-----------------------------------------------------------
📚جس کے ذمہ فرائض باقی ہوں اس کے نوافل مقبول ہوگی یا نہیں؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے علماء کرام ومفتیان عظام کہ جس شخص کے ذمہ فرائض باقی ہوں تو کیا اس شخص کی نفل نماز بالکل قبول ہی نہیں ہے یا اس میں کچھ تفصیل ہے؟؟
اگر نفل نماز بالکل قبول ہی نہیں ہے تو قرآن کے اس آیت کا کیا جواب ہوگا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ومن يعمل مثقال ذرة خيرا يره و من يعمل مثقال ذرة شرا يره ، یعنی ذرہ برابر نیکی کرو گے تو بھی دیکھو گے اور ذرہ برابر برائی کرو گے تو بھی دیکھو گے
اور دوسری بات اس حدیث کا کیا جواب ہوگا جو امام حاکم نے الکنی میں حضرت ابن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے
کہ اللہ تعالٰی نے میری امت پر جو چیز سب سے پہلے فرض کی وہ پانچ نمازیں ہیں اور میری امت کے جو اعمال سب سے پہلے پیش کئے جائیں گے وہ پانچ نمازیں ہیں پس جس نے اس میں سے کوئی نماز ضائع کر دی تو اللہ تعالٰی فرمائے گا دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفلی نماز ہے جس کے ساتھ تم کے فرض کے کمی کو پورا کر دو
تو اس حدیث سے نفل کی قبولیت ثابت ہوتی ہے اگر نفل نماز بالکل قبول ہی نہیں ہے تو فرض کے کمی کو کیسے پورا کیا جارہا ہے ، دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
المستفتی: محمد شاہد رضا پورنوی۔
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ :
جس کے ذمہ فرائض ہوں اس کے نوافل قبول نہیں اور آیت کریمہ برحق ہے لاشک فیہ ، فرائض اصل نوافل اس کی فرع اصل چھوڑ کر فرع پر عمل چہ معنی دارد
📜جیسا کہ سنن الكبير للبهيقي میں ہے
عن علىِّ ابنِ أبى طالِبٍ -رضي اللَّه عنه- أنَّ رسولَ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: ومَثَلُ المُصَلِّى كَمَثَلِ التّاجِرِ، لا يَخلُصُ رِبحٌ حَتَّى يَخلُصَ له رأسُ مالِه، كَذَلِكَ المُصَلِّى لا تُقبَلُ له نافِلَةٌ حَتَّى يُؤَدِّىَ الفَريضَةَ"
(📕 السنن الكبرى للبيهقي ,ج ٤ ص ٦٤٣ )
نمازی کی مثال تاجر کی طرح ہے کہ اس کا نفع کھرا نہیں ہوتا ، جب تک وہ اپنا راس المال کھرا نہ کر لے ۔ یونہی نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے ، جب تک وہ اپنے فرائض نہ ادا کر لے۔
📑اور مسند احمد بن حنبل (رحمہ ﷲ) میں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: « وَمَنْ صَامَ تَطَوُّعًا وَعَلَيْهِ مِنْ رَمَضَانَ شَيْءٌ لَمْ يَقْضِهِ، فَإِنَّهُ لَا يُتَقَبَّلُ مِنْهُ حَتَّى يَصُومَهُ»
یعنی جو نفلی روزہ رکھے اور اس پر رمضان کا کوئی روزہ باقی ہو ، جس کی اس نے قضا نہیں کی ، تو اس کا یہ نفلی روزہ قبول نہیں ہوگا ، جب تک وہ فرض روزہ نہ رکھ لے۔
(📘مسند أحمد بن حنبل ٢٦٩/١٤]
اور مجدد اعظم اعلحضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے عنوان میں فرماتے ہیں
شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے۔ نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کررہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی (یعنی فریب ومغالطہ میں ڈالنے والی چیز) ہے، اس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے ، وُہ قابلِ قبول ہوں گے ؟ خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بے نیاز
لاجرم محمد بن المبارک بن الصباح اپنے جزءِ املا اور عثمان بن ابی شیبہ اپنی سنن اور ابو نعیم حلیۃ الاولیاء اور ہناد فوائد اور ابن جریر تہذیب الآثار میں عبد الرحمٰن بن سابط و زید و زبید پسرانِ حارث و مجاہد سے راوی: لما حضر ابابکر الموتُ دعا عمر فقال اتق ﷲ یا عمر واعلم ان لہ عملا بالنھار لا یقبلہ باللیل و عملا باللیل لا یقبلہ بالنھار واعلم انہ لایقبل نافلۃ حتی تؤدی الفریضۃ ، الحدیث ،
یعنی جب خلیفۂ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم سیّدنا صدیقِ اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا ، امیر المومنین فاروق اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر ﷲ سے ڈرنا اور جان لو کہ ﷲ کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں رات میں کرو ، تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انہیں دن میں کرو ، تو مقبول نہ ہوں گے اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا ، جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے
حضور پُرنور سیدنا غوث اعظم مولائے اکرم حضرت شیخ محی الملۃ و الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب شریف میں کیا کیا جگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں ، جو فرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ فرماتے ہیں: اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے ۔ یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور اس کے غلام کی خدمت گاری میں موجود رہے ، پھر حضرت امیرالمؤمنین مولی المسلمین سیدنا مولیٰ علی مرتضیٰ کرم ﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے اس کی مثال نقل فرمائی کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں : ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے ، جسے حمل رہا ۔ جب بچّہ ہونے کے دن قریب آئے ، اسقاط ہوگیا ۔ اب وہ نہ حاملہ ہے نہ بچّہ والی۔ یعنی جب پُورے دنوں پر اگر اسقاط ہو ، تو محنت تو پُوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں کہ اگر بچہ ہوتا ، تو ثمرہ خود موجود تھا ۔ حمل باقی رہتا ، تو آگے امید لگی تھی ۔ اب نہ حمل نہ بچّہ، نہ اُمید نہ ثمرہ اور تکلیف وہی جھیلی ، جو بچّہ والی کو ہوتی۔ ایسے ہی اس نفل خیرات دینے والے کے پاس سے روپیہ تو اٹھا ، مگر جبکہ فرض چھوڑا ، یہ نفل بھی قبول نہ ہُوا ، تو خرچ کا خرچ ہوا اور حاصل کچھ نہی۔ اسی کتاب مبارک میں حضور مولیٰ رضی ﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ: فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ واھین۔
یعنی فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مشغول ہوگا ، یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا۔
ایساہی ہی شیخِ محقق مولانا عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہ نے اس کی شرح میں فرمایا کہ: ترک آنچہ لازم و ضروری ست واہتمام بآنچہ نہ ضروری است از فائدہ عقل و خرد وراست چہ دفع ضرر اہم ست برعاقل از جلب نفع بلکہ بحقیقت نفع دریں صورت منتقی است۔
لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کاا ہتمام عقل وخرد میں فائدہ سے دُور ہے ، کیونکہ عاقل کے ہاں حصولِ نفع سے دفعِ ضرر اہم ہے ، بلکہ اس صورت میں نفع منتفی ہے۔
(📗فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ178تا180، رضا فاؤنڈیشن ،لاهور)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
فَقَالَ فِي الْمُضْمَرَاتِ: الِاشْتِغَالُ بِقَضَاءِ الْفَوَائِتِ أَوْلَى وَأَهَمُّ مِنْ النَّوَافِلِ
قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہونا یہ نوافل پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ،
(📒الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، ج ٢, ص ٧٤ دار الفکر بیروت )
آپ جو دوسری حدیث نقل فرمائے ہیں یہ سنن ترمذی شریف میں بھی ہے اس کی تشریح و توضیح دار الافتاء اہلسنت کے فتویٰ میں ہے،
لیکن محدثین کے مختلف آراء ہیں بعض فرماتے ہیں اس سے قیام رکوع سجود ، بعض یہ بھی معنی بیان فرماتے ہیں جس نے فرض نہیں پڑھے ، اللہ عزوجل اس کی جگہ نفل قبول فرما لے گا ،
سنن الترمذی شریف
فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ "،
اگر بندے کے فرضوں میں کمی ہوگی تو رب تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو ! کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں ، ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی، پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے۔
[📙سنن الترمذي شاكر، ٢٦٩/٢]
لیکن یہ اللہ عزوجل کے فضل و رحمت کا بیان ہے نہ کہ عدل کا ۔ یعنی اگر اللہ عزوجل نے ایسے بندے پر فضل و رحمت فرمایا ، تو اس کے نفلوں کو فرضوں کی جگہ قبول فرما لے گا اور اگر ایسا نہ ہوا ، بلکہ عدل کا معاملہ فرمایا ، تو پھر اللہ عزوجل چاہے گا ، تو اسے فرض چھوڑنے کے گناہ پر عذاب فرمائے گا۔
حلیۃ الاولیاء کی ایک روایت سے اس کی تشریح ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس میں ہے کہ حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالی نے حضرت علی بن حسن رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ روایت پڑھی (جس کا کچھ حصہ یہ ہے) :” وأنه يحاسب العبد يوم القيامة بالفرائض فان جاء بها تامة قبلت فرائضه ونوافله وان لم يؤدها وأضاعها لحقت النوافل بالفرائض فان شاء غفر له وان شاء عذبه“
یعنی بروز قیامت بندے سے فرائض کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ مکمل فرائض لایا، تو اس کے فرائض اور نوافل قبول کر لیے جائیں گے اور اگر اس نے فرائض ادا نہ کیے تھے ، بلکہ انہیں ضائع کیا تھا، تو نوافل فرائض سے ملائے جائیں گے ، پھر اللہ چاہے ، تو اسے بخش دے اور چاہے ، تو اسے عذاب فرمائے۔
(📚حلیۃالأولياء، جلد٧، صفحہ٣٥، مطبوعہ دار الکتاب العربی، بیروت)
📄یونہی علامہ ابن رجب حنبلی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”ان الله اذا شاء أن يغفر لعبد أكمل فرائضه من نوافله وذلك فضل من عنده يفعله مع من يشاء أن يرحمه ولا يعذبه“
ترجمہ : اللہ عز وجل جب اپنے بندے کی مغفرت کرنا چاہتا ہے ، تو اس کے فرائض کو اس کے نوافل سے پورا فرما دیتا ہے اور یہ اس کا ذاتی فضل ہے ۔ وہ جس پر رحم کر کے اسے عذاب سے بچانا چاہے اس کے ساتھ یہ فضل فرماتا ہے۔
(📕فتح الباری لابن رجب، جلد٥، صفحہ١٤٥, مكتبۃالغرباءالأثریۃ، المدینۃ المنورۃ)
مزید یہ کہ اگر قضائے فوائت کی سعی کی تو مولیٰ کے کرم سے امید ہے کہ ما بقیہ کی تکمیل نوافل سے ہوگی ، لیکن اگر قضائے فوائت کے لئے کوشاں نہ رہا تو اب مرضئ مولی اور اس کی رحمتِ خاصہ جو "لمن یشاء" سے ظاہر ہے اس پر منحصر ہوں گے نوافل ، اگر چاہے قبول فرمالے گا ورنہ عذاب دے گا قضائے فوائت پر ، لھذا صورت مسئولہ میں مذکور مقبولیت کی روایات موول ہیں ، علی وجہ الاطلاق مقبولیت مراد نہیں،
🔸ھٰذا ماظہرلی وھو عند ربی الحقیقی واللہ سبحٰنہ تعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم و احکم🔸
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــہ:
حضرت مولانا محمد منظر رضا نوری اکرمی نعیمی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دارالعلوم رضویہ قادریہ سمستپورا مشرکھ چھپرہ بہار۔
+919108131135
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: خلیفئہ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: حضرت مفتی عبدالمالک صاحب قبلہ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں