سیدنا صدیق اکبر کی شان صداقت و جانثاری

سیدنا صدیق اکبر کی شان صداقت و جانثاری
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️تحریر :محمد روشن رضا مصباحی ازہری 
خادم :رضوی دارالافتاء ،رام گڑھ 
رکن :مجلس علمائے جھارکھنڈ. 
 
خالق ارض و سما نے تخلیق کائنات کے بعد اس ارض گیتی پر لاتعداد افراد کو عدم سے وجود میں لایااور انھوں نے اپنی متعینہ مدت و میعاد گزار کر اس دار ناپائیدار سے دار سکون و قرار کی طرف کوچ کرگئے. مگر اسی دھرتی پر رب دوعالم نے ایک ایسی پاکیزہ جماعت بھی دنیا میں بھیجا اور ایک ایسا عظیم گروہ بھی لوگوں کے رشد و ہدایت کے لیے مبعوث کیا جسے دنیا صحابة الرسول کے نام سے جانتی ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اس ارض گیتی پر کوئی جماعت سب سے زیادہ لائق تعظیم و تکریم و توقیر ہے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے، جن کی افضلیت کی شہادت خود قرآن مقدس کی متعدد آیات دے رہی ہیں اور جن کی عظمت کی گواہی احادیث رسول دے رہی ہے.
ہم اہل سنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبری پر متمکن اغواث بھی ایک ادنی صحابی کے فضل و کمال کو تک نہیں پہونچ سکتے، کیوں کہ صحابی رسول کو نبی کی قربت کا جو شرف حاصل ہے دنیا کی کوئی دوسری فضیلت و عظمت اس کے مماثل و ہمسر نہیں ہوسکتے.
انہیں پاکیزہ نفوس میں ایک عظیم ذات ایسی بھی ہے جن کی زندگی کا ہر لمحہ رسول کی اطاعت و خدا کی عبادت میں گزرا ہے، یہ وہی شخصیت ہے جسے دنیا یار غار مصطفی، ثانی اثنين، رفیق شب ہجرت، خلیفہ أول، امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکر الصديق العتيق رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے جانتی ہے،
کون ابوبکر؟ وہی ابوبکر جنھوں نے سب سے پہلے رسالت مصطفی کی تصدیق فرمائی. وہ ابوبکر جنھوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اعلان فرمایا، وہ ابوبکر جنہوں نے اپنے مال و جان و اولاد سب کچھ قدم مصطفی پر قربان کردیا، عصمت رسالت کے تحفظ میں ایسی جانثاری کی اور اسلام کی نشو و نما میں آپ نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں جو رہتی دنیا تک تمام بنی نوع آدم کے لیے قابل رشک ہیں. 
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے وہ عظمت و شان عطا فرمائی کہ اس روے زمین پر انبیاء کرام کے بعد سب سے زیادہ افضل و اعلی و صاحب فضائل و خصائص کوئی ذات ہے تو وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ہے. کیوں کہ افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقيق، ابی بکر الصديق "جو ہر عوام و خواص کی زبان زد ہے وہ یونہی نہیں بلکہ خود سرور دو عالم، نور مجسم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعزاز عطا فرمایا ہے. چنانچہ سیدنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" فضائل الصحابہ "میں نقل کرتے ہیں." فقال لأبي الدرداء لما رآه يمشي أمامه فقال: «يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة؟ ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر»
(أخرجه أحمد في فضائل الصحابة، ج:١،ص:١٥٢.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی رسول سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو جناب سیدنا ابو بکر الصديق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا :اے ابوالدرداء! میرے پیارے صحابی! کیا تم ایسے شخص کے آگے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سب افضل و اعلی و بہتر ہے، اے ابو الدرداء! سنو اللہ نے میرے صدیق کو وہ رفعت و عظمت عطا فرمائی ہے کہ یہ سورج انبیاء و رسل کے بعد کسی ایسے شخص پر طلوع و غروب نہیں ہوا جو میرے ابوبکر سے بہتر ہو. تو اس روایت سے واضح ہوگیا کہ افضل البشر بعد الانبیاء کوئی ہے تو وہ سیدنا ابو بکر الصديق رضی اللہ عنہ کی ذات ہے.
 آپ کو صدیق کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس حوالے سے قرآن مقدس کی آیت کریمہ صاف بتا رہی ہے.
 " والذي جاء بالصدق وصدق به أولئك هم المتقون " أخرج البزار وابن عساكر أن عليا قال في تفسيرها : الذي جاء . بالحق هو محمد صلى الله عليه وسلم ، والذي صدق به أبو بكر . قال ابن عساكر : هكذا الرواية بالحق".
ابن عساکر نے بیان فرمایا کہ اس آیت میں" جاء بالصدق" سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے. اور" صدق به "سے امیرالمومنین ابی بکر الصديق رضی اللہ عنہ مراد ہیں. 
اور معرفة الصحابة و المستدرک للصحيحين کے اندر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت موجود ہے جس میں آپ کا لقب صدیق کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس، بیت المقدس سے ملاء اعلی، پھر سدرۃ المنتہی، اس کے بعد قاب و قوسین، دنی فتدلی کی منزل سے گزرتے ہوئے رب کے قرب خاص میں گئے اور اللہ سے لقاء و ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا، اور نماز کا تحفہ لے کر آئے تو وقت صبح جب لوگوں کو پتہ چلا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے قلیل حصہ میں اتنی طویل مسافت طے کرکے تشریف لائے ہیں تو سارے مشرکین مکہ نے ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، پھر وہ لوگ دوڑے دوڑے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ابوبکر اگر کوئی یہ کہے کہ میں رات کے مختصر سے حصہ میں مکہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمان بالا اور اس سے بھی آگے جا کر آیا ہوں تو کیا تم اس کی تصدیق کروگے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں! یہ ممکن ہی نہیں ہے.
جب کافروں نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے تو فوراً کہا: یہ کوئی اور نہیں تمھارے صاحب محمد اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ بھلا ماننے والی بات ہے؟ جب جناب عبداللہ بن قحافہ نے یہ سنا کہ میرے سرکار ایسا کہہ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا :قال : لئن كان قال ذلك لقد صدق.
اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو بالکل سچ کہہ رہے ہیں اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں . إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة" . اس لیے کہ میں اس سے زیادہ تعجب خیز باتیں یعنی روزانہ صبح و شام آسمان کی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں.
اگر میرے محبوب نے ایسا فرمایا ہے تو بالکل صحیح ہے، کیوں کہ میرے سرکار کی شان یہ ہے کہ.ع
تمہارے مُنہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
 فقط اشارے میں سب کی نجات ہوکے رہی 
کہا جو شب کو کہ دن ہے تو دن نکل آیا
کہا جو دن کو کہ شب ہے تو رات ہو کے رہی.
اور قرآن مقدس کے اندر اللہ عزوجل نے آپ کی شان میں متعدد آیتیں نازل فرمائیں.
جتنے بھی صحابہ کرام ہیں انہیں لوگوں نے صحابی کہا مگر تنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات ہے جنھیں اللہ نے صحابی کہا. وإذ قال لصاحبه لا تحزن".
سفر ہجرت کے دوران جب غار ثور میں پہونچے تو کفار مکہ بھی ان کو تلاش کرتے ہوئے غار کے مونہہ تک پہونچ گئے، لب غار ان کے قدم دیکھ کر آپ تھوڑا گھبراگئے. تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے اس رفیق سفر و یار غار کو تسلی دی اور فرمایا. فقال: يا أبا بكر؛ ما ظنك باثنين الله ثالثهما. وهذا لفظ مسلم."
اے میرے پیارے صدیق ! تمھارا ان دو لوگوں کے بارے میں خیال ہے جن کے بیچ میں تیسرا اللہ ہے. آپ بالکل بھی نہ پریشان نہ ہوں ہمارے ساتھ تائید غیبی و نصرت ربی ہے, ہمیں کچھ نہیں ہوگا، اللہ ہماری حفاظت فرمائے گا.
یہ تو رہے آپ کے فضائل مگر آپ کی جانثاری اور دین کے لیے مال و جان کی جتنی قربانی آپ نے دی ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی،
آپ کا شمار رئیس مکہ میں ہوتا تھا، آپ کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں تھی، مگر جب سے آقا کے دامن رسالت سے وابستہ ہوئے پھر تو کچھ بھی ان کا نہ رہا، آپ نے ذات رسالت پر اتنے اموال خرچ کیے اور حضور علیہ السلام کا اتنا ساتھ دیا کہ حضور علیہ السلام نے برجستہ ارشاد فرمایا :وما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبي بكر. (أخرجه الترمذي)
جتنا فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے دیا ہے اتنا فائدہ کسی اور کے مال سے نہیں ہوا.
اور میرے آقا نے یہ بھی ارشاد فرمایا. :عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لأحد عندنا يد إلا وقد كافيناه ما خلا أبا بكر فإن له عندنا يدا يكافيه الله بها يوم القيامة. (رواه الترمذی)
جن جن لوگوں نے میری مدد کی تھی، جن جن لوگوں کا مجھ احسان تھا میں نے ان سب کا بدلہ دیا مگر ایک ابو بکر  کہ ان کا میرے اوپر اتنا احسان اور تعاون ہے کہ اس کا بدلہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل اپنے خزانہ قدرت سے پورا فرمائے گا.
جناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب سے ایمان لائے اور نبی رحمت کے دامن نبوت سے منسلک ہوئے اسی دم سے کیا سفر کیا حضر، کیا خلوت کیا جلوت ہر لمحہ سایہ کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ،اسی لیے تو میرے سرکار ابد قرار صلی اللہ نے انہیں اپنا خلیل بنانے کی خواہش ظاہر فرمائی." ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ألا وإن صاحبكم خليل الله ) . رواه الترمذي .اگر اس دنیا میں کوئی میرا خلیل بننے کے قابل ہے تو وہ جناب ابو بکر ہیں مگر اے میرے صحابہ! تمھارا صاحب محمد اللہ کا خلیل ہے.
جس طرح یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے اسی طرح ہمارے آقا کے نزدیک جناب ابوبکر صدیق بھی غایت درجہ محبوب تھے. پوچھا تھا کسی آنے والے نے. یا رسول اللہ!  صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: (عَائِشَةُ) ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ ، فَقَالَ: (أَبُوهَا)، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ( ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّاب )، فَعَدَّ رِجَالًا".(رواه البخاري ومسلم في صحيحهما)
یا رسول اللہ! وہ کون ہے جو آپ کے نزدیک سب سے عزیز و محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا. عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا. پھر اس نے عرض کیا:مردوں میں یارسول اللہ؟ تو آپ نے فرمایا :اس کے والد یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ. پھر پوچھا گیا :اس کے بعد تو آپ نے فرمایا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ.
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایمان و ایقان کس قدر مضبوط تھا کہ جب انفاق فی سبیل اللہ کی بات آتی تو گھر کے سارے ساز و سامان نبی کے قدموں میں رکھ دیتے. اور جب کبھی نبی کی رفاقت کی بات آتی تو اپنی جان ہتھیلی پر لیے چلے آتے، پوچھا گیا تھا آپ سے آپ کو کیا پسند ہے تو آپ نے فرمایا تھا. مجھے دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں. (١) .الجلوس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
میری زندگی کا سب محبوب مشغلہ یہ ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا رہوں اور آپ کے نوری لبوں سے نکلے ہوئے کلام رسالت و وحی ربانی کو سنتا رہوں اور اپنے قلب و جگر کو منور کرتا رہوں. 
(٢)النظر الى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ابوبکر کی آنکھیں ہوں اور چہرہ و الضحی سامنے ہو، بس میں رخ حبیب کو دیکھتا رہوں، یہی میری آرزو ہے. تو اللہ نے یہ موقع عنایت بھی فرمادیا کہ غار ثور میں بس صدیق کی آنکھیں تھیں اور زانوئے صدیق پہ رخ حبیب مصطفیٰ تھا. 
(٣)انفاق مالى على رسول الله.
مال میرا ہو اور ذات رسول اللہ کی ہو، میں سب اپنی دولت و ثروت آقا کے قدموں میں نچھاور کردوں.کیوں کہ آپ کی زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ.ع
رنگ چمن پسند ہے نہ پھولوں کی بو پسند
مجھکو ہے وہ پسند جسے آے تو پسند 
پھر زمانے نے دیکھا کہ ابوبکر صدیق نے سرکار کا اتنا مالی تعاون کیا کہ آقا نے ارشاد فرمایا :مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال سے فائدہ پہونچا ہے.
اللہ عزوجل نے اپنے اس بندہ صدیق و عتیق کے دل میں ایسا ایمانی جذبہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے ایمان کے متعلق نبی نے ارشاد فرمایا :"لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح بهم. (أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان. و فضائل الصحابة للأمام احمد بن حنبل) اللہ نے میرے صدیق و حبیب و عتیق کے ایمان کو ایسا مضبوط کیا تھا کہ اگر ابوبکر کے ایمان کو ایک پلے میں رکھو اور روئے زمین کے تمام مومنین کے ایمان کو دوسرے پلے میں تو ابوبکر والا ایمان بھاری ہوجائے گا.
یہ کچھ فضائل و خصائص تھے جس کو میں نے سپرد قرطاس کیا، آپ کی حیات پاک کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں.
رب قدیر! ہم تمام مسلمانوں کو آپ کے پاکیزہ نقش قدم کی اتباع کی توفیق بخشے اور آپ کے جذبہ جاں نثاری سے کچھ حصہ ہمیں بھی عطا ہو. رب کریم آپ کے مرقد انور پر رحمتوں کی بھرن برسائے.ع. 
یعنی اُس افضل الخلق بعد الرّسل
ثانیَ اثْنین ہجرت پہ لاکھوں سلام
اَصدق الصّادِقین سیدُ المُتّقین
چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے