مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرکلامی:کفر بدیہی ہے
(قسط اول)
(۱) مسئلہ تکفیر میں عوام کو بحث وکلام کی اجازت نہیں؟
(۲)عوام کو کس کفر کا حکم علما کے فتویٰ کے بغیر ماننا ہے؟
(۳)کفر کلامی بدیہی ہے تو فقہا کے لیے ناقابل فہم کیسے؟
اس قسم کے سوالوں کے جوابات ان قسط وار مضامین میں مرقوم ہیں۔
کبھی کسی وجہ سے بدیہی امرکسی کو سمجھ میں نہیں آتاہے،اور عدم فہم کے سبب بدیہی میں اختلاف ہوجاتا ہے۔
کبھی ہٹ دھری، تعصب وعناد وغیرہ کے سبب بھی بدیہی میں اختلاف ہوتا ہے،لیکن بدیہی میں اختلاف معتبر نہیں ہوتا۔
اختلاف کرنے والے پر بھی حکم عائد ہوتا ہے۔اسی طرح کفر کلامی میں اختلاف کرنے والے پر بھی حکم کفرعائد ہوتاہے۔
کفرکلامی کفر بدیہی ہے۔جس طرح بدیہی کی متعددقسمیں ہیں۔اسی طرح کفر کلامی کی متعدد قسمیں ہیں۔
امام غزالی قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ کفر کلامی کا مسئلہ فقہا کو سمجھ میں نہ آسکے تو بھی ان کو ماننا ہے۔ یہاں کفرکلامی کی وہ صورت مرادہے جس میں خفا ہو۔
فقہا اور مسئلہ تکفیر کلامی:
مذہب شافعی میں اجماع شرعی میں غیر کافر بدعتی کا لحاظ ہوتا ہے،کافربدعتی کا نہیں۔ اگر فقہا ئے شوافع کوکسی کافر بدعتی کے کفر کا علم نہ ہو سکا اور فقہا نے اس کافربدعتی کے اختلاف کے سبب اجماع کو غیرمنعقد سمجھا تو اس صورت کا حکم بیان کرتے ہوئے امام غزالی نے تحریر فرمایا کہ اگر فقہا کو اس بدعتی کے کفریہ قول کا علم تھا تو فقہا پر لازم تھا کہ اس کفریہ قول کا حکم متکلمین سے دریافت کرتے،اورپھر متکلمین کا فتویٰ ماننا ان پر لازم ہوتا۔
اگر فقہاکواس بدعتی کے غلط قول کی اطلاع ہی نہیں تھی توفقہا عدم علم کے سبب اجماع کو غیر منعقد قرار دینے میں معذور ہوں گے۔
قال الغزالی:(فان قیل:فَلَو تَرَکَ بَعضُ الفقہاء الاجماعَ بِخِلَافِ المبتَدِعِ المُکَفَّرِ اِذَا لَم یَعلَم اَنَّ بدعتہ تُوجِبُ الکُفرَ-وَظَنَّ اَنَّ الاجماع لاینعقد دونہ-فَہَل یُعذَرُ من حیث اَنَّ الفقہاء لایطلعون عَلٰی مَعرفَۃِ مَا یُکَفَّرُ بِہ من التاویلات؟قلنا لِلمَسءَلَۃِ صُورَتَانِ۔
(1)اِحدَاہُمَا اَن یَقُولَ الفقہاء:نحن لَا نَدرِی اَنَّ بدعتہ توجب الکفرَ اَم لَا؟ففی ہذہ الصورۃ لاَ یُعذَرُونَ فِیہِ اِذ یَلزَمُہُم مُرَاجَعَۃُ علماء الاصول،ویجب علی العلماء تعریفُہم،فاذا اَفتوہُم بکُفرِہ فعلیہم التقلید۔
فَاِن لَم یَقنَعہُمُ التَّقلید-فَعَلَیہِمُ السُّوَالُ عن الدلیل،حَتّٰی اذا ذُکِرَ لہم د لیلُہ،فَہِمُوہُ لَامَحَالَۃَ-لِاَنَّ دَلِیلَہٗ قَاطِعٌ،فَاِن لَم یُدرِکہُ فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا، کَمَن لَایُدرِکُ دَلِیلَ صدق الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانہ لَاعُذرَ مَعَ نَصبِ اللّٰہِ تَعَالٰی الاَدِلَّۃَ القَاطِعَۃَ۔
(2)الصورۃ الثانیۃ اَن لَا یکونَ بَلَغَتہُ بِدعَتُہ وَعَقِیدَتُہ فَتَرَکَ الاِجمَاعَ لِمُخَالَفَتِہ فَہُوَ مَعذُورٌ فِی خَطَأِہٖ وَغَیرُ مُوَاخَذٍ بِِہ)
(المستصفٰی من علم الاصول:جلد اول: ص184)
توضیح:امام غزالی نے فر مایا کہ کفرکلامی کی دلیل قطعی ہوتی ہے تو فقہا اسے سمجھ سکتے ہیں۔ بالفرض اگر سمجھ میں نہ آئے تو بھی فقہا کو متکلمین کا فتویٰ تکفیر ماننا فرض ہے،جیسے کسی کو صدق نبوت کی دلیل سمجھ میں نہ آئے توبھی نبی کونبی ماننا فرض ہے۔اسی طرح فقہا کو تکفیرکلامی کا فتویٰ سمجھ میں نہ آئے توبھی ماننا فرض ہے،اسی طرح عوام کوبھی ماننا فرض ہے،خواہ سمجھ میں آئے،یا نہ آئے۔اگر فقہا بھی علم کلام میں اس قدر اہلیت رکھتے ہوں جو تکفیر کلامی کے لیے مشروط ہے تووہ خود ہی کفر کلامی کا فتویٰ دیں گے۔
جب متکلمین کفرکلامی کافتویٰ صادر کردیں تو فقہاکو تقلید لازم ہے۔اگر فقہا اس کی دلیل دریافت کریں تو متکلمین دلیل بیان کریں گے،اور فقہا یقینی طورپراس دلیل کو سمجھ لیں گے،کیوں کہ تکفیرکلامی کی دلیل قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہے۔اس میں کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
بالفرض اگر فقہا کو دلیل تکفیرسمجھ میں نہ آئے تو بھی انہیں فتویٰ تکفیر ماننا لازم ہے۔
امام غزالی قدس سرالقوی کے قول (فَاِن لَم یُدرِکہُ فَلَا یَکُونُ مَعذُورًا)سے بالکل واضح ہو گیا کہ جو کافرکلامی کے کافرکلامی ہونے کے دلائل کونہ سمجھ سکے،وہ معذور نہیں ہے،بلکہ اس کو حکم شرعی ماننا ہوگا۔جیسے کسی کو نبی کی صداقت کی دلیل سمجھ میں نہ آئے تووہ معذور نہیں ہوگا، بلکہ نبی کونہ ماننے کے سبب کافر ہوگا،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دلائل قائم فرمادئیے،یعنی نبی کی نبوت کوثابت کرنے کے واسطے معجزہ ظاہر فرمادیا۔
کفر کلامی بدیہی ہے تو عدم فہم کیسے؟
سوال:جب کفر کلامی بدیہی ہے تو وہ ضرور قابل فہم ہوگا، پھر عدم فہم کیسے ممکن ہے؟
امام احمدرضاقادری سے ایک سوال کیا گیا،جس میں اسماعیل دہلوی، قادیانی،گنگوہی وانبیٹھوی،تھا نوی وغیرہ کے کفریہ اقوال نقل کیے گئے تھے۔
امام احمد رضا قادری نے جواب میں رقم فرمایا:”فاضل سلمہ نے جواقوال ملعونہ ان خبثا سے نقل کیے ہیں،ان سب کا ضلال مبین او راکثر کا کفر وارتداد مہین ہونا خود ضروری فی الدین وبدیہی عند المسلمین“۔(فتاویٰ رضویہ جلدششم:ص 89-رضا اکیڈمی ممبئ)
جب اشخاص اربعہ اور قادیانی وغیرہ کی عبارتیں کفری معنی میں بدیہی ہیں تو اس کی فہم میں کسی کومشکل کیوں درپیش ہوسکتی ہے؟
اگر مشکل در پیش ہوتووہ بدیہی کیسے ہوسکتا ہے؟
جواب:متعدد اسباب کی بنیاد پر بدیہی میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہ اختلاف ناقابل قبول ہوتا ہے۔اس اختلاف کے باوجود مخالف پر شرعی حکم عائد ہوتا ہے۔کم عقلی، عناد اور تعصب و ہٹ دھر می کے سبب یہ اختلاف ہوتا ہے۔ایسے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔
بدیہی میں اختلاف کا سبب:
علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا:(الضروری قد یقع فیہ خلاف-اما لعناد او لقصور فی الادراک-فان العقول متفاوتۃ بحسب الفطرۃ باتفاق من العقلاء)(شرح عقائد نسفیہ ص 41-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:بدیہی امور میں بھی کبھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کا دو سبب علامہ تفتازانی نے بیان فرمایا: (الف) عناد کے سبب اختلاف (ب)کم عقلی اور قصورفہم کے سبب اختلاف۔
بدیہیات میں اختلاف اورتفاوت کے اسباب:
علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا:(فان قیل:الضروریات لا یقع فیہا التفاوت والاختلاف-ونحن نجد العلم بکون الواحد نصف الاثنین اقوٰی من العلم بوجود اسکندر-والمتواتر قد انکرت افادتہ العلم جماعۃ من العقلاء کالسمنیۃ والبراہمۃ۔
قلنا:ہذا ممنوع-بل قد یتفاوت انواع الضروری بواسطۃ التفاوت فی الالف والعادۃ والممارسۃ والاخطار بالبال وتصورات اطراف الاحکام -وقد یختلف فیہ مکابرۃ وعنادًا کالسوفسطائیۃ فی جمیع الضروریات)
(شرح عقائد نسفیہ ص 36-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:خبرمتواتر کے علم یقینی کے افادہ کرنے میں سمنیہ اوربراہمہ کا اختلاف ہے،لیکن یہ اختلاف غیر معتبر ہے۔اس اختلاف کا سبب ہٹ دھرمی اور تعصب وعنادہے۔
بھارت کے برہمن اور گجرات کے سومناتھ مندر کے پجاری خبرمتواتر کے ذریعہ حصول یقین کا انکار کرتے تھے۔دراصل خبر متواتر سے یقین بدیہی حاصل ہوتا ہے اور منکرین کا انکار کے غلط اغراض ومقاصدپرمبنی ہے۔اس سے بدیہی کی بداہت زائل نہیں ہوتی۔
بدیہی کی تمام قسمیں بدیہی ہوتی ہیں،لیکن بعض بدیہیات بعض اسباب کی بنا پربعض افرادکے لیے زیادہ واضح ہوتی ہیں اور بعض دوسروں کے لیے کم واضح،پھرخفادور ہو جاتا ہے اور تمام بدیہی مساوی ہوجاتے ہیں۔خفا کے اسباب درج ذیل ہیں۔
(1)الفت وانسیت کے سبب بدیہی میں اختلاف:غیرمانوس کی بہ نسبت مانوس زیادہ واضح ہوتا ہے،لیکن الفت وانسیت کے بعدمانوس وغیرمانوس مساوی ہوجاتے ہیں۔
(2)عادت وممارست کے سبب بدیہی میں اختلاف: جو چیز ہماری عادت واستعمال اور ہمارے تجربے میں ہو، وہ زیادہ واضح ہوتی ہے۔ممارست کے بعد استعمالی وغیر استعمالی، تجربہ کے بعدمجرب وغیر مجرب،عادت کے بعد عادی وغیرعادی سب برابر ہوجاتے ہیں۔
(3)استحضارذہنی اورقلبی تخیلات کے سبب بدیہی میں اختلاف:جو ذہن میں مستحضر رہے اور جس جانب دل لگا رہے،وہ زیادہ واضح ہوتا ہے۔امردیگر بھی استحضار ذہنی اور قلب میں اس کے بار بار تخیل کے سبب امر سابق کی طرح ہوجاتا ہے۔
(4)محکوم علیہ اورمحکوم بہ میں اختلاف کے سبب بدیہی میں اختلاف: کبھی محکوم علیہ ومحکوم بہ بدیہی ہوتے ہیں،جیسے پانچ دس کا نصف ہے اورکبھی محکوم علیہ ومحکوم بہ نظری ہوتے ہیں،جیسے واجب الوجودعرض نہیں ہے،لیکن محکوم علیہ ومحکوم بہ کے علم کے بعد حکم میں کوئی تفاوت محسوس نہیں ہوتا،بلکہ سب بدیہی یکساں ہوجاتے ہیں۔
بدیہیات میں تفاوت کے اسبا ب مذکور ہوئے،اور بدیہی میں اختلاف کم عقلی،تعصب، عناد وہٹ دھرمی کے سبب ہوتا ہے۔ ایسا اختلاف معتبر نہیں۔حکم شرعی وارد ہوگا۔
تمام بدیہیات میں سوفسطائیہ کااختلاف:
علامہ سعدالدین تفتازانی نے رقم فرمایا:((حقائق الاشیاء ثابتۃ-والعلم بہا متحقق خلافًا للسوفسطائیۃ)فان منہم:من ینکر حقائق الاشیاء-ویزعم انہا اوہام وخیالات باطلۃ وہم العنادیۃ-ومنہم:من ینکر ثبوتہا ویزعم انہا تابعۃ للاعتقاد حتی ان اعتقدنا الشیء جوہرًا فجوہر-اوعرضًا فعرض-او قدیما فقدیم-او حادثًا فحادث،وہم العندیۃ-ومنہم:من ینکر العلم بثبوت شیء ولا ثبوتہ ویزعم انہ شاک،وشاک فی انہ شاک-وہلم جرًّا-وہم اللاادریۃ)(شرح عقائد نسفیہ ص 31-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:فرقہ سوفسطائیہ تمام بدیہیات وموجودات کا انکار کرتا ہے،حتی کہ وہ لوگ اپنے وجود کا بھی انکار کرتے ہیں۔یہ ان کی حماقت اور ہٹ دھرمی ہے۔فرقہ سوفسطائیہ کے متعدد طبقات ہیں،مثلاً عنادیہ،عندیہ،لاادریہ۔ دیابنہ بھی فرقہ سوفسطائیہ کا ایک طبقہ ہے جو اپنے اکابرین کی کفری معنی میں مفسر عبارتوں کو مفسرنہیں مانتے،اورحقیقت ثابتہ کا انکار کرتے ہیں۔
بعض سوفسطائیہ اشیائے موجود ہ کوموجود ہی نہیں مانتے۔وہ کہتے ہیں کہ اشیا موجود نہیں،بلکہ یہ اوہام وخیالات ہیں۔یہ فرقہ عنادیہ ہے۔
بعض سوفسطائی اشیائے موجودہ کے وجود وثبوت کا انکار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ سب کچھ اعتقاد کے تابع ہے۔
اگر ہم نے کسی کو جوہرمان لیا تووہ جوہر ہے،اور عرض مانا تووہ عرض ہے۔ یہ فرقہ عندیہ ہے۔
بعض سوفسطائیہ اشیائے موجودہ کے وجود وعدم وجود میں شک کرتے ہیں،اور اس میں بھی انہیں شک ہے کہ وہ شک میں مبتلا ہیں۔یہ فرقہ لاادریہ ہے۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا کہ ان کے ساتھ بحث ومناظرہ کی راہ نہیں۔ان کو سمجھا نے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کوآگ میں ڈال دیا جائے۔جب آگ ان کوجلائے گی اوروہ تڑپیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ آگ جلانے والی چیز ہے اور اشیا کا حقیقی وجود ہے۔ وہ دلائل سے کچھ ماننے والے نہیں۔اسی طرح دیوبندیوں کوسمجھانے کی کوئی راہ نہیں۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(والحق انہ لا طریق الی المناظرۃ معہم خصوصًا مع اللا ادریۃ-لانہم لا یعترفون بمعلوم لیثبت بہ مجہول،بل الطریق تعذیبہم بالنار لیعترفوا او یحترقوا)
(شرح عقائد نسفیہ ص 31-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:جوحال سوفسطائیہ کا ہے،وہی حال دیابنہ کا ہے۔
دیوبندی لو گ حقائق سے آشنا ہوکر بھی چشم پوشی اور انکار کرتے ہیں۔کفر بدیہی کو ان لوگوں نے تعصب وہٹ دھرمی کے سبب نظر ی بنالیا ہے اور توبہ کی بجائے ضد وعناد میں مبتلا ہیں۔ الحاصل بدیہی میں حقیقی اختلاف نہیں ہوتا اور ضدوعناد وتعصب وہٹ دھر می کے سبب حکم شرعی اٹھ نہیں سکتا۔
فقہا کی عدم فہم کا سبب کیا؟
سوال:امام غزالی قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا کہ اگر تکفیر کلامی کا مسئلہ فقہا کوبھی نہ سمجھ میں آسکے توبھی وہ متکلمین کے بیان کردہ حکم کو تسلیم کریں تو فقہا کی عدم فہم کا سبب کیا ہے؟
جواب:اس کے متعددجوابات ہیں:(۱)بطورفرض وتقدیریہ بات کہی گئی کہ اگر متکلمین کا بیان کردہ حکم فقہا کو نہ بھی سمجھ میں آئے تو بھی انہیں تسلیم کرنے کا حکم ہے۔
(۲)عدم ممارست اور کسی علم وفن کے اصول وقوانین سے نا آشنائی کے سبب کوئی بات فہم سے بالاتر ہوجانا ممکن ہے۔ یہاں ان فقہا کا ذکر ہے جوعلم کلام سے نا آشنا ہوں۔
علامہ سعدالدین تفتازانی شافعی نے رقم فرمایا:
(قد یتفاوت انواع الضروری بواسطۃ التفاوت فی الالف والعادۃ والممارسۃ والاخطار بالبال وتصورات اطراف الاحکام-وقد یختلف فیہ مکابرۃ وعنادًا کالسوفسطائیۃ فی جمیع الضروریات)
(شرح عقائد نسفیہ ص 36-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:گرچہ کفر کلامی بدیہی ہوتاہے،لیکن فقہا کو نہ علم کلام سے انسیت ہوتی ہے،نہ اس کے اصول وضوابط کی ممارست اور مشق ومزاولت۔اس سبب سے امکان ہے کہ فقہا تکفیر کلامی کی باریکیوں سے نا آشنا رہ جائیں:(لکل علم رجال-وکل میسر لما خلق لہ)
(۳)بدیہی کی دوقسمیں ہیں:بدیہی کسبی وبدیہی غیر کسبی۔ بدیہی کسبی کی دوقسمیں ہیں۔بدیہی اولی اور بدیہی غیر اولی۔بدیہی اولی میں عقل کی توجہ درکار ہے۔
بدیہی غیرکسبی، مثلاً برف پر ہاتھ رکھتے ہی یقین ہوجائے گا کہ یہ ٹھنڈا ہے۔بدیہی اولی میں عقل کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے،جیسے کل جزسے بڑا ہوتا ہے۔بدیہی غیر اولی میں تنبیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
کبھی بدیہی اولی میں بھی بعض کے لیے خفا لاحق ہوجاتا ہے۔کل جز سے بڑا ہوتا ہے۔یہ بدیہی اولی ہے،لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ لنگورکی دم لنگورسے بڑی ہوتی ہے۔وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ لنگور کے جسم میں اس کی دم بھی شامل ہے۔کل سے مراد لنگور کا مکمل جسم ہے۔اگر جسم ایک میٹر ہے اور دم دومیٹر ہے تو ا س کے جسم کی کل لمبائی تین میٹر ہے۔اب اس کی دم صرف دو میٹر ہے تو لنگورکی دم لنگور کے جسم سے بڑی نہیں ہوسکی۔
کفر کلامی کفر بدیہی ہے،لیکن بد یہی کی متعددقسمیں ہیں۔
بدیہی غیر اولی میں خفا کے سبب وہ بدیہی اول توجہ سے معلوم نہیں ہوتا،بلکہ اس کے خفا کودورکرنے کے واسطے تنبیہ پیش کی جاتی ہے۔اسی طرح کفرکلامی بدیہی غیر اولی ہو،اور متکلمین جو تنبیہ پیش کریں،فقہا اسے سمجھ نہ سکیں تو یہ کوئی بعید نہیں،کیوں کہ علم فقہ ایک الگ فن ہے اور علم کلام الگ فن ہے۔
قسط دوم میں بدیہی کی مختلف قسموں کا بیان ہے اور قسط سوم میں یہ وضاحت ہے کہ کس کفر کلامی میں عوام کو علما کے فتویٰ کی ضرورت نہیں اورعلما کے فتویٰ دئیے بغیر کافر کلامی کوکافر ماننے کا حکم ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:28:فروری 2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں