📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️عہد نبویﷺ میں عید🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ حقیقی عید تو انہی خوش نصیب لوگوں کو ملے گی جنہوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینہ میں روزے رکھے ، قرآن مجید پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔ سحری و افطاری کے وقت ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ’’اعتکاف‘‘ میں بھی بیٹھے اور ’’شبِ قدر‘‘ جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پایا۔ عید کا تہوار ہمیں خدا پرستی، الفت و محبت، ہمدردی، خیر خواہی اور بھائی چارے کی پاکیزہ روح سے منور کرنا چاہتا ہے اور یہ خدا کا بڑا ہی فضل ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں عید منانے کے اسی طریقے پر عمل پیرا ہیں جس کا حکم پیغمبر اسلام مصطفیٰ جانِ رحمت صلی ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے دیا تھا، تمام مسلمان عید کی صبح عید گاہ اور مساجد میں اکھٹے ہوکر ﷲ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں خطبۂ عید سنتے ہیں اور اجتماعی دعا کے بعد ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں اور پھر سارا دن مہمانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ طرح طرح کے پکوان پکائے جاتے ہیں اور مہمانوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ رسول کریمﷺ کے عہد میں جس طرح عید منائی جاتی تھی اس کی ایک مختصر جھلک یہاں ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
امام الانبیاء مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ یہاں پر آپﷺ نے دیکھا کہ اہلِ مدینہ دو تہوار مناتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی۔ انصار نے جواب دیا کہ ہم ان دنوں کو مدتِ قدیم سے بس اسی طرح مناتے چلے آرہے ہیں اس پر آقائے دوجہاںﷺ نے فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی۔روایتوں میں ملتا ہے کہ حضورِ اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عید الفطر کے روز اہلِ ایمان صبح سویرے گھروں سے نکلتے ، حکم تھا کہ عورت، مرد بچے، سب نکلیں تاکہ مسلمانوں کی کثرت اور ان کی شان کا اظہار ہو اور اجتماعی دعا میں بھی سب لوگ ایک ساتھ شریک ہوں اور اس اجتماعی خوشی میں بھی سب لوگوں کی اجتماعی طور پر شرکت ہو۔چنانچہ عید کی نماز مسجد کے بجائے بستی سے باہر میدان میں ہوتی تھی تاکہ بڑے سے بڑا اجتماع ہو۔ مسلمان نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔ ﷲ اکبر، ﷲ اکبر ، لاالہ الا ﷲ، وﷲ اکبر، ﷲاکبر، وللّٰه الحمد۔ ہر جگہ ہر مقام اور ہر بازار اور ہر سڑک پرانہی صدائوں کی بازِ گشت ہوتی تھی۔
اس کے علاوہ دل کھول کر خیرات کی جاتی تاکہ عید خوش حال ہی لوگوں کا تہوار بن کر نہ رہ جائے بلکہ غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں ساتھ شریک کیا جائے۔ عید گاہ میں جب تمام لوگ جمع ہوجاتے تو سورج نکلنے کے بعد کچھ دیر تمام لوگ صفیں سیدھی کرتے اور پھر سارا مجمع دو رکعت نماز واجب ادا کرتا، ﷲ کے پیارے اور آخری رسول مصطفیٰ جانِ رحمت صلی ﷲ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے ہی خطبۂ عید ارشاد فرماتے، اس خطبے میں تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کے علاوہ ان تمام مسائل پر بھی آپ روشنی ڈالتے جو اس وقت اُمت کو درپیش ہوتے تھے۔ کوئی فوجی یا سیاسی مہم درپیش ہوتی تو اس کا بھی انتظام کیا جاتا اور اگر اجتماعی معاملات میں کوئی ضرورت ہوتی تو آپ اس طرف بھی توجہ فرمایا کرتے تھے اور پھر ہرشخص اس کو پورا کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔پھر جب یہ مجمع عید گاہ سے پلٹتا تو حکم یہ تھا کہ جس راستے سے آئے ہو اس کے علاوہ دوسرے راستے سے گھروں کو واپس جاؤ تاکہ بستی کا کوئی حصہ خدا کی کبریائی کی گونج سے خالی نہ رہ جائے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عید الفطر کی صبح غسل فرما کر عمدہ لباس زیب تن فرماتے، حضور پاکﷺ کی یہ بھی عادتِ مبارکہ تھی کہ عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور ان کی تعداد طاق ہوتی یعنی تین ، پانچ ، سات وغیرہ۔حضورﷺ عید کی نمازِ عید گاہ (میدان ) میں ادا فرماتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو بکثرت تکبیر سے مزید کرو۔ حضورﷺ عید گاہ جاتے ہوئے سواری استعمال نہ فرماتے بلکہ پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ عید الفطر کا دن دوسروں کے دکھ ، درد اور تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
ایک مرتبہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، صحابہ کرام رضوان ﷲ علہیم اجمعین کے علاوہ آپ کے دونوں نواسے سیدنا امام حسن مجتبیٰ اور سیدنا امام حسین شہزادۂ گلگوں قبا رضی اللہ عنہم بھی ہمراہ تھے۔ دفعتاً نظرِ رحمت ایک ایسے بچے پر پڑی جو والدین کے سایۂ شفقت سے محروم تھا اور بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھا اور آنکھوں میں آنسو لیے حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ رحمت جب اس بچے پر پڑی تو بچے کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی مانند گرنے لگے۔ آپ نے اپنی بابرکت چادرِ مبارک سے اس بچے کے آنسو پونچھے اور اس کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے کر کاشانۂ نبوت پر تشریف لائے اور اس بچے کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا اور فرمایا کہ اس کو نہلاکر اچھے اور نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ پھر جب تک وہ بچہ تیار ہوتا رہا آپﷺ محوِ انتظار رہے اور پھر اس بچے کی اُنگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ عید گاہ لے کر گئے۔ (سیرتِ رسول اعظمﷺ)
آج ہم رسول ﷲﷺ کے امتی اگر اپنا احتساب کریں اور اپنی ذات کو میزانِ عدل میں رکھ کر دیکھیں تو نہ سوچ و بچار کی ضرورت پڑے گی اور نہ غور و فکر کی اور نتیجہ ہمارے سامنے آجائے گا کہ ہمارے آقا و مولاﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا تھا اور آج ہم کس مقام پر جا کھڑے ہوئے ہیں!؟؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍️ ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی مالیگاؤں۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں