی اوربد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

بدعتی اوربد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم 


فرقہ بجنوریہ کی جانب سے ایک فتویٰ وائرل ہوا ہے جس میں بدعتی وبدمذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔

 چوں کہ مسئلہ مشکل ہے،اس لیے لغزش ہو سکتی ہے۔


کافر کلامی کی اقتدا میں نماز کا حکم

جو مومن نہیں ہے،یعنی کلمہ خواں ہے،لیکن مرتد اور کافر کلامی ہے۔اس کی اقتدا میں نماز باطل محض ہے اور فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی،بلکہ فرض مقتدی کے ذمہ باقی رہے گا،گر چہ لاعلمی میں اس کی اقتدا میں نماز ادا کرلی ہو۔(فتاوی رضویہ جلد سوم۔ص 235.236-رضااکیڈمی ممبئ)

بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم:

بدعتی اور بدمذہب یعنی جو اہل سنت وجماعت سے خارج ہو, لیکن مذہب اسلام سے بالکل خارج نہ ہو، جیسے فرقہ تفضیلیہ۔ایسے بدعتی اور بدمذہب کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔اس کی اقتدا کرنے والاسخت  گنہگار ہے۔لیکن فرضیت اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔

بد مذہبوں میں جو کافر فقہی ہو،ان کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ ان کی اقتدا میں نماز فاسد ہے۔فرضیت کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ 

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”مبتدع کی بدعت اگر حد کفر کوپہنچی ہو،اگر چہ عند الفقہا یعنی منکر قطعیات ہو، گر چہ منکر ضروریات نہ ہو، توصحیح یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز باطل ہے:کما فی فتح القدیر ومفتاح السعادۃ والغیاثیۃ وغیرہا:کہ وہی احتیاط جو متکلمین کو اس کی تکفیر سے باز رکھے گی،اس کے پیچھے نماز کے فساد کا حکم دے گی:(فان الصلاۃ اذا صحت من وجوہ وفسدت من وجہ حکم بفسادہا):ورنہ مکروہ تحریمی“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد سوم:ص273-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں بتایا گیا کہ صحیح قول کے مطابق کافر فقہی کی اقتدا میں نماز بھی باطل ہے،جیسے کافر کلامی کی اقتدا میں نماز باطل ہے۔


شبہہ کا سبب کیا ہے؟

دراصل بعض اہل علم کو اس سبب سے شبہہ ہوجاتا ہے کہ بعض عبارتوں میں یہ ہے کہ بدعتی وبدمذہب کی اقتدا میں نماز اوران سے نکاح جائز ہے اوربعض عبارتوں میں ہے کہ ان کی اقتدا میں نماز جائز نہیں،ان سے نکاح جائز نہیں، پس شبہہ ہونے لگتا ہے کہ یہ متعارض اقوال ہیں۔ان میں کوئی راجح اور کوئی مر جوح ہوگا۔ جو راجح ہو، اس پر عمل ہوگا۔


حالاں کہ اس مسئلہ میں کوئی تعارض نہیں۔ اس مقام پر جواز کا دوسرا مفہوم ہے۔ اس مفہوم کی وضاحت امام احمد رضا قادری کے فتاویٰ سے کی جاتی ہے،کیوں کہ وہ امام معتمد ہیں،اور وہ فتاویٰ عوام الناس کے عمل کے واسطے مرقوم ہوئے۔شروحات ومطولات میں مختلف قسم کے علمی مباحث ہوتے ہیں،جو اہل علم اور محققین کے لیے مرقوم ہوتے ہیں۔


امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا: ”زمانہائے خلافت میں سلاطین خود امامت کرتے،اور حضورعالم ما کان ومایکون صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ ان میں فساق وفجار بھی ہوں گے کہ:(ستکون علیکم امراء یؤخرون الصلاۃ عن وقتہا)اور معلوم تھا کہ اہل صلاح کے قلوب ان کی اقتدا سے تنفر کریں گے،اور معلوم تھا کہ ان سے اختلاف، آتش فتنہ کو مشتعل کرنے والا ہوگا،اور دفع فتنہ،دفع اقتدائے فاسق سے اہم واعظم تھا۔

قال اللہ تعالیٰ:(والفتنۃ اکبر من القتل)

لہٰذا دروازۂ فتنہ بند کر نے کے لیے ارشاد ہوا:(صلواخلف کل بروفاجر)

یہ اس باب سے ہے:(من ابتلی ببلیتین اختار اہونہما)

اور فقہا کا قول:(تجوز الصلوۃ خلف کل بروفاجر) اسی معنی پر ہے جو اوپر گزرے کہ نماز فاسق کے پیچھے بھی ہوجاتی ہے،اگر چہ غیر معلن کے پیچھے مکروہ تنزیہی اور معلن کے پیچھے مکروہ تحریمی ہوگی“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم ص 207-206-رضا اکیڈمی ممبئ)

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:
”پنج گانہ میں ہرشخص صحیح الایمان،صحیح القرأۃ،صحیح الطہارۃ،مرد عاقل بالغ غیر معذور امامت کرسکتا ہے،یعنی اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی،اگر چہ بوجہ فسق وغیرہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو۔ تجوز الصلوٰۃ خلف کل بروفاجر کے یہی معنی ہیں“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم ص 205-رضا اکیڈمی ممبئ)

نماز جمعہ، وعید ین میں جماعت شرط ہے،کسوف یعنی سورج گہن کی نماز میں جماعت سنت ہے۔ ان نمازوں کی امامت ہر کوئی نہیں کرسکتا۔صرف درج ذیل تین قسم کے افراد ان نمازوں کی امامت کر سکتے ہیں۔

(۱)بادشاہ اسلام،یا اس کا مقررکردہ حاکم یا امام۔(۲)جہاں اسلامی حکومت نہ ہو، وہاں شہر کا بڑا عالم،یا اس کا مقررکردہ امام۔ (۳)جہاں کوئی عالم دین نہ ہوتو عام مسلمان جس کو امام مقرر کرلیں۔

اسلامی سلطنتوں میں اگر بادشاہ، یا اس کے حکام وامر اوائمہ فاسق ہوں،اور مومنین کسی مومن صالح قابل امامت کو مقرر کرلیں،ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں تو فتنہ برپا ہوگا۔

اسی فتنہ سے روکنے کے واسطے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے امرا وحکام کی اقتداکا حکم دیا ہے۔ یہ عام حکم نہیں ہے،بلکہ عذر کے وقت کا حکم ہے۔ جہاں عذ ر نہ ہو، وہاں یہ حکم بھی نہیں ہوگا۔معذورین اور عذرکے وقت کے احکام الگ ہوتے ہیں۔

کسی مومن کو قتل کرنے کے واسطے تلوار لے کر ایک مشرک کھڑاہے اور کہتا ہے کہ تم کہوکہ دوخدا ہے،ورنہ تم کو ہلاک کردیں گے۔ اس نے مجبوری کے عالم میں کہا کہ دو خدا ہے تووہ کافرنہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بلا عذر کہتا پھرے کہ دوخدا ہے۔بلا عذر کہے تو کافرہے۔

خواص اگر وقتیہ نمازوں کی جماعت میں نہ آئیں تو اس پر بھی امرا وحکام وسلاطین کی نظر جائے گی۔عوام میں سے چند لوگ شریک جماعت نہ ہوں تو ان کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے,لیکن کثیر تعداد غائب رہے تو شک ضرور ہو گا,پھر سلاطین وحکام کی طرف سے فتنہ اور ظلم وجبر ہو گا۔

الحاصل عوام میں سے بعض لوگ نماز پنج گانہ تنہا پڑھ سکتے ہیں، لیکن جن نمازوں میں جماعت شرط یا سنت ہے،ان میں کیا کرے؟ مجبوراً ویسے ہی لوگوں کی اقتدا میں نماز جمعہ وعیدین ونماز کسوف ادا کرنا ہو گا۔

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”جمعہ وعیدین وکسوف میں کوئی امامت نہیں کرسکتا، اگر چہ حافظ،قاری،متقی وغیرہ وغیرہ فضائل کا جامع ہو، مگر وہ جو بحکم شرع عام مسلمانوں کا خود امام ہوکہ بالعموم ان پر استحقاق امامت رکھتا ہو، یا ایسے امام کا ماذون ومقررکردہ ہو، اور یہ استحقاق علی التر تیب صرف تین طورپر ثابت ہوتا ہے۔

اول:وہ سلطان اسلام ہو۔ثانی:جہاں سلطنت اسلام نہیں،وہاں امامت عامہ اس شہر کے اعلم علمائے دین کو ہے۔ثالث:جہاں یہ بھی نہ ہو،وہاں بمجبوری،عام مسلمان جسے مقرر کرلیں۔

بغیر ان صورتوں کے جو شخص نہ خود ایسا امام ہے،نہ ایسے امام کا نائب وماذون ومقرر کردہ۔ اس کی امامت ان نمازوں میں اصلاً صحیح نہیں۔اگرامامت کرے گا،نماز باطل محض ہوگی۔جمعہ کا فرض سرپر رہ جائے گا“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم ص 205-رضا اکیڈمی ممبئ)



جواز کا معنی کیا ہے؟

فاسق معلن اور گمراہ وبد مذہب کی اقتدا میں نماز جائز بھی ہے اور مکروہ تحریمی واجب الاعادہ بھی۔ یہاں جواز کا معنی کیا ہے؟اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جواز کا ایک معنی صحت مع الاثم ہے کہ وہ کام صحیح ہوگا،لیکن گناہ ہوگا۔ایک معنی ہے حلت،یعنی حلال ہے،حرام یا گناہ نہیں۔جواز کے دیگر معانی بھی ہیں جوحاشیہ:فتاویٰ رضویہ (جلد11ص 386 - 388 - جامعہ نظامیہ لاہور)میں مرقوم ہیں۔

جواز کے دو معانی درج ذیل ہیں۔

 1-جب کہا جائے کہ بد مذہب وفاسق معلن کی اقتدا میں نماز جائز ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ نماز کی فرضیت ساقط ہوجائے گی،لیکن اس کی اقتدا کے سبب گناہ ہوگا،اورنماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔

2-جب کہا جائے کہ بدمذہب وفاسق معلن کی اقتدامیں نما ز جائز نہیں ہوگی تو اس کا مفہوم ہے کہ اقتد ا کے سبب گناہ ہوگا اورنماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی،گرچہ فرضیت ساقط ہوجائے۔

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”عرف فقہ میں جواز دومعنی پر مستعمل۔ایک بمعنی صحت اور عقود میں یہی زیادہ متعارف۔یہ عقد جائز ہے یعنی صحیح مثمرثمرات مثل افادہ ملک متعہ یا ملک یمین یا ملک منافع ہے،اگرچہ ممنوع وگناہ ہو،جیسے بیع وقت اذان جمعہ۔
دوسرے بمعنی حلت اور افعال میں یہی ز یادہ مروج۔یہ کام جائز ہے، یعنی حلال ہے، حرام نہیں،گناہ نہیں،ممانعت شرعیہ نہیں۔

بحرالرائق کتاب الطہارۃ،بیان میاہ میں ہے:(المشائخ تارۃ یطلقون الجواز بمعنی الحل-وتارۃ بمعنی الصحۃ-وھی لازمۃ للاول من غیر عکس- والغالب ارادۃ الاول فی الافعال والثانی فی العقود) 
مشائخ لفظ”جواز“کو کبھی حلال ہونے کے معنی میں اور کبھی صحیح ہونے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں،جب کہ صحیح ہو نا حلال ہونے کو لازم ہے،بغیر عکس کے۔غالب طورپر افعال میں حلال ہونے اور عقود میں صحیح ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(ت)

اسی طرح علامہ سید احمد مصری نے حاشیہ در میں نقل کیا اور مقرر رکھا،درمختار میں ہے:
(یجوز رفع الحدث بما ذکر-الخ)
(مذکورہ چیز کے ساتھ حدث کو ختم کرنا جائز ہے: الخ۔ت)

اسی پر ردالمحتار میں کہا:
(یجوز ای یصح وان لم یحل فی نحو الماء المغصوب وھو اولی من ارادۃ الحل وان کان الغالب ارادۃ الاول فی العقود و الثانی فی الافعال)

یجوز یعنی یصح،اگرچہ حلال نہ ہو،مثلا غصب شدہ پانی کے ساتھ،اور یہی معنٰی یہاں بہتر ہے بجائے کہ حلال و الا معنی مراد لیا جائے، اگرچہ صحیح غالب طورپر عقود میں اور حلال افعال میں استعمال ہوتا ہے۔(ت)


درمختار کتاب الاشربہ میں ہے:(صح بیع غیر الخمر مامر- و مفادہ صحۃ بیع الحشیشۃ والا فیون قلت وقد سئل ابن نجیم عن بیع الحشیشۃ ھل یجوز فکتب لایجوز فیحمل علی ان مرادہ  بعدم الجواز عدم الحل)

مذکورہ چیزوں میں سے غیر خمر کی بیع صحیح ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ حشیش اور افیون کی بیع صحیح ہے،میں کہتاہوں کہ ابن نجیم سے حشیش کی بیع کے متعلق پوچھاگیا کہ وہ جائز ہے تو انھوں نے جواب میں لکھا:لایجوز۔ان کا مقصد عدم جواز سے عدم حل ہے۔(ت)

بالجملہ جواز کے یہ دونوں اطلاق شائع وذائع ہیں اور ان کے سوا اور اطلاقات بھی ہیں جن کی تفصیل سے یہاں بحث نہیں۔


اب اس صورت خاصہ میں جواز بمعنی صحت ضرور ہے،یعنی نکاح کردیں تو ہوجائے گا اور حل بمعنی عدم حرمت وطی بھی حاصل،یعنی اس میں جماع زنا نہ ہوگا، وطی حرام نہ کہلائے گا۔

وذلک کقولہ عز وجل:(و احل لکم ما وراء ذلکم)مع ان فیھن من یکرہ نکاحھن تحریمًا کالکتابیۃ کما سیأتی فعلم ان الحل بھذا المعنی لا ینافی الاثم فی الاقدام علی فعل النکاح فافھم واحفظ کیلا تزل واللّٰہ الموفق۔

اوریہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد:تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں محرمات کے سوا۔حالاں کہ غیر محرمات میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جن سے نکاح مکروہ تحریمی ہے جیساکہ کتابیہ عورت کے بارے میں آئندہ بیان ہوگاتو معلوم ہوا کہ اس معنی میں حلال، نکاح کرنے کے اقدام پر گناہ کے منافی نہیں ہے،اس کو سمجھو،اور یاد رکھو، تاکہ غلط فہمی نہ ہو، اور توفیق اللہ تعالیٰ سے ہی ہے۔(ت)

عبارات درمختار وغیرہ:(تجوز منا کحۃ المعتزلۃ لانا لانکفر احدا من اھل القبلۃ وان وقع الزامالہم فی المباحث)

(معتزلہ سے نکاح جائز ہے۔ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے،اگرچہ بحث کے طورپر ان پر کفر کاالزام ثابت ہے۔ت)کے یہی معنی ہیں۔

پر ظاہر کہ نکاح عقد ہے،اور ابھی بحرالرائق وطحطاوی وردالمحتار سے گزرا کہ عقود میں غالب وشائع جواز بمعنی صحت ہے، مگروہ عدم جواز بمعنی ممانعت واثم کے منافی نہیں۔

فتح القدیر وغنیہ و بحرالرائق وغیرہا میں ہے:(یراد بعدم الجواز عدم الحل- ای عدم حل ان یفعل،وھولاینافی الصحۃ)
عدم جواز سے عدم حل مراد لیا جاتا ہے، یعنی اس کا کرنا حلال نہیں اور یہ صحیح کے منافی نہیں۔(ت)

رہا جواز فعل بمعنی عدم ممانعت شرعیہ، یعنی بد مذہبوں سے سنیہ عورت کا نکاح کردینا روا ومباح ہو جس میں کچھ گناہ ومخالفت احکام شرع نہ ہو،یہ ہر گز نہیں۔

ارشاد مشائخ کرام:(المناکحۃ بین اھل السنۃ واھل الاعتزال لاتجوز) کے یہی معنی ہیں، یعنی سنیوں اورمعتزلیوں میں مناکحت مباح نہیں“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد یازدہم:ص 385-389-جامعہ نظامیہ لاہور)
(فتاویٰ رضویہ:جلد پنجم:ص 264-263-نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

توضیح:مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ لفظ جواز کے متعدد معانی ہیں۔ بعض مقام پر جواز سے حلت مراد ہے کہ یہ فعل حلال ہے،اس میں کوئی گناہ نہیں۔

بعض جگہ جواز سے صحت مراد ہے کہ فعل صحیح ہوگا،لیکن گناہ ہوگا،کیوں کہ کوئی امر ایسا موجود ہے جو گناہ کا سبب ہے۔فاسق معلن وبدمذہب وبدعتی کی اہانت واجب ہے۔
امام بنا نا اس کی تعظیم کرنا اور حکم شرعی کی مخالفت کرنا ہے۔اس سبب سے گناہ ہوگا۔
حدیث نبوی میں بدمذہبوں کی اقتدا،ان کی نماز جنازہ،ان کی عیادت،ان کو سلام، ان کے ساتھ نشست وبرخاست،ان کے ساتھ خوردونوش وغیرہ سے منع کیا گیا ہے۔



کیا صالحین نماز دہراتے نہیں تھے؟

بہت سی احادیث صحیحہ میں ان امر ا وحکام کا ذکر ہے جونماز میں تاخیر کرنے والے تھے،پس حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دفع فتنہ کے لیے ان کی اقتدا میں نمازکا حکم فرمایا اور نماز کو وقت مستحب میں اداکرنے کی تاکیدفرمائی۔

 ان احادیث طیبہ میں صرف ان امرا وحکام کا ذکر ہے جو نماز میں تاخیر کرنے والے تھے۔ 

نماز کو اپنے وقت مستحب پر ادا کرنے کی تاکید وارد ہوئی،اور اس پر صالحین کا عمل تھا۔وہ وقت مستحب پر نماز کی ادائیگی کے بعد فتنہ کے خوف سے امراوحکام کی اقتدا میں بھی نماز ادا کرتے۔

جب وقت مستحب کا اس قدر لحا ظ کیا جاتا تھا تو جونماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو،اس نماز کوصالحین نہ دہرائیں،ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔

وہ احادیث نبویہ مرقومہ ذیل ہیں، جن میں وقت مستحب میں نما ز کی ادائیگی کا حکم ہے،پھر علمائے کرام کی تشریح منقول ہے جس میں صالحین کی دوبارنماز کا ذکر ہے،یعنی ایک نماز وقت مستحب میں ادا کرتے اور دوسری نماز امر ا وحکام کی اقتدا میں،تاکہ ان حضرات کو غیر حاضر دیکھ کر امرا وحکام فتنہ نہ برپاکریں۔

(۱)(عَن عَبدِ اللّٰہِ بنِ عَمرِوبنِ العَاصِ قَالَ:کُنَّا عِندَ رَسُولِ اللّٰہِِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:سَتَکُونُ اُمَرَاءُ بَعدِی یُوَئخِّرُونَ الصَّلٰوۃَ عَن وَقتِہَا- قُلتُ:یَا رَسُولَ اللّٰہِ!مَا یَصنَعُ مَن اَدرَکَہُم؟قَالَ صَلُّوا الصَّلٰوۃَ لِوَقتِہَا،فَاِذَا حَضَرتُمُ الصَّلٰوۃَ فَصَلُّوا)
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد20ص143-المعجم الاوسط للطبرانی جلد اول ص291)

(۲)(عَن اَبِی ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم:کَیفَ اَنتَ اِذَا کَانَت عَلَیکَ اُمَرَاءُ یُؤَخِّرُونَ الصَّلٰوۃَ عَن وَقتِہَا اَویُمِیتُونَ الصَّلٰوۃَ عَن وَقتِہَا؟ قَالَ قُلتُ:فَمَا تَامُرُنِی؟قَالَ:صَلِّ الصَّلٰوۃَ لِوَقتِہَا،فَاِن اَدرَکتَہَا مَعَہُم فَصَلِّ،فَاِنَّہَا لَکَ نَافِلۃٌ) (صحیح مسلم جلد اول: باب کراہیۃ تاخیرالصلوٰۃ)

(۳)(عَن اَبِی ذَرٍّ قَالَ:اِنَّ خَلِیلِی اَوصَانِی اَن اَسمَعَ وَاُطِیعَ وَاِن کَانَ عَبدًا مُجَدَّعَ الاَطرَافِ،وَاَن اُصَلِّیَ  الصَّلٰوۃَ لِوَقتِہَا،فَاِن اَدرَکتَ القَومَ وَقَد صَلُّوا کُنتَ قَد اَحرَزتَ صَلٰوتَکَ وَاِلاَّ کَانَت لَکَ نَافِلَۃً)
(صحیح مسلم جلد اول:باب کراہیۃ تاخیرالصلوٰۃ عن وقتہا) 


توضیح:مذکورہ بالا احادیث مقدسہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعد کے زمانوں میں بعض ایسے امرا وحکام ہوں گے جو نماز کو تاخیر سے اداکریں گے،پس مسلمانوں کوچاہئے کہ نماز کو اس کے مستحب وقت میں اپنے گھروں میں ادا کر لیں، اور اگرمسجد میں جماعت کی نمازمل جائے تواس میں شریک ہوجائیں۔ بعد والی نمازنفل ہوگی۔

منقولہ بالا احادیث طیبہ میں گمرہوں واہل بدعت کا ذکر نہیں ہے,بلکہ ان امرا وحکام کا ذکر ہے جو وقت پر نماز نہ اداکریں۔ مومنین کو حکم دیا گیاکہ وقت مستحب میں نماز ادا کرلیں اور بعد میں اگر جماعت میں شریک ہوں توجماعت کی نماز  نفل قرار پائے گی۔


 (۱)امام مناوی شافعی نے رقم فرمایا:(فقد صح ان الحجاج وامیرہ الولید کانوا یؤخرونہا عن وقتہا)(فیض القدیرشرح الجامع الصغیرجلد چہارم:ص132)

 ترجمہ:صحیح روایت ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی (م95ھ) اور اس کے امیرولید بن عبد الملک بن مروان(م 95ھ)وغیرہما نمازکو اس کے وقت سے مؤخرکرکے اداکرتے تھے۔

توضیح:کثرت مشاغل کے سبب یہ لوگ نمازکو وقت مستحب کے بعد اداکرتے تھے،لیکن ان لوگوں کایہ عذر عندالشرع قابل قبول نہ تھا۔نمازصحیح اور مستحب وقت پرہونی چاہئے تھی۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ بعض امرا وحکام وقت ختم ہوجانے کے بعد نماز ادا کرتے تھے،تب یہ نماز قضا ہوگی،ادا نہیں۔

(۲))سَیَکُونُ اُمَرَاءُ بِشَغَلِہِم اَشیَاء ٌیُوَئخِّرُونَ الصَّلٰوۃَ عَن وَقتِہَا فَاجعَلُوا صَلٰوتَکُم مَعَہُم تَطَوُّعًا) (الجامع الصغیرللسیوطی)

 ترجمہ:عنقریب کچھ ایسے امرا ہوں گے کہ ان کو کچھ چیزوں کے مشغول کردینے کی وجہ سے وہ نمازکواپنے وقت سے مؤخرکرکے اداکریں گے،پس تم ان کے ساتھ اپنی نماز نفل شمار کرو۔

 (۳)امام عبدالرؤف مناوی شافعی(952ھ-1031ھ)نے مذکورہ بالاحدیث کی شرح میں رقم فرمایا:(قال القاضی:امرہم بذلک حذرًا من ہیج الفتن واختلاف الکلمۃ وقال ابن حجر:یشبہ انہ اشار بذلک الٰی ما وقع فی اٰخرخلافۃ عثمان من ولایۃ بعض امراء الکوفۃ کالولید بن عقبۃ حیث کان یؤخرالصلٰوۃ اولا یقیمہا علٰی وجہہا فکان بعض الورعین یصلی وحدہ سرًّا ثم یصلی معہ خشیۃ وقوع الفتنۃ وفیہ علم من اعلام النبوۃ من الاخبار بالشئ قبل وقوعہ وقد وقع اشد من ذلک فی زمن الحجاج وغیرہ)
 (فیض القدیرجلد چہارم:ص131-دارالکتب العلمیہ بیروت)

 ترجمہ:قا ضی عیاض مالکی(476ھ-544ھ) نے فرمایاکہ حضوراقدس سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتنہ برپاہونے سے اوراختلا ف سے بچنے کے لیے اس (یعنی وقت پر گھروں میں نمازاداکرنے کے باوجود جماعت میں حاضر ہونے)کا حکم دیا۔
امام ابن حجر عسقلا نی شافعی (773ھ -852ھ)نے فرمایاکہ شاید اس کے ذریعہ حضوراقدس سول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا جوحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں کوفہ کے بعض امرا جیسے ولید بن عقبہ کے عہد ولایت میں واقع ہوا۔ اس طرح کہ وہ نماز میں تاخیر کرتے تھے،یا اس کوصحیح طریقے پر ادا نہیں کرتے تھے،پس بعض متقی حضرات چھپ کر تنہا نماز پڑھ لیتے،پھر فتنہ واقع ہونے کے خوف سے ولیدبن عقبہ کے ساتھ نماز پڑھ لیتے،اوراس میں نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،یعنی کسی چیزکے واقع ہونے سے پہلے اس کی خبر دینا، اورحجاج بن یوسف ثقفی(م95ھ) وغیرہ کے زمانے میں اس سے بھی شدید صورت حال پیش آئی۔ 

توضیح:اسلام کے قرون اولیٰ میں امرا وحکام نمازکی امامت کیا کرتے تھے،اوروہ تاخیر سے مسجدمیں آتے،اس لیے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ اپنی نماز وقت پر ادا کر لو، پھر جماعت کے ساتھ بھی نماز اداکرلو،تاکہ تمہاری غیرحاضری کی وجہ سے کسی طرح کا شک و شبہہ نہ پیداہوجائے،اورپابند شرع حضرات ایساہی کیا کرتے،تاکہ جماعت مسلمین میں فتنہ نہ پیدا ہو، اور اتحاد قائم رہے۔

حجاج بن یوسف وغیرہ کے زمانے میں یہ صورت حال مزید ابتر ہو گئی۔ یہ حضوراقدس سول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک غیبی خبر ہے۔


 مجموعات احادیث کے ابواب الفتن اورابواب اشراط الساعہ وغیرہ میں بے شمار احادیث طیبہ میں غیبی خبروں کا ذکر ہے۔ہمارے رسول حضوراقدس تاجدار کائنات علیہ الصلوٰۃوالسلام عالم ما کان وما یکون ہیں۔

طارق انورمصباحی

جاری کردہ:10:فروری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے