طوطا / ببغاء کھانا کیسا ہے

🕯        «    احــکامِ شــریعت     »        🕯
-----------------------------------------------------------
📚طوطا / ببغاء کھانا کیسا ہے؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

حضرت ذرا رہنمائی فرمائیں کہ طوطا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہا کی تصريحات اور اختلافات پر ذرا روشنی ڈال دیں. 
المستفتی : فیضان سرور مصباحی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

الجواب : اس بارے میں اختلاف ھے کچھ علماء طوطے کو ٹیڑھے چونچ اور ذی مخلب ہونے کی وجہ سے حرام کہتے ہیں جبکہ جمھور کے نزدیک طوطا حلال ھے احناف کا بھی متفقہ طور پر یہی مذھب ھے ھمارے نزدیک طوطا اگرچہ ذی مخلب ھے(یادرھے کہ حرمت کیلئے صرف ذی مخلب ہوناکافی نہیں ھے ساتھ ہی یہ قیدبھی ھے *یتخطف بہ،یا یتصیدبہ*) مگریہ ان پرندوں میں سے نہیں ہے جو اپنے پنچوں کے ساتھ شکار کریں یہ پنچوں کے ساتھ دانے اور سٹے وغیرہ کوپکڑتاھے مگر دوسرے جانوروں کو شکار کرکے کھاتا نہیں ھے، اس لیے حلال ہے۔ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک بھی طوطا حلال ہے جبکہ اکثر شوافع حرام سمجھتے ہیں علامہ دمیری شافعی فرماتے ہیں:
"یحرم اکلھا علی الاصح فی الرافعی ونقلہ عن الصیمری واقرہ وعلل ذلک بخبث لحمھا وقیل حلال لانھا تاکل من الطیبات ولیست من ذوات السموم ولامن ذوات المخلب وحکی البغوی فی ذلک وجھین
(حیاةالحیوان ملخصاص161ج1) 

امام عبدالوھاب شعرانی شافعی نے بھی طوطے کے متعلق دونوں قول نقل فرما کر راجح قول کے مطابق حرام قرار دیا ھے ۔
"ومن ذلک قول الائمة الثلاثةفی المشھورعنھم انہ لاکراھةفی مانھی عن قتلہ کالخطاف والھدھد والخفاش والبوم والببغا والطاوس مع قول الشافعی فی ارجح القولین انہ حرام"
(میزان الشریعة الکبری ص157ج2)

علامہ ابن عابدین شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں کہ امام شافعی کے نزدیک طوطا حرام ھے۔
"قال فی غررالافکار عندنا یؤکل الخطاف والبوم ویکرہ الصرد والھدھدوفی الخفاش اختلاف واماالدبسی والصلصل فلایستحب اکلھاوان کانت فی الاصل حلالالتعارف الناس باصابةآفةلآکلھافینبغی ان یتحرزعنہ وحرم الشافعی الخطاف والببغا والطاوس والھدھد"
(ردالمحتار ص215ج5ملخصا)
شیخ محمدصالح المنجد فتاوی الاسلامیة میں طوطے کے متعلق لکھتے ہیں کہ جمھور کے نزدیک حلال ھے اور امام شافعی کی ایک روایت بھی حلت کے متعلق ھے۔
"وقد ذهب جمهور العلماء إلى إباحة أكله .
وهو مذهب الحنفية والمالكية والحنابلة والظاهرية ، وأحد الوجهين للشافعية .
ويدل لذلك : أن الأصل في الحيوانات الحل ، ولا يحرم منها إلا ما دل الدليل على تحريمه ، ولم يدل دليل على تحريم الببغاء .
قال المرداوي الحنبلي رحمه الله :

" دخل في قول المصنف " وسائر الطير " الطاووس ، وهو مباح لا أعلم فيه خلافا . ودخل أيضا الببغاء ، وهي مباحة ، صرح بذلك في الرعاية " انتهى من "الإنصاف" (10/364).

وقال البهوتي في "الروض المربع" (7/430) وهو يمثل للحيوانات التي يحل أكلها : "كالزرافة والوبر واليربوع ، وكذا الطاووس والببغاء" انتهى .

علق عليه الشيخ ابن عثيمين قائلا : "فكل هذه حلال ، بناء على الأصل" انتهى من الشرح الممتع" (15/33) .
ومذهب الشافعية ، في الأصح : تحريم أكل الببغاء .

قال الإمام النووي:
" وفي الببغاء والطاووس (وجهان) قال البغوي وغيره : (أصحهما) التحريم " انتهى من "المجموع " للنووي (5/178).
وجاء في "الفقه على المذاهب الأربعة" (2/9) 
"ويحل من الطير العصافير بأقوالها .. والببغاء ثم استثنى الشافعية من القول بالحل ، فقال : (الشافعية قالوا : لا يحل أكل الببغاء)" انتهى .
وعلة القول بتحريم الببغاء : هو استخباث العرب له ، وأن المدار في الاستطابة والاستخباث : هو حال العرب الذي نزل فيهم تحليل الطيبات ، وتحريم الخبائث .
قال تقي الدين السبكي :
" لا دليل لمن حكم بتحريم الببغاء والطاوس إلا أنه كانت تستخبثهما العرب ، والظاهر أن ذلك مستند من رجح تحريمها وهو البغوي ، وحكي عن غيره أيضا ".
انتهى من "قضاء الأرب في أسئلة حلب" (519).

قال البهوتي رحمه الله في الموضع السابق بعد أن ذكر حل الطاووس والببغاء ، قال : "لأن ذلك مستطاب ، فيدخل في عموم قوله تعالى : (وَيُحِلُّ لَهُمْ الطَّيِّبَاتِ) " انتهى من "الروض المربع" (7/429) 
مشہور شافعی عالم محمد امین الکردی الاربلی اپنی کتاب تنویرالقلوب فی معاملةعلام الغیوب کی القسم الثانی الفقہ علی المذھب الشافعی میں رقمطرازہیں کہ طوطا ذی مخلب ہونے کے باوجود حلال ھے کیونکہ یہ شکاری اور حملہ آور پرندہ نہیں ھے
"ویحرم کل ذی مخلب من الطیوروھوالذی یعدو بمخلبہ ویعیش بہ کالبازی والشاھین والصقر والعقاب والبوم والدرةوھی الببغاء"
(تنویرالقلوب ملخصاص315)
 ۔فاکہۃ البستان میں حلال اور حرام پرندوں کے متعلق شیخ مخدوم ہاشم سندھی ؒ لکھتے ہیں:اما الطوطی فقد قال فی الصیدیۃ الفارسیۃ لشیخ الاسلام الھروی فی ترجمۃ لفظ الببغاء:کہ طوطی بمذہب امام ابوحنیفہ کوفی حلال است ،ودر مذہب شافعی دو روایت است،انتھی،ص:۲۹۱۔یعنی امام ابوحنفیہ ؒ کے مذہب میں طوطی کا کھانا حلال ہے اور مذہب شافعی میں اس سلسلے میں دوروایتیں ہیں:
شیخ عبدالرحمن الجزیری اپنی کتاب "الفقہ علی المذاھب الاربعةمیں فرماتے ہیں
"ويحل من الطير أكل العصاف ير بأنواعها والسمان والقنبر والزرزور والقطا والقطا والكروان والبلبل والببغاء ( الشافعية - قالوا : لا يحل أكل الببغاء ) والنعامة والطاووس ( الشافعية - قالوا : لا يحل أكل الطاووس"
(الفقہ علی المذاھب الاربعة للجزیری ص9ج2)
مشھور سعودی مفتی شیخ عثیمین اپنی کتاب فتاوی ابن عثیمین میں لکھتے ہیں
"هل الببغاء حرام أم حلال؟ اختلف العلماء في ذلك على قولين: فالجمهور على إباحته, والشافعية عندهم  فيه وجهان أصحهما التحريم, قال في المجموع للشافعية (9/ 21)" وفي الببغاء والطاؤس وجهان, قال البغوي وغيره: أصحهما التحريم" اهـ. وقال في الإنصاف للحنابلة (16/ 139) تنبيه آخر: دخل في قول المصنف " وسائر الطير " الطاووس وهو مباح لا أعلم فيه خلافًا, ودخل أيضا الببغاء وحاصل الکلام فالببغاء حرام أكلها ونجس روثها عند الشافعية, وروثها نجس كذلك عند أبي حنيفة وأبي يوسف, وحلال أكلها وطاهر روثها عند المالكية والحنابلة."
 مشھور محقق اورمصری عالم دکتوصالح الفوزان اپنی کتاب
احکام الحیوانات میں لکھتے ہیں
"وممایجوزاکلہ البط بانواعہ والطاوس والبطریق والببغاء والحمام بانواعہ والنعام"
(ملخصا، احکام الحیوانات)
ملک العلماء امام کاسانی فرماتے ہیں
"ویؤكل القمری والخطاف والطاوس والنعام والببغاء"
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ص146ج4ملخصا)
مفتی نوراللہ نعیمی نے طوطے کو حلال لکھا ھے جبکہ بعض علماء نے حرام لکھا ھے
حرمت والوں کی دلیل یہ ھے کہ یہ پنچے سے پکڑ کر کھاتا ھے تو یہ "ذی مخلب" ہوا
حلت والوں کی دلیل یہ ھے کہ پنجے سے پکڑتا ھے مگر شکار نہیں کرتا (یعنی دوسرے پرندوں، جانداروں کو شکار نہیں کرتا)اور حرمت کیلئے صرف پکڑنا کافی نہیں ھے بلکہ ذی مخلب ہونے کا تقاضا یہ ھے کہ شکار کرے 
طوطا چونکہ شکار نہیں کرتا بلکہ صرف پکڑتا ھے تو یہ ذی مخلب نہیں ہوا فلھذا حلال ھے
علامہ نوراللہ نعیمی نے زبردست دلائل سے حلت کو ثابت کیا ھے
(فتاوی نوریہ ملخصاص43ج5)

خلاصہ یہ ھے کہ طوطا جمھور علماء کے نزدیک حلال ھے البتہ شوافع کے دو قول ہیں 1_حلت_2_حرمت
اور ان کے نزدیک طوطا حرام ھے اور یہی شوافع کا راجح کا قول ھے۔
واللہ تعالٰی اعلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کتبـــه✍️ مفتی عرفان الحق نقشبندی، خادم الافتاء دارالعلوم حنفیہ رضویہ سیمنٹ فیکٹری ڈیرہ غازیخان، رکن مجلس شوری مصطفوی سکالرگروپ
03007824224
03457132487
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے