🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯
-----------------------------------------------------------
📚قبرستان کو مسمار کرکے جنازہ گاہ بنانا کیسا؟📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
سوال ............:
150 سال پرانا قبرستان ہے، اس میں کچھ قبرستان ختم ہو گیا ہے اور کچھ باقی ہے اور کچھ لوگ وہاں گندگی کی ڈھیری بھی لگا رہے ہیں، سوال یہ کرنا تھا کہ کیا ایسے قبرستان کو مسمار کر کے جنازہ گاہ بنا سکتے ہیں ؟
سائل : محمد ھاشم عطاری مندہ خیل
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
قبرستان کو مسمار کر کے اس پر جنازہ گاہ بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ قبرستان وقف ہے اور اس کی جگہ جنازہ گاہ بنانا، وقف کو تبدیل کرنا ہے اور وقف میں تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"و لایجوز تغییر الوقف عن ھیئتہ"
یعنی اور وقف کو اس کی حالت سے بدلنا جائز نہیں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 2، صفحہ 490 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین حنفی دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"الواجب ابقاء الوقف علی ما کان علیہ"
یعنی وقف کو اسی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے جس پر وہ پہلے ہو۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 3، صفحہ 427 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
قبرستان ختم کرکے اس جگہ پر جنازہ گاہ بنانا تو کجا شریعتِ مطہرہ نے تو میت کے مٹی ہو جانے کے بعد بھی قبرستان کے طور پر اس جگہ کسی دوسری میت کو بلاضرورت دفنانے کی اجازت نہیں دی۔
چنانچہ فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :
"إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، و يوجد موضع فارغ يكره ذلك"
یعنی اگر میت بالکل خاک ہو جائے، جب بھی اس کی قبر میں دوسرے کو دفن کرنا ممنوع ہے کہ حرمت اب بھی باقی ہے اور اگر مزاراتِ صالحین کے قرب کی برکت حاصل کرنے کی غرض سے ان کی ہڈیاں ایک کنارے جمع کر دیں تو اب بھی ممنوع ہے کہ فارغ جگہ دفن کو مل سکتی ہے۔
(فتاوی تاتارخانیہ، کتاب الجنائز، باب القبر و الدفن، جلد 3، صفحہ 75، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"و سئل ھو (القاضی الامام شمس الائمۃ محمود الاوزجندی) عن المقبرۃ فی القری اذا اندرست ولم یبق فیھا اثر الموتی لا العظم و لا غیرہ ھل یجوز زرعھا قابل و استغلالھا، قال لا و لھا حکم المقبرۃ کذا فی المحیط، فلو کان فیھا حشیش یحش و یرسل الی الدوابّ و لاترسل الدواب فیھا کذا فی البحر الرائق"
یعنی شمس الائمہ محمود اوزجندی سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ جب دیہات میں کوئی قبرستان مٹ جائے اور اس میں مردوں کا کوئی نشان باقی نہ رہے اور نہ ان کی ہڈیاں اور کوئی چیز باقی رہے تو کیا اس قبرستان پر کھیتی باڑی کرنا اور اسے پیدا واری کاموں میں استعمال کرنا جائز ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جائز نہیں ہے اور قبرستان کے لیے (اب بھی پہلے والے) مقبرے کا حکم ہے، ایسے ہی "المحیط" میں ہے۔ پس اگر قبرستان میں گھاس لگی ہو تو اسے کاٹ کر جانوروں کو ڈال دیا جائے، اس میں جانوروں کو نہیں چھوڑا جائے گا، ایسے ہی "البحرالرائق" میں ہے۔
(فتاوی عالمگیری، کتاب الوقف، الباب الثانی عشر فی الرباطات و المقابر۔۔۔ الخ، جلد 2، صفحہ 470، 471، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال کیا گیا، جس. کا خلاصہ یہ ہے کہ جس قبرستان میں کثرت سے تدفین ہونے کے باعث اس قدر قبریں ہوں کہ جو جگہ کھودیں، وہاں سے ہڈیاں نکلیں تو کیا اس صورت میں وہاں کسی کو دفن کرنا جائز ہے ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے جواباً تحریر فرمایا :
"اس قبرستان میں دفن کرنا محض ناجائز و حرام ہے۔"
(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 386، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مزید ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"میت اگرچہ خاک ہوگیا ہو، بلاضرورت شدید اس کی قبر کھود کر دوسرے کا دفن کرنا جائز نہیں۔"
(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 390، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مسلمانوں کا قبرستان ہے جس میں قبر کے نشان بھی مٹ چکے ہیں، ہڈیوں کا بھی پتہ نہیں جب بھی اس کو کھیت بنانا یا اس میں مکان بنانا ناجائز ہے اور اب بھی وہ قبرستان ہی ہے، قبرستان کے تمام آداب بجا لائے جائیں۔"
(بہارشریعت، جلد 2، حصہ 10، صفحہ 566، مکتبۃ المدینہ کراچی)
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"لیکن جب دوسرا قبرستان موجود ہے، اس میں جگہ بھی موجود ہو، اگرچہ دور ہو تو وہیں دفن کیا جائے گا۔"
(وقارالفتاویٰ، جلد 2، صفحہ 376، ناشر بزم وقارالدین کراچی)
نیز قبروں کو مسمار کرکے اس پر جنازہ گاہ بنانے میں میت کی شدید توہین بھی ہے بلکہ حدیث شریف میں قبر پر بیٹھنے اور اس پر پاؤں رکھنے سے بھی منع فرمایا ہے کہ اس سے میت کو تکلیف پہنچانا ہے اور قبروں کو کھودنا تو اس سے بڑھ کر سخت ہے کیونکہ قبر اگرچہ بہت پرانی ہو بلکہ خاک ہو چکی ہو تب بھی میت کی عزت و تکریم باقی رہتی ہے۔
چنانچہ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"رآنی رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جالسا علی قبر فقال انزل من القبر لاتؤذی صاحب القبر"
یعنی مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا : قبر سے اترجاؤ، قبر والے کو تکلیف مت دو۔
(مسند امام احمد بن حنبل، مسند عمارہ بن حزم، جلد 39، صفحہ 475، مطبوعہ بیروت)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️ کتبـــه: ابواسید عبید رضا مدنی
03068209672
✅تصدیق و تصحیح :
1- الجواب صحيح: فقط محمد عطاء اللّٰه النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
✅ 2- الجواب صحیح والمجیب مصیب عندی والعلم عنداللہ تعالیٰ وعلمہ جل مجدہ و احکم:مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔
📬 تصدیق نامہ :
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "المیت یوذیہ فی قبرہ ما یوذیہ فی بیتہ"
ترجمہ : میت کو جس بات سے زندگی میں گھر کے اندر تکلیف ہوتی تھی، اس بات سے قبر میں بھی مرنے کے بعد تکلیف پہنچتی ہے۔
(الفردوس)
نیز نبوی فرمان ہے :
"ان کسر عظم المیت ککسرہ حیاً"
ترجمہ : بیشک مردہ مسلمان کی ہڈی توڑنی ایسی ہے جیسے زندہ مسلمان کی ہڈی توڑنی۔
(سنن ابی داؤد)
ان حدیثوں سے اور ان کے علاوہ اوپر والے شرعی فتوے میں موجود تمام حدیثوں اور فقہاء کے قولوں سے ثابت ہوا کہ قبرِ مسلم پر بیٹھنا یا پاؤں رکھنا بلکہ اس سے محض تکیہ لگانا بھی تکلیف کا باعث ہے، اور مردہ مسلمان کو ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے زندہ کو، اب جب قبرستان کو مسمار کریں گے تو جو بھی ہڈی زدہ ہے، بڑی اذیت اور کتنی بڑی بے حرمتی اور اسلام کا مذاق اور ورثاء مرحومین کی دل آزاری اور جگ ہنسائی کا سبب ہوگا، لہٰذا حرام، حرام، اشد حرام ہے، ہر حال میں اسے قبرستان ہی رہنے دیا جائے، اسے مسجد یا مدرسہ یا جنازہ گاہ نہ بنایا جائے۔
ھذاماظھرلی والحق عندربی
✍️کتبــه: ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر القادری
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں