-----------------------------------------------------------
📚ہندو کے گھر فاتحہ کرنا کیسا؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم
کیا فرماتے ہین مفتیان کرام کے ہندو کے گھر میں فاتحہ کرنا کیسا ہے؟ قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماے آپکی عین نوازش ہوگی اور ان کے حق میں دولت وغیرہ کے برکت کے لے دعا کرنا کیسا ہے ابھی جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: مشتاق
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب:
فاتحہ انکے اموات کےلئے قطعاً درست نہیں۔
اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کفار کیلئے کچھ دعائیں کرنا جائز ہے ،جیسا کہ انکی ھدایت و اصلاح کی دعاء ۔
اور کچھ دعائیں ان کے لئے کرنا منع ہیں مثلاً ان کیلئے مغفرت کی دعاء :
جیساکہ الله سبحانه وتعالى نے سورة التوبة میں فرمایا : {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى ۔۔)
کہ نبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت طلب کریں ،اگر چہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘
اسی طرح ایک مسلم دوسرے مسلم کو جن الفاظ سے ھدیہ سلام پیش کرتا ہے ،اس لفظ و صیغہ سے کافر کو سلام پیش نہیں کرسکتا ،
بلکہ(السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ )) جیسے الفاظ سے سلام کہے گا ،
اسی طرح جان و مال میں برکت کی دعاء بھی کافر کو نہیں دی جا سکتی ،کیوں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۔۔))
’’ یعنی اگر بستیوں ،شہروں کے رہنے والے ایمان و تقویٰ والے بن جائیں ،تو ہم زمین و آسمان کی برکتیں ان کیلئے کھول دیں ‘‘
یعنی ایمان و تقوی کے بغیر وہ برکات کے مستحق نہیں ،
اسلئے اہل کفر برکت کی دعاء کے حقدار نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ‘‘ میں اس طرح کے ایک سوال کاجواب قابل توجہ ہے ؛
الفتوى رقم (16437)
س: أعمل في إحدى المصالح الحكومية، والرئيس المباشر للعمل مسيحي والعادة عندما أتحدث مع أحد يكون الرد (بارك الله فيك) (الله يكرمك) (حفظك الله) فما رأي الدين في ذلك؟ وهل يكون هذا مخالف لقول الله سبحانه وتعالى في سورة التوبة: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} ((1) سورة التوبة الآية 113)
__
الجواب : لا ينبغي الدعاء المذكور لكافر، وإنما يدعى له بالهداية للإسلام، وإذا عمل معروفا فيبدي له الشعور الحسن. مما يناسب المقام، كقول: أنا شاكر، ونحو ذلك. أما الآية الكريمة فهي في حق من مات على الكفر.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
ھذاماظھرلی والعلم عنداللہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️کتبــــه: منظور احمد یارعلوی، خادم الإفتاء والتدريس دارالعلوم برکاتیہ جوگیشوری ممبئی۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں