🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯
-----------------------------------------------------------
📚 تارک صلاة کا حکم 📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں...
ایک شخص ہے جو کبھی پنجوقتہ نماز نہیں پڑھتا حتی کہ پورے سال میں کبھی جمعہ کی بھی نماز نہیں پڑھتا صرف اور صرف عید اور بقرعید کی نماز پڑھتا ہے ۔
ساتھ ہی ہر وقت احرام کی صورت میں ایک رنگ کا کپڑا اوڑھے رہتا ہے (حضور وارث پیا کی طرف منسوب کر کے) ۔اور ستم یہ ہے کہ ایسے بد بخت کو محلے کا باوقار عہدہ سکریٹری کے مسند پر بٹھایا گیا ہے ۔
اسکے تعلق سے شرعی حکم کیا ہے ۔اور کبھی نماز جمعہ نہ پڑھنے پر کیا وعیدیں ہیں کیا ایسے نا ہنجارکو مسلمان کہا جائے گا؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
( نثار احمد مصباحی)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب اللھم ھداية الحق الصواب
صورت مسولہ میں ایمان و تصحیح عقائد کے بعد جملہ حقوق اللّٰه میں سب سے اہم واعظم نماز ہے اور جو شخص پنجگانہ نماز پابندی کے ساتھ نہ پڑھتا ہو سخت گناہگار ہے مستحق عذاب نار اور جس نے قصدا ایک وقت نماز چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا۔
اور اعلحضرت عظیم البرکت مجدد و دین ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رب القوی تحریر فرماتے ہیں کہ:
صحابہ کرام وتابعین عظام ومجتہدین اعلام وائمہ اسلام علیہم الرضوان کا یہی مذہب ہے کہ قصداً تارکِ صلاۃ کافر ہے اور یہی متعدد صحیح حدیثوں میں منصوص اور خود قرآن کریم سے مستفاد:
واقیموا الصّلٰوۃ ولاتکونوا من المشرکین
نماز قائم کرو اور کافروں سے نہ ہو جاؤ۔
( القرآن سورہ الروم ۳۰ آیت ۳۱)
اور جامع صغیر میں ہے من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر جہارا
جس نے قصداً نماز ترک کی وہ علانیہ کافر ہوگیا۔
( الجامع الصغیر مع فیض القدیر حدیث ۸۵۸۷ مطبوعہ دارالمعرفت، البیروت ۶/۱۰۲)
(۲؎ معجم اوسط، حدیث نمبر ۳۳۷۲ مکتبہ المعارف ریاض ۴/۲۱۱)
لیکن زمانہ سلف صالح میں یہی حکم تھا اس زمانے میں ترک نماز علامت کفر تھا البتہ جب زمانہ خیر گزر گیا اور لوگوں میں تہاون آیا وہ علامت ہوتا جاتا رہا اور اصل حکم نے عود کیا کہ ترک صلاۃ فی نفسہ کفر نہیں جب تک اسے ہلکا یا حلال نہ جانے یا فرضیت نماز سے منکر نہ ہو یہی مذہب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے یعنی امام اعظم تکفیر نہیں فرماتے بلکہ ایسا شخص خاطی فاسق فاجر مرتکب کبائر ہے۔
اور ہمہ وقت ایک رنگ کے کپڑے پہنے رہنا کوئی منع الشرع نہیں لیکن فقیر نے بھی دیکھا ہے کہ وارثی حضرات ہمہ وقت زرد رنگ کے لباس زیب تن رہتے ہیں اور حضور وارث پاک کے طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے لہذا ہم بھی نہیں پڑھے گے انکی کھلی جہالت ہے حضور وارث پاک ولی کامل مجذوب تھے اور ایسے شخص کو باوقار عہدے پر فائز کرنا سخت گناہ ہے.
جیسا کہ قرآن عظیم میں ہے ﷲ تعالٰی فرماتا ہے:
واماینسینّک الشیطٰن فلاتقعدبعد الذکرٰی مع القوم المظّٰلمین
اگر شیطان تجھے بھُلادے تویاد آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھنا۔
(القرآن ۶ /۶۷)
لہذا ایسا شخص مسلمان ہے مگر بعد موت ہر سنّی صحیح العقیدہ کو غسل وکفن دینا، اس کے جنازے کی نماز پڑھنا ضروری ہے۔
جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے رسول ﷲ صلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الصلٰوۃ واجبۃ علیکم علٰی کل مسلم یموت براکان اوفاجراوان ھو عمل الکبائر
تم پر ہر مسلمان کی نمازِ جنازہ فرض ہے نیک ہو یا بدکار اور اگرچہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو۔
(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور جلد 1 صفحہ 343)
📚بحوالہ العطایا النبویہ فی الفتاوی رضویہ جلد خامس ص 100 تا 107 تفصیل کے لیے۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️کتبـــــــــــــــــــــــــہ:
فقیر محمد منظر رضا نوری نعیمی غفرلہ، خادم التدریس مدرسہ سراج الھدی کمرڈی کرناٹک الہند
رابطہ: 9108131135
✅ الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم دارالحدیث ودارالافتاء جامعۃالنور جمعیة إشاعة أهل السنة (باكستان)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں