استاذ العلماء مولانا عبدالصمد مقتدری رحمۃ اللّٰه علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️استاذ العلماء مولانا عبدالصمد مقتدری رحمۃ اللّٰه علیہ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: مولانا عبدالصمد۔
لقب: مقتدری۔
والد کااسم گرامی: مولانا غلام حامد۔آپ کا تعلق بدایوں کے مشہور خاندان حمیدی سے تعلق ہے۔

ولادت: آپ کی ولادت باسعادت "بدایوں شریف " میں ہوئی۔

تحصیل علم: مدرسہ عالیہ قادریہ دارالعلوم شمس العلوم بدایوں میں مولانا محب احمد قادری، مولانا مفتی حافظ بخش بدایونی و دیگر اساتذہ سے علوم متداولہ میں فراغت حاصل کرنے کے بعد الہ آبا دیونیوسٹی سے "مولوی فاضل" کی ڈگری حاصل کی۔

بیعت و خلافت: حضرت علامہ مولانا عبدالمقتدر بدایونی قدس سرہ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں 1334ھ بمطابق 1915ء کو بیعت کی اور حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی قدس سرہ سے 31 مارچ 1963ء کو اجازت و خلافت پائی۔

سیرت و خصائص: استاذالعلماء، زبدۃ الاتقیاء حضرت علامہ مولانا عبدالصمد مقتدری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ نے ایک مجاہدانہ زندگی بسرکی۔ اس وقت آزادی کی تحریک کے آوازے بلند ہو رہے تھے۔ پورے ہندوستان میں جلسے جلوس، اور اخبار، کتب، میگزین پمفلٹ کے ذریعے ہر گروہ اپنے اپنے نظریات کی ترویج میں مصروفِ عمل تھا۔ آپ کے پیرومرشدحضرت علامہ مولانا عبدالمقتدر بدایونی علیہ الرحمہ ایک الگ ریاست جس میں مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں کے حامی تھے، اور یہ ریاست ایسے علاقوں پر مشتمل ہو جہاں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں۔ مولانا نے 1900ء کے اوائل میں ایسے اضلاع کی نشاندہی اور ان کا نقشہ جاری کر دیا تھا۔ اتفاق دیکھئے! کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں علاقوں پرمشتمل تھا جس کی نشاندہی علامہ کر چکے تھے۔
بحوالہ.. (The Struggle for Pakistan,by,Dr,Ishtiaq Hussain quraishi)

مولانا عبدالصمد اور مولانا عبدالماجد بدایونی علیہم الرحمہ حضرت مولانا عبدالمقتدر بدایونی علیہ الرحمہ کےتربیت یافتہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کاتحریک پاکستان میں ایک اہم کردار ہے۔ آپ نے اپنی مذہبی مصروفیات کے باوجود برصغیر کی ہر مسلم مفاد تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ تحریک خلافت، شدھی تحریک اور تحریک پاکستان میں حضرت مولانا عبدالماجد بدایونی علیہ الرحمۃ کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور انہی سے ہی سیاست کے رموز و نکات سیکھے۔

جب جمعیت علماء ہند اپنے نصب العین سے ہٹ کر کانگریس کی بچہ جمہورا بن گئی تو آپ نے علماء حق کے ساتھ مل کر "جمعیت علماء ہند کانپور" کی بنیاد ڈالی۔ صدارت کا سہر آپ ہی کے سر باندھا گیا اور آپ آخروقت تک اس منصب پر فائز رہ کر ملک و قوم کی مقدور بھر خدمت کرتے رہے۔ اس جمعیت کے زیر اہتمام ہر سال سیرت کانفرنسیں بدایوں، کانپور و دیگر شہروں میں منعقد ہوتی رہیں جن میں مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا مطہر الدین، ایڈیٹر اخبار الامان اور مولانا عبدالقیوم کانپوری و دیگر اکابرین شرکت فرما کر کانگریس کے مکرو فریب کو تار تار کرکے مسلم لیگ کے پیغام کو گھر گھر پہنچاتے، الغرض آپ نے اس طرح مذہب و ملت کی جو بے مثال خدمت کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

اسی طرح 1946ء کے الیکشن میں آپ نے بدایوں، بریلی، سنبھل، مرادآباد، اور پیلی بھیت وغیرہ کے علاقوں میں من تن دھن کی بازی لگا کر مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی جہد بلیغ فرمائی۔ مخلصانہ کوششوں کی بدولت ان علاقوں میں 80 فیصد سے زائد مسلم لیگ کو ملے۔ آپ کی ان کوششوں کی بدولت مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم سے کہا تھا: "مقتدری وہ شخص ہےکہ جس کےہاتھ میں پورےصوبےکی "مسلم لیگ "کی زمام ہے"۔
(تحریک پاکستان اور علماء کرام:281)

 14/ اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو دیگر مسلم لیگی لیڈروں کی طرح آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہوگئے ۔ چنانچہ 13/ دسمبر 1947ء کو بچ بچا کر بمع اہل خانہ کراچی تشریف لے آئے۔ ان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس خالق دینا ہال کراچی میں13،14،15دسمبر کو ہورہا تھا چونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا لہٰذا آپ بال بچوں کو بندرگاہ پر ہی چھوڑ کر سیدھے اس اہم اجلاس میں شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں آپ نے نمایاں طور پر حصہ لیا۔ اس کے بعدآپ کو پاکستان مسلم لیگ کا کونسلر منتخب کیا گیا اس کے علاوہ کراچی مسلم لیگ میں آپ کو وہی مقام نصیب ہوا جو بدایوں مسلم لیگ میں تھا۔

صحافت: آپ کو صحافت سے ابتداء سے ہی تعلق خاطر تھا۔ قیام آگرہ کے دران ایک چھاپہ خانہ قائم کرکے ماہنامہ "الھدی" جاری کیا تھا۔ جس میں حکومت پر سخت تنقید کی جاتی تھی اور مسلم لیگ کی دل کھول کر تبلیغ کی جاتی تھی۔ اس سلسلہ میں آپ کو متعدد بار قید و بند کی تکالیف بھی برداشت کرنا پڑیں۔ لیکن آپ کی حق گوئی و بے باکی میں کوئی فرق نہ آیا علی برادران کے حکم پر آگرہ کو اپنا مسکن بنایا اور دو اخبارات "تبلیغ" اور "خلافت" کا اجراء کرکے خلافت کے پیغام کو بر صغیر کے کونے کونے میں پہنچایا۔ کراچی آنے پر بھی  آپ نے روزنامہ "خورشید" اور ماہنامہ "ترجمان" جاری کئے اور اپنی حق گوئی کو مسلسل اپنا مقصد حیات بنائے رکھا۔ آپ نے مفید اور عمدہ کتب بھی تصنیف  فرمائیں، اوراسی طرح علماء اہلسنت کی کتب کی اشاعت بھی فرمائی۔

تاریخِ وصال: آپ کا وصال 15/رجب المرجب 1384ھ، مطابق 20/نومبر 1964ء کو راہیِ جنت ہوئے۔ حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمۃ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میوہ شاہ قبرستان (کراچی) میں سپرد خاک کئے گئے۔

ماخذ و مراجع: تحریک پاکستان اورعلماء کرام۔ انوار علماء اہلسنت سندھ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے