کیا وتر میں اذااجاء ، تبت یداء اور سورہ اخلاص ہی پڑھنا ضروری ہے؟

کیا وتر میں اذااجاء ، تبت یداء اور سورہ اخلاص ہی پڑھنا ضروری ہے؟

*ازقلم* 
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ* 

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کی زید نے وتر کی نماز پڑھائی جس میں انہوں نے پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون پڑھا اور پھر دوسری رکعت میں سورۃ فلق پڑھا اور تیسری رکعت میں سورہ ناس پڑھا ۔ اس پر بکر نے کہا کہ نماز نہ ہوئی نماز دوبارہ پڑھائی جائے اس لیے کہ پہلی رکعت میں اذاجاء اوردوسری میں تبت یداء اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھنا ضروری ہے  ۔ 
اب سوال یہ ہے کہ زید نے جس طریقے سے نماز پڑھایا ہے اس اس طرح سے نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟ 
اگر ہوجاتی ہے تو پھر بکر کا کہنا کیسا ہے ؟ 
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔

*المستفتیان*
مولانا علاء الدین 
قاری صادق حسین۔

*الجواب بعون الملک الوھاب* 
سوال میں مذکور زید نے جس طریقے سے نماز پڑھائی تھی وہ نماز بلا شک و شبہ صحیح و درست تھی ۔اوربکر کا ایسا کہنا کہ "وتر کی  پہلی رکعت میں اذا جاء اور دوسری رکعت میں تبت یدا اور تیسری رکعت میں قل ھواللہ احد  پڑھنا ضروری ہے"ایسا کہنا بالکل غلط اور باطل ہے اور یہ اس کی نادانی اور جہالت پر مبنی ہے ۔ 

وتر کی تینوں رکعتوں میں مطلقا قرات فرض ہے ہر ایک میں بعد فاتحہ سورت ملانا واجب اور بہتر یہ کہ پہلی سبح اسم ربک الاعلی یا اناانزلناہ دوسری میں قل یایھالکافرون تیسری قل ھواللہ احد پڑھے *اور کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھ لے*(بہارشریعت حصہ چہارم) 
اور قانون شریعت میں لکھا ہے کہ وتر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھی اور دوسری میں قل یایھا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی۔
 *لہذا کبھی تبرکاانہیں پڑھےاور کبھی پہلی رکعت میں سبح اسم  کے بجائے انا انزلناہ پڑھے*۔  (قانون شریعت اول)  

ابو داود اور ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم *وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھتے*۔  (ترمذی شریف ، ابوداود شریف) 

اور طحاوی شریف میں ایک روایت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یوں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم *وتر کی پہلی رکعت میں سورہ قدروسورہ زلزال  اور دوسری رکعت میں سورۃ عصر وکوثر ونصر اور تیسری میں سورۃ کافرون ولھب  واخلاص پڑھا کرتے تھے* (طحاوی شریف)  


فتاوی رضویہ میں ہے کہ 
*وتر میں اخیر  رکعت میں قل ھواللہ احد شریف پڑھنا ماثور ہے مگر ضرور نہیں جو چاہے پڑھے بہتر یہ ہے کہ پہلی میں سبح اسم ربک الاعلی یا اناانزلناہ اور دوسری میں کافرون تیسری میں اخلاص*
(رضویہ جلد سوم ص:  ۴٧٢) 

اور اسی میں ہے کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ 
یہ کچھ قید ہے کہ نماز وتر کی تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورہ اخلاص ہی ضم ہو دوسری سورت نہ ہو۔ ؟ 
 تو آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں 
*کوئی قید نہیں اختیار ہے جوسورہ چاہے پڑھے یا چھوٹی آیتیں یا بڑی ایک آیت*( رضویہ جلد سوم ۴٨٨) 

ان ساری عبارتوں سے یہ بات خوب واضح ہوگئی کہ  وتر کی نماز کی پہلی رکعت میں اذا جاء اور دوسری رکعت میں تبت یدا اور تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھنا کوئی ضروری بھی نہیں ہے اور بمطابق مسنون بھی نہیں لہذا جو سورہ چاہے پڑھے نماز ہوجائے گی ۔
*البتہ بہتر ومستحسن یہ کہ وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یایھالکافرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی جائےمگر اسے دائمی معمول بنالینا بھی مناسب نہیں کبھی اس کے خلاف بھی کرلینا چاہیے اس لیے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس پر مداومت نہ فرمائی ۔لہذا ہمیشہ مخصوص سورتیں نہیں پڑھنی چاہیے*۔ فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم 
*کتبہ* 
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*
خادم الافتاء و الحدیث وشیخ الجامعہ 
اشرفی نقشبندی دار الافتاء 
جامعہ فاطمة الزھراء للبنات 
بائیس پھلیا سلواس دادرا نگر حویلی ۔
٦/ رمضان المبارک ١۴۴٢۔ 
١٩/  اپریل ٢٠٢١بروز سوموار۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے