حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللّٰه عنہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللّٰه عنہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: حضرت عباس بن عبدالمطلب۔
کنیت: ابوالفضل۔
لقب: خاتم المہاجرین، عم رسول اللّٰهﷺ۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: حضرت عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ۔الی آخرہ۔ (الاصابہ )

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 566ء میں واقعہ فیل سے تین سال قبل مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔ حضرت عباس پانچ سال کی عمر میں اتفاقیہ طور پر کہیں گم ہوگئے۔ ان کی والدہ محترمہ کو بڑی فکر ہوئی، انہوں نے اسی وقت نذر مانی کہ اگر عباس مجھ کو مل گئے تو میں بیت اللّٰه پر حریر و دیباج کا، جو نہایت بیش قیمت کپڑا ہوتا ہے، غلاف چڑھاؤں گی۔ نذر ماننے کے بعد ہی حضرت عباس مل گئے، ان کی والدہ نے نذر پوری کی۔حضرت عباس کی والدہ ہی وہ اول عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیش بہا کپڑے کا غلاف بیت اللہ کو پہنایا۔

تحصیلِ علم: زمانۂ جاہلیت میں حضرت عباس رضی اللّٰه عنہ ان افراد میں سے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ چنانچہ حضرت عباس جب سن تمیز کو پہنچے تو علم الانساب، علم التاریخ، علم الادیان میں مہارت حاصل کی، چوں کہ عرب میں یہ علوم عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، خصوصاً علم الانساب، کیوں کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام ہی کے زمانے سے برابر یہ خبر چلی آرہی تھی کہ عرب میں نسل اسماعیل ہی سے نبی آخرالزامان پیدا ہوں گے، اس وجہ سے علم الانساب کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ رسول اللّٰه کی بعثت کے بعد تو رسول اللہﷺ کا ہر صحابی وحی کا امین اور علومِ مصطفیٰﷺ کا وارث بنا۔

سیرت و خصائص: کچھ شخصیات زمانہ جاہلیت و اسلام دونوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتیں تھیں، اور ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا تھا، ان میں سے ایک ذات حضرت عباس رضی اللّٰه عنہ کی بھی ہے۔ آپ قبل از قبول اسلام اور بعد از قبول اسلام ہمیشہ عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ اس گھرانے کے طبع سلیم رکھنے والے بزرگ قبل از اعلان نبوت ملت خلیل پر عمل پیرا تھے، جیسے حضرت عبدالمطلب، چنانچہ ان کی پرہیزگاری عرب میں مشہور تھی۔ اس لئے بیت اللّٰه اور دیگر اہم قومی امور کی نگرانی انہیں کے ذمہ تھی۔حضرت عبدالمطلب کے بعد قریش نے حضرت عباس میں علم، شجاعت، سخاوت، سیادت، خاندانی نجابت، صلہ رحمی دیکھ کر انہیں کو بیت اللہ کا محافظ منتخب کیا۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب)
چناں چہ حضرت عباس ہمیشہ بیت اللہ کی حفاظت میں اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور آپ نے اس قدر اچھا انتظام کیا کہ کسی کو مجال نہ تھی کہ کوئی شخص بیت اللہ میں بیٹھ کر کسی کی ہجو یا غیبت کر سکے، اگر کوئی ایسا کرتا تو حضرت عباس فوراً اس کو تنبیہ فرمادیا کرتے تھے اور ان کے حکم کے آگے سب کی گردنیں خم ہو جاتی تھیں۔ 
(کامل ابن اثیر،ج:1،ص:9)

تعمیر کعبہ: حضرت عباس کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں اتفاقیہ طور پر آگ لگ گئی، جس کی وجہ سے عمارت مسمار ہوگئی، قریش نے جمع ہوئے اور اس کو بنانا شروع کیا تو ہر شخص کار ثواب سمجھ کر اس کی تعمیر میں حصہ لینے لگا، حضرت عباس نے سب سے زیادہ اس میں حصہ لیا۔

حضرت عباس کا نکاح: حضرت عباس کا نکاح حضرت لبابۃ الکبریٰ سے ہوا، جو ام المومنین حضرت میمونہ کی حقیقی بہن تھیں ،ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبابۃ الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل ہے ،یہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ کے بعد مسلمان ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ان سے مروی ہیں۔ یہ رسول اللہ کی چچی محترمہ تھیں اور آپﷺ کا بہت خیال رکھتیں تھیں۔

قبولِ اسلام: جب آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت عباس کی عمر تینتالیس سال تھی۔ آپ نے غزوۂ بدر کے بعد ہی اسلام ظاہر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا ایک عرصہ تک مکہ میں مقیم رہنا اور علانیہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہونا درحقیقت ایک مصلحت پر مبنی تھا، وہ کفار مکہ کی نقل و حرکت اور ان کے راز ہائے سربستہ کی اطلاع رسول اللہﷺ کو دیتے تھے، نیز اس سر زمین کفر میں جو ضعفائے اسلام رہ گئے تھے ان کے لیے تنہا ماویٰ و ملجا تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس نے جب کبھی رسالت پناہﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ نے منع کردیا اور فرمایا :کہ "آپ کا مکہ میں مقیم رہنا بہتر ہے، خدا نے جس طرح مجھ پر نبوت ختم کی ہے ،اسی طرح آپ پر ہجرت ختم کرے گا۔ یہی وجہ ہےکہ جنگ بدر میں لڑائی سے پہلے حضور اکرمﷺ نے فرما دیا تھا: کہ تم لوگ حضرت عباس رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کو قتل مت کرنا کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں، اور کفار مکہ ان پر دباؤ ڈال کر انہیں جنگ میں لائے ہیں۔ (سیرتِ مصطفیٰﷺ:151)
فضائل و مناقب: آپ کے بہت فضائل ہیں۔ سب سے بڑی فضیلت رسول اللہﷺ کی قرابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عم محترم ہیں۔ حضورﷺ انہیں والد کہہ کر بُلاتے تھے۔ جب پوری قوم نے آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیا، اور دشمنی پہ اتر آئے، اور معاشی، معاشرتی ہر قسم کا بائیکاٹ کر دیا، اور خاندان بنی ہاشم نے"شعب ابی اطالب" میں تین سال انتہائی کسمپرسی میں بسر کیے یہاں تک کہ نوبت درختوں کے پتے کھانے، اور سوکھا چمڑا چبانے، اور پیٹ پر پتھر باندھنے تک جا پہنچی۔ ان مشکل حالات میں حضرت عباس اور حضرت عبدالمطلب نے رسول اللّٰهﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔

ہجرت ِحضرت عباس رضی اللّٰه عنہ: حضرت سہل بن سعد رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی ﷲ تعالٰی عنہما نے حضور اقدسﷺ کی بارگاہ میں(مکہ معظمہ سے) خط تحریرکیا کہ مجھے اذن عطا ہو تو ہجرت کر کے (مدینہ طیبہ) حاضر ہوجاؤں۔ اس کے جواب میں حضور پر نورﷺ نے یہ فرمایا:
یا عم اقم مکانک الذی انت فیہ، فان ﷲ یختم بک الھجرۃ کما ختم بی النبوۃ۔  
اے چچا! اطمینان سے رہو کہ تم ہجرت میں خاتم المہاجرین ہونے والے ہو، جس طرح میں نبوت میں خاتم النبیین ہوںﷺ۔
( تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ذکر من اسمہ عباس، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 7/235)

جب رسول اللّٰهﷺ نے کفار مکہ کےظلم و ستم کی وجہ سے ابتداءً مدینۃ المنورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے حضرت عباس رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے مشورہ فرمایا کہ میرا ارادہ یہاں سے ہجرت کا ہے آپ کی کیا رائے ہے، اس وقت مدینۃ المنورہ کے بارہ افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ تو حضرت عباس نے اس وقت منع کردیا، اور عرض کی اتنی قلیل لوگوں کے ساتھ آپ تشریف نہ لے جائیں، بلکہ آپ اپنا نائب بھیج کر وہاں تبلیغ کریں۔ آپﷺ کو یہ رائے بہت پسند آئی، اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینۃ المنورہ تبلیغ کی غرض سے بھیج دیا۔ اور ان کی کوششوں سے حضرت سعد بن معاذ مشرف بااسلام ہوگئے، اور ان کی تبلیغ پر ان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ دوسرے سال اسی(80) مسلمان حج کے لئے مکۃ المکرمہ آئے۔ تو اس وقت ان سے بات چیت اور رسول اللّٰهﷺ کی ہر حال میں حفاظت و اطاعت کا عہد کرنے والے حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے۔
ان لوگوں نے پورا عہد کیا اور کہا: اے عباس!ہم نے خدا کے لیے یہ عہد کیا ہے، کہ ہم ان پر اپنی جانیں قربان کردیں گے اور ان کا ساتھ نہ چھوڑیں گے، جب تک جسم میں جان باقی ہے ہم ان تک کسی دشمن کو نہیں پہنچنے دیں گے، ہم اپنی جان، اولاد سب کچھ ان پر قربان کردیں گے۔لیکن! ایک عرض ہماری بھی ہے کہ، اگر آں حضرتﷺ اپنے دشمنوں پر غالب آجائیں اور کسی کا خوف و اندیشہ نہ رہے تو ایسا نہ ہوکہ آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ چلے آئیں۔ آپﷺ نے یہ سن کرارشاد فرمایا: کہ ایسا نہ ہوگا، میری قبر تمہاری قبروں میں ہوگی اور میرا گھر تمہارے گھروں میں ہوگا۔ جن کے ساتھ تم لڑوگے میں بھی لڑوں گا، جن سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا۔ یہ فرما کر آپﷺ کھڑے ہوئے اور تقریر کی۔ چند ایام گزرنے کے بعد آپ ﷺ باذن خداوندی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہم راہ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے۔ سبحان اللہ!
 انصار نے کیسا ساتھ نبھایا، اور مصطفیٰ کریم ﷺ نے کیسا کرم فرمایا۔

منقول ہے کہ حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد نبوی سے متصل تھا اور بارش میں اس مکان کا پرنالے کا پانی گلی میں گرتا تھا، جس کی وجہ سےگلی میں پانی بھر جاتا تھا، امیرالمؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ دیا۔ حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم! اس پرنالہ کو رسول ﷲﷺ نے میری گردن پر سوار ہو کر اپنے مقدس ہاتھوں سے لگایا تھا۔ یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عباس! مجھے اسکا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہو کر اس پر نالہ کو پھر اسی جگہ لگا دیجئے ،جہاں رسول اللہ ﷺ نے لگایا تھا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
(وفاء الوفا جلد1 ص348)

(یہ صحابی تھے، وہابی نہیں تھے، وہ رسول اللہ کی نسبت والی چیزوں کا خیال اور ان کو بحال رکھتے تھے، اور یہ گرانے اور مٹانے پہ تلے ہوئے ہیں)

آپ کے توسل سے بارش کا نزول: امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب شدید قحط پڑگیا اور خشک سالی کی مصیبت سے دنیا ئے عرب بدحالی میں مبتلا ہوگئی تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز استسقاء کے لیے مدینہ منورہ سے باہر میدان میں تشریف لے گئے اور اس موقع پر ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجتماع ہوا۔ اس بھرے مجمع میں دعا کے وقت حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو تھام کر انہیں اٹھایا اور انکو اپنے آگے کھڑا کر کے اس طرح دعا مانگی:
''یا اللہ ! پہلے جب ہم لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تھے تو تیرے نبی کو وسیلہ بناکر بارش کی دعائیں مانگتے تھے اور تو ہم کو بارش عطا فرماتا تھا مگر آج ہم تیرے نبیﷺ کے چچا کو وسیلہ بناکر دعا مانگتے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش عطا فرما دے''۔
(صحیح البخاری:3710)

پھر جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بارش کے ليے دعا مانگی تو ناگہاں اسی وقت اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ گھٹنوں تک پانی میں چلتے ہوئے اپنے گھروں میں واپس آئے اور لوگ جوش مسرت اور جذبہ عقیدت سے آپ کی چادر مبارک کو چومنے لگے اور کچھ لوگ آپ کے جسم مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے۔

وفات: آپ کا وصال 12/رجب المرجب 32 ھ،مطابق 18 فروری 653ء، بروز جمعۃ المبارک 88 سال کی عمر میں ہوا۔ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے قبر میں اتارا۔

ماخذ و مراجع: صحیح البخاری۔ وفاء الوفاء۔ سیرت مصطفیٰﷺ۔ الاصابہ۔ کامل ابن کثیر۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے