ضروریات دین:سوالات وجوابات ‏ ‎/ ‏قسط ‏دوم ‏/ ‏از ‏قلم ‏طارق ‏انور ‏مصباحي ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

ضروریات دین:سوالات وجوابات

(قسط دوم) 

قسط اول میں یہ بیان کیا گیا کہ مسلک دیوبندکے اشخاص اربعہ کو کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔قسط دوم میں اس امر کی وضاحت ہے کہ کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔


کافرکلامی کوکافر ماننا ضروری دینی:

سوال دوم: کافر کلامی کو کافر مانناضروریات دین میں سے ہے یا نہیں؟

جواب:کافر کلامی کوکافرماننا ضروریات دین سے ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ متکلمین صرف ضروریات دین کے انکار پر کفر کلامی کا حکم دیتے ہیں،ضروریات اہل سنت کے انکار پر نہیں۔ کافرکلامی کو کافر نہ ماننے پر متکلمین کفر کا حکم دیتے ہیں۔

اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے،ورنہ متکلمین اس کے انکارپرحکم کفر عائد نہیں فرماتے۔

ذیل میں اس مسئلہ کی تفہیم متعدد طریقوں سے کی جاتی ہے، تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔


تفہیم اول
 
مختلف عبارتوں سے یہ واضح ہے کہ جس پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہوگیا تو اس زمانے کے علما بھی اس پر اتفاق کرتے ہیں،کیوں کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں، پھر بعد والوں کو بھی اس میں اختلاف کی اجازت نہیں۔

اختلاف کرنے والوں کو متکلمین کافر کلامی قرار دیتے ہیں،اور یہ واضح ہے کہ متکلمین صرف ضروری دینی کے انکار یا استخفاف پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ کافر کلامی کوکافرمانناضروریات دین میں سے ہے۔


قال القاضی:(وَقَد اَحرَقَ علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ مَن اِدَّعٰی لَہُ الاِلٰہِیَّۃَ-وقد قتل عبد الملک بن مروان الحارث المتنبی وَصَلَبَہ-وَ فَعَلَ ذلکَ غیر واحدٍ من الخلفاء والملوک باشباہہم-وَاَجمَعَ علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم-وَالمُخَالِفُ فِی ذٰلِکَ مِن کُفرِہِم کَافِرٌ)(کتاب الشفا جلددوم:ص297)


توضیح:حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الوہیت مر تضوی کے قائلین کو مرتد قرار دے کر انہیں آگ میں جلادیا،اسی طرح دیگر سلاطین اسلام نے مرتدین کو قتل وہلاک کیا۔ اس عہدکے علما نے اس سزا کو اور اس تکفیر کو صحیح قرار دیا،اور اس تکفیر کے منکر کو کافر قرار دیا، کیوں کہ وہاں کسی ضروری دینی کا قطعی انکار تھا۔

ان لوگوں کی تکفیر کے انکار مطلب یہی ہے کہ تکفیر کا منکر اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانتا،ورنہ ضرور اس ملزم کو کافر مانتا۔

یہ بھی واضح رہے کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ پر علما کا اتفاق ہوگا۔کفر فقہی کفر اختلافی کا نام ہے۔ اس میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگ میں جلانے کی سزا سے اختلاف کیا،لیکن الوہیت مر تضوی کے قائلین پر جو کفر وارتداد کا فتویٰ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا،اس سے اختلاف نہیں کیا۔

 قال الخفاجی:
((واجمع علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم)ای تصویبہ اَو ہو من اضافۃ الصفۃ للموصوف-وذلک لکذبہم عَلَی اللّٰہ بِاَنَّہ نَبَّأہُم وتکذیب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی-انہ خاتم الرسل -وَاَنَّہ لَا نبی بعدہ(و)اَجمَعُوا اَیضًا عَلٰی(اَنَّ المُخَالِفَ فِی ذٰ لِکَ)اَی تَکفِیرِہِم بِمَا إدَّعُوہُ(مِن کُفرِہِم) ہو مفعول المخالفِ اَی مَن خَالَفَ مَذہَبَہُم فی تکفیرہم فَقَالَ:لَا یُکَفَّرُونَ(کَافِرٌ)لانہ رضی بِکُفرِہِم وَتَکذِیبِہِم لِلّٰہِ وَرَسُولِہ)(نسیم الریاض جلدچہارم:ص536-دارالکتاب العربی بیروت)


قال الملا علی القاری:((والمخالف فی ذلک)الفعل(مِن کُفرِہِم) اَی مِن جہتہ (کَافِرٌ) لِجَحدِہ کُفرَہُم)
(شرح الشفا للقاری جلدچہارم: ص536-دارالکتاب العربی بیروت)

قال المحشی علی محمد البجاوی المصری:(من خالف مکفرہم فی تکفیرہم، فقال:لا یکفرون،ہذا المخالف کافر،لانہ رضی بکفرہم وتکذیبہم للّٰہ ورسولہ) (حاشیۃ الشفا: ص1091-دارالکتاب العربی بیروت)

توضیح:شیرخداحضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو کافر قراردیا جو آپ کو معبودمانتے تھے، اورآپ نے ان لوگوں کوسزا کے طورپر ہلاک فرمادیا۔اسی طرح عہد ماضی میں سلاطین اسلام نے جھوٹے دعویداران نبوت کو قتل کیا، کیوں کہ وہ دعویٰ نبوت ودیگرجرائم کے سبب کافر ہوچکے تھے۔ اس زمانے کے علمانے بھی ان کوکافر مانا۔اب اگر کوئی ان کے کفرکا انکار کرے تووہ خود کافر ہے،کیوں کہ کافر کوکافر نہ ماننا خود کفر ہے۔اس زمانے کے علمانے بھی اس کفر پر اتفاق کیا تولامحالہ یہ کفر کلامی ہے،کیوں کہ کفر فقہی میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔مذکورہ بالاعبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کافر کلامی کے کفر کا انکار کرنے والا کافرہے۔

عہد ماضی کے تمام مدعیان نبوت کے اقوال کی تحقیق کے بعد کفر کلامی کا حکم جاری کیا گیااور اس عہد سے آج تک مومنین ان مدعیان نبوت کو کافر مانتے آ رہے ہیں۔عبد اللہ بن سبا کی فتنہ پروری کے سبب بعض لوگ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا کہنے لگے۔حضرت شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سب کو مرتد سمجھ کر جلا دیا،کیوں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔آج تک امت مسلمہ الوہیت مرتضوی کے قائلین کو مرتد مانتی ہے۔کتاب الشفا وغیرہ میں بہت سے مرتدین کا ذکر ہے۔ امت مسلمہ ان مرتدین کو مرتد مانتی ہے۔

الحاصل امت مسلمہ قرنا بعد قرن عہد ماضی کے تمام مرتدین کو مرتد مانتی آ رہی ہے۔کتاب الشفا کی مذکورہ عبارت میں یہ صراحت موجو د ہے کہ جن لوگوں پر علما نے کفر(کفر کلامی)کا حکم دیا،ان کو مومن ماننے والا کافر ہے۔”من شک فی کفرہ فقد کفر“کا یہی مفہوم ہے۔


تفہیم دوم:

ضروری دینی کے منکر کو کافر نہیں ماننا اس ضروری دینی کا انکار

جس ضروری دینی کا کسی نے انکار کیا ہے۔اس منکر کو کافر نہیں ماننا دراصل اس ضروری دینی کوضروری دینی نہیں ماننا ہے،پس ضروری دینی کا منکر بھی کافر ہے اور اس کو کافر نہیں ماننے والا بھی کافر ہے،کیوں کہ اس کے انکار تکفیر سے یہ واضح ہے کہ اس نے اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانا۔اگر اس ضروری دینی کوضروری دینی مانتا تو ضرور اس کے منکر کو کافرمانتا۔ 

امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:”جو کسی منکر ضروریات دین کو کافر نہ کہے، آپ کافر ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص271-رضا اکیڈمی ممبئ)

امام احمد رضا نے فرمایا:”یعنی کافرہے جو کافر نہ کہے ان لوگوں کو کہ غیر ملت اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں، یا ان کے کفر میں شک لائے، یا ان کے مذہب کوٹھیک بتائے۔اگر چہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کی حقانیت اور اس کے سوا سب مذہبوں کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کرتا ہو، کہ اس نے بعض منکر ضروریات دین کو جب کہ کافر نہ جاناتو اپنے اس اظہار کے خلاف اظہار کر چکا"-

 (فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص271-رضا اکیڈمی ممبئ)


توضیح:جب منکرضروریات دین کومومن کہا تو گویا اس نے جو تمام مذاہب باطلہ کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کیا،وہ اعتقاد خود اس کے اقرارکے سبب ٹوٹ گیا،کیوں کہ منکر ضروریات کو اس نے مومن مان لیا ہے۔منقولہ بالا عبارت کتاب الشفا کی عبارت کا مفہوم ہے۔

کتاب الشفا وغیرہ میں ان مقامات پر خالص کافروں کا ذکر نہیں،بلکہ مذہب اسلام کے کلمہ پڑھنے والے مرتدین کا ذکر ہے۔

 چوں کہ ان لوگوں نے ضروری دینی کا انکار کیا تواب ان کا مذہب کوبھی غیر ملت اسلام میں داخل ہوگیا،جس طرح دیگر غیر مذاہب غیر ملت اسلام میں داخل ہیں۔اسی طرح کلمہ خوانی کے ساتھ کسی ضروری دینی کا انکار ہو تو ایسا مذہب بھی غیر ملت اسلام میں شامل ہے۔

فتاویٰ رضویہ میں امام اہل سنت قدس سرہ القوی کی صراحت ہے کہ سب سے بدتر کا فر فرقہ دیو بندیہ ہے۔ان لوگوں کو یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر کافر قرار دیا گیا۔جس طرح یہودیت ونصرانیت غیر ملت اسلام ہیں،اسی طرح دیوبندیت بھی غیر ملت اسلام ہے۔


تفہیم سوم:

ضروری دینی کی منکرجماعتیں اسلام سے خارج:

یہودی مذہب اور عیسائی مذہب بھی آسمانی مذاہب ہیں۔ان مذاہب میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے مبعوث فرمودہ پیغمبر کو تسلیم کیا جاتا ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کے متعدداحکام کی مخالفت کے سبب ان مذاہب کا شمار حق مذاہب میں نہیں ہوتا۔

اسی طرح کلمہ خواں جماعتوں میں جو کسی ضروری دینی کے منکر ہوں،ان کا حکم بھی یہی ہے کہ وہ اسلام سے خارج جماعتیں ہیں اور ان جماعتوں کے کفریہ عقائد کوماننے والے مومن نہیں ہیں۔پاکستان میں قادیانیوں کوغیر مسلم جماعت قرار دیا گیا ہے۔

 کتاب الشفا ودیگر کتابوں میں بتایا گیا کہ جو جماعت کلمہ خواں ہو،لیکن کسی ضروری دینی کی منکر ہو، یا جو افراد کسی ضروری دینی کے منکر ہوں،ان کو کافر نہ ماننے کا حکم بعینہ وہی ہے جو غیر ملت اسلام یعنی یہودونصاریٰ ومجوس وہنود کو کافر نہ ماننے کا حکم ہے۔ 

جس طرح ان کافر جماعتوں اور کافر افرادکو کافرماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ اسی طرح کسی ضروری دینی کی منکر کلمہ خواں جماعت اورکسی ضروری کے منکر افراد کو کافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ 

کسی ضروری دینی کے منکرا فراد یا کسی ضروری دینی کی منکر جماعت اہل قبلہ میں سے نہیں،یعنی اسلام سے خارج ہیں۔ان کا شمار اہل اسلام میں نہیں ہوگا،نہ ہی ان کے ساتھ اہل اسلام کی طرح سلوک کیا جاسکتا ہے،گرچہ وہ کلمہ اسلام پڑھتے ہوں اور نمازوروزہ ادا کرتے ہو ں۔نہ وہ اہل قبلہ ہیں،نہ ہی امت اجابت میں سے۔

قال التفتازانی:(المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اہل القبلۃ فی باب الکفروالایمان-ومعناہ ان الذین اتفقوا علٰی ما ہو من ضروریات الاسلام کحدوث العالم وحشر الاجساد وما اشبہ ذلک- واختلفوا فی اصول سواہا کمسئلۃ الصفات وخلق الاعمال وعموم الارادۃ وقدم الکلام وجواز الرویۃ و نحو ذلک مما لا نزاع فیہ ان الحق فیہا واحد-ہل یکفر المخالف للحق بذلک الاعتقاد وبالقول بہ ام لا؟-والا فلا نزاعَ فی کفر اہل القبلۃ المواظب طولَ العمرعَلَی الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفی الحشر و نفی العلم بالجزئنات ونحو ذلک-وَکَذَا لِصُدُورِشَیءٍ من موجبات الکفر عنہ)
(شرح المقاصدجلددوم:ص269)


تفہیم چہارم:

جب تکفیرکا سبب پایا جائے، تب تکفیر کرنی واجب ہے،اور جہاں تضلیل کی علت پائی جائے،وہاں تضلیل کرنی لازم ہے۔ تکفیر کی جگہ تضلیل،یا تضلیل کی جگہ تکفیر کرنا ایک مستقل مذہب بنانا ہے۔بند گان خدا محکوم ہیں اور شریعت کے حاکم رب تعالیٰ اورعطائے الٰہی سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔محکوم کویہ اختیار نہیں کہ اپنی مرضی ومشیت سے کچھ کرے۔

جب اسلامی شریعت کسی کو دائرۂ اسلام سے خارج کردے تو کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اسے داخل اسلام کردے،بلکہ کافرقطعی کو مومن ماننے والا خودہی اسلام سے باہر نکل جاتا ہے۔ہاں، ایمان وکفر کے فتویٰ میں حتی الامکان تحقیق وتفتیش کرنی لازم ہے،تاکہ کسی مومن کو خارج اسلام قرار دینے کا حادثہ درپیش نہ ہو۔

قال القاضی بعد ذکر الاقوال الکفریۃ:(فَلَا شَکَّ فی کفر ہؤلاء الطوائف کلہا قطعًا اجماعًا وَسَمعًا- کذلک و قع الاجماع علٰی تکفیر کل مَن دَافَعَ نَصَّ الکتاب اَو خصَّ حدیثًا مجمعًا علٰی نقلہ مقطوعًا بہ مجمعًا علٰی حملہ علٰی ظاہرہ کتکفیر الخوارج بابطال الرجم-ولہٰذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل اَو وَقَفَ فیہم او شَکَّ اَو صَحَّحَ مَذہَبَہ وان اظہر مع ذلک الاسلام و اعتقدہ واعتقد ابطال کل مذہب سواہ فہو کافرٌ باظہارہ مَا اَظہَرَ من خلاف ذلک)
(کتاب الشفا:جلددوم:ص286-دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:کتاب الشفا میں مذکورہ بالا عبارت سے قبل ان لوگوں کا ذکر ہے جو اسلام کے کلمہ خواں ہیں،لیکن کسی ضروری دینی کے منکر ہیں۔جس مذہب میں کسی ضروری دینی کا انکار ہو، اس مذہب کا حکم وہی ہے جوملت غیر اسلام کا حکم ہے،گرچہ اس مذہب میں اسلام کا کلمہ پڑھا جاتا ہو۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ضروری دینی کے انکار کے سبب وہ کلمہ خواں مذہب بھی غیر کلمہ خواں مذہب کی طرح باطل ہے اور جس طر ح غیر کلمہ خواں مذہب کوقبول کرنے والے فردکو جو مومن مانے،وہ کافر ہے،اسی طرح ضروری دینی کے منکر کو جو مومن مانے، وہ بھی کافر ہے۔دونوں کے درمیان علت مشترکہ ضروری دینی کا انکار ہے۔ 

مجوسی بھی ضروریات دین کا منکر ہے اور رافضی بھی متعدد ضروریات دین کا منکر ہے۔ایک ضروری دینی کے انکار پر بھی مذہب اسلام سے خروج ثابت ہوجاتا ہے،جس طرح متعددیاتمام ضروریات دین کے انکارکے سبب مذہب اسلام سے خروج ثابت ہوتا ہے۔


قال الخفاجی:((ولہذا)ای للقول بکفر من خالف ظاہر النصوص والمجمع علیہ (نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ  الاسلام)ای اتخذہ دینا(من)اہل(الملل)جمع ملۃ وہی الدین وبینہما فرق بحسب المفہوم(او وقف فیہم)ای توقف وتردد فی تکفیرہم(اوشک)فی کفرہم(اوصحح مذہبہم)ای اعتقد صحتہ کما تقدم عن بعضہم ان الایمان انما ہو عدم جحد وحدانیۃ اللّٰہ وقد تقدم بیانہ وابطالہ-والفرق بین التوقف والشک ان التوقف ان لا یمیل الی شئ من الطرفین-والشک مع التر جیح للمخالف(وان اظہر الاسلام)باعتقادہ والتزام احکامہ(واعتقدہ)بقلبہ(واعتقد ابطال کل مذہب سواہ)ای غیر الاسلام بان یقول انہ منسوخ باطل فی الواقع غیر مقبول عند اللّٰہ ولکن یزعم ان من اقر بالالوہیۃ والتوحید غیر کافر،کما تقدم من مذہب الجاحظ)(نسیم الریاض جلدششم:ص359)

 توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اس امرکی وضاحت موجودہے کہ غیر ملت اسلام کے افراد کو کافر نہیں ماننے والا خود کافر ہے،کیوں کہ جو نصوص قطعیہ میں بیان کردہ عقائد اور مجمع علیہ عقائدیعنی ضروریات دین کا منکر ہے،وہ کافر ہے اورغیر ملت اسلام میں بھی ضروری دینی کا انکار ہے تو ان اہل مذاہب کوکافرنہیں ماننے والا کافر ہے۔

اسی طرح کلمہ خوانوں میں جو کسی ضروری دینی کا منکر ہو، اس کو کافر نہیں ماننے والا بھی کافر ہے۔دونوں کے درمیان علت مشترکہ ضروریات دین کا انکار ہے۔

جس سے ضروری دینی کا انکار ہو، اس کوکافر نہیں ماننے والا خودکافر ہے۔ضروری دینی کے منکر کوکافر نہیں ماننے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منکر تکفیر اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانتا ہے۔ اگر اس ضروری دینی کو ضروری دینی مانتا تو ضروراس کے منکر کو کافرمانتا۔

 
قال النووی والہیتمی:(وَاَنَّ مَن لَم یُکَفِّر مَن دَانَ بِغَیرِ الاِسلَامِ کَالنَّصَارٰی اَو شَکَّ فِی تَکفِیرِہِم اَو صَحَّحَ مَذہَبَہُم فَہُو کَافِرٌ وَاِن اَظہَرَ مَعَ ذٰلِکَ الاِسلَامَ وَاِعتَقَدَہ)
(روضۃ الطالبین جلدہفتم:ص290-الاعلام ص378)


قال الشیخ مرعی بن یوسف الحنبلی(م۳۳۰۱؁ھ):(من اعتقد قدم العالم اوحدوث الصانع اوسخربوعد اللّٰہ او وعیدہ-اَولَم یُکَفِّرمَن دَانَ بِغَیرِالاِسلَامِ اَو شَکَّ فِی کُفرِہٖ-اوقال قَولًا یتوصل بہ الٰی تضلیل الامۃ-او کَفَّرَ الصَّحَابَۃَ فَہُوَ کافر)(غایۃ المنتہی جلدسوم:ص 338 -المؤسسۃ السعدیہ ریاض)


تفہیم پنجم:

قال القاضی بعد ذکر الاقوال الکفریۃ:(فَلَا شَکَّ فی کفر ہؤلاء الطوائف کلہا قطعًا اجماعًا وَسَمعًا- کذلک وقع الاجماع علٰی تکفیر کل مَن دَافَعَ نَصَّ الکتاب اَو خصَّ حدیثًا مجمعًا علٰی نقلہ مقطوعًا بہ مجمعًا علٰی حملہ علٰی ظاہرہ کتکفیر الخوارج بابطال الرجم-ولہٰذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل اَو وَقَفَ فیہم او شَکَّ اَو صَحَّحَ مَذہَبَہ وان اظہر مع ذلک الاسلام واعتقدہ-واعتقد ابطال کل مذہب سواہ فہو کافرٌ باظہارہ مَا اَظہَرَ من خلاف ذلک)
(الشفا: جلددوم:ص286-دارالکتب العلمیہ بیروت)


قال الخفاجی:((قطعا)ای جزما من غیر تردد فیہ(اجماعا)ای بالاجماع(وسمعًا)من اللّٰہ ورسولہ وکتابہ وسنتہ)(نسیم الریاض جلد ششم ص 358-دارالکتب العلمیہ بیروت)
قال القاری:((قطعا)ای بلاشبہۃ(اجماعا)بلا مخالفۃ(وسمعا)ای وسماعا من الکتاب والسنۃ مایدل علی کفرہم بلامریۃ)(شرح الشفاء للقاری جلد دوم ص 520-دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:مذکورہ بالا اقتباسات سے واضح ہوگیا کہ ضروریات دین کے منکر کا کافر ہونا قرآن وحدیث اور اجماع متصل سے ثابت ہے۔ یہاں اجماع سے مجتہد ین کا اجماع یا صحابہ کرام کا اجماع مراد نہیں، بلکہ اجماع متصل مراد ہے۔اسی کو امت مسلمہ کا اجماع کہا جاتا ہے، یعنی کوئی امر دینی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہو، اور عہد رسالت سے تاامروزامت مسلمہ کا وہ اجماعی عقید ہ ہو،جیسے نما ز پنج گانہ۔جو امر اجماع متصل سے ثابت ہو، وہ ضروریات دین میں سے ہوتا ہے۔جب مذکورہ کفار کا کافر ہونا دلیل سمعی سے قطعی طورپر ثابت ہے،اور اجماع متصل سے ثابت ہے تو مذکورہ کافروں کا کافر ہونا ضروریات دین میں سے ہے۔

قال القاضی عیاض بعد ذکر الاقوال الکفریۃ:(و قائل ہٰذا کلہ کافرٌ بالاجماع علٰی کُفرِمَن لَم یُکَفِّر اَحَدًا من النصارٰی والیہود وکل من فارق دین المسلمین اَووَقَفَ فی تکفیرہم اوشَکَّ- قال القاضی ابو بکر-لان التوقیفَ والاجماعَ اِتَّفَقَا عَلٰی کُفرِہم-فمن وَقَفَ فی ذلک فَقَد کَذَّبَ النَّصَّ و التوقیفَ،اَو شَکَّ فیہ وَالتَّکذِیبُ اَوِ الشَّکُّ فیہ لا یقع الامن من کافر)(کتاب الشفاء:جلددوم:ص281)


قال القاری:((قال القاضی ابوبکر)الباقلانی(لان التوقیف)ای بالسماع من اللّٰہ ورسولہ (والاجماع اتفقا علٰی کفرہم-فمن وقف فی ذلک فقد کذب النص)ای نص الکتاب(والتوقیف)بہ من السنۃ علی الصواب(او شک فیہ-والتکذیب او الشک فیہ)ای فی کفرہم(لایقع)کل منہما(الا من کافر))
(شرح الشفا للقاری جلددوم:ص 514-دارالکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:تو قیف سے قرآن وحدیث میں کسی امر کا وراد ہونا مراد ہوتا ہے،جیسے کہا جاتا ہے کہ اسمائے الٰہیہ توقیفی ہیں،یعنی قرآن وحدیث میں جواسمائے طیبہ وارد ہیں،انہی اسمائے مبارکہ کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر ہوگا۔قاضی ابو بکر باقلانی کی عبارت میں توقیف سے یہی مفہوم مراد ہے،یعنی قرآن وحدیث میں کسی امر کا مذکور ہونا۔ضروریات دین میں اجماع سے اجماع متصل مراد ہوتا ہے۔ 

قاضی باقلانی کی عبارت اور ماقبل کی عبارت میں اجماع سے اجماع متصل مراد ہے،یعنی ایسے لوگوں کا کافر ہونا قرآن وحدیث سے بھی ثابت ہے اور اجماع متصل سے بھی ثابت ہے۔اجماع متصل کی قدرے تفصیل مابعد میں مرقوم ہے۔

قال الخفاجی:((وقائل ہذا کلہ کافر بالاجماع علی کفر)متعلق بالاجماع (من لم یکفر احدا من النصاری والیہود)کما ذکرہ الجاحظ(و)لم یکفر(کل من فارق دین المسلمین)کارباب الملل  من المجوس وغیرہم ومفارقتہ مخالفتہ لہم قولاوفعلا(او وقف فی تکفیرہم)ای احجم عنہ وترکہ نفیا واثباتا (او شک)فیہ فیجوز وجودہ وعدمہ  وفی نسخۃ:توقف، وقیل: الوقوف والتوقف کالتردد بحیث لا یرجح احد الجانبین والشک ان یجوزہ تجویزا مرجوحا وکلاہما کفر لانہ یقتضی التردد فی دین الاسلام وہو کفر بلا شک) (نسیم الریاض جلد ششم:ص342-دار الکتب العلمیہ بیروت)

توضیح:جس طرح یہود ونصاریٰ کو کافر نہیں ماننے والا کافر ہے،اسی طرح ضروریات دین کے منکرین کوکافر نہیں ماننے والا کافر ہے۔دونوں کاحکم یکساں ہے۔ ضروری دینی کے منکر کو کافرماننا دلیل سمعی اور اجماع متصل سے ثابت ہے۔

 قطعی الدلالت آیت مقدسہ، قطعی الدلالت احادیث متواترہ اور اجماع متصل سے جو ثابت ہو، وہ ضروری دینی ہے،لہٰذا کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ 


تفہیم ششم:
 
قال القاضی عیاض المالکی:(قال محمد بن سحنون:اَجمَعَ العُلَمَاءُ اَنَّ شَاتِمَ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المُتَنَقِّصُ لَہ کَافِرٌ-وَالوَعِیدُ جَارٍٍ عَلَیہِ بِعَذَابِ اللّٰہِ لَہ-وَحُکمُہ عند الامۃ القَتلُ وَمَن شَکَّ فِی کُفرِہٖ وَعَذَابِہ کَفَرَ)(الشفاء:ص935-دارالکتاب العربی بیروت) 

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں بیان کیاگیا کہ شاتم کافر ہے او ر اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔یہ بات واضح ہے کہ متکلمین کے یہاں صرف ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔ 

اگر کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے نہ ہوتوکافرکلامی کے کافر ہونے کا منکر متکلمین کے یہاں کافر نہیں ہوسکتا،لیکن جب کافر کلامی کے کافر ہونے کا منکر کافر ہے تو کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔یہ بد یہی امر ہے۔اگر کوئی ایسے بد یہی امور میں اختلاف کرے تو اس کا کوئی جواب نہیں۔

سوفسطائیہ،عنادیہ،لا ادریہ وغیرہ بدیہیات میں اختلاف کرتے ہیں۔ایسے لوگو ں کی تفہیم بہت مشکل ہے۔


قسط سوم اور سوال سوم:

قسط سوم میں سوال سوم کا جواب ہے۔ سوال سوم یہ ہے کہ ضروریات دین میں اجماع سے کیا مراد ہے؟

طارق انور مصباحی
 
جاری کردہ:18:فروری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے