حضرت امام علی رضا رضی ﷲ تعالیٰ عنہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت امام علی رضا رضی ﷲ تعالیٰ عنہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: امام علی بن امام موسیٰ کاظم۔
کنیت: ابوالحسن۔
القابات: صابر، ولی ،ذکی، ضامن ،مرتضیٰ اور سب سے مشہور لقب امام علی رضا ہے۔
آپ حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے لختِ جگر اور آئمہ اہل بیت میں آٹھویں امام ہیں۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت امام  علی رضا بن حضرت امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن علی امام زین العابدین بن سید الشہداء امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین )۔
آپ کی والدہ کے ناموں میں اختلاف ہے۔ مثلاً: نجمہ، ارویٰ، شمانہ، ام البنین، استقراء۔ اصح ’’نجمہ‘‘ہے۔
یہ حضرت حمیدہ والدہ محترمہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی کنیز تھیں۔ (بارہ امام:166)

ولادت کی بشارت: ایک رات حضرت حمیدہ نے سرکارِ دو عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو آپ نے فرمایا: اپنی کنیز نجمہ کا نکاح اپنے بیٹے موسیٰ کاظم سے کردو۔ اللہ اس سے ایک ایسا بیٹا دے گا جو روئے زمین کے بہترین انسانوں میں سے ہوگا۔ آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب میں حاملہ ہوئی تو کبھی بھی اپنے شکمِ میں گرانی محسوس نہ کی اور جب میں سوجاتی تو اپنے شکم سے سبحان اللہ، سبحان اللہ کی آواز سنتی جس سے میرے دل میں خوف کا غلبہ طاری ہوجاتا لیکن جب میں بیدار ہوجاتی تو پھر کوئی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔ (خزینۃ الاصفیاء:100/اقتباس الانوار/بارہ امام166)۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 11/ربیع الاول 153ھ کو مدینۃ المنورہ میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ خاندانِ نبوت کے چشم وچراغ اور ان کی علمی وروحانی وراثتوں کے مالک تھے۔ اپنے والد گرامی اور فقہاء ومحدثینِ مدینہ منورہ (زادہا اللہ شرفا وتکریما) سے تمام علوم دینیہ کی تحصیل وتکمیل فرمائی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت ہی ذہین و فطین اور اعلیٰ درجے کے عالم و فاضل تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو رب کریم نے فہمِ قرآن کی عظیم دولت سے ایسا نوازا تھا کہ آپ اکثر سوالات کے جوابات آیاتِ قرآنی سے دیا کرتے تھے۔ آپ اپنے وقت کے عظیم محدث اور فقیہ تھے۔ (جامع کرامات اولیاء:ج2،ص،312)

بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کے آٹھویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔ آپ اپنے والد گرمی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ الرحمہ کے خلیفۂ اعظم اور اپنے وقت کےامامِ  برحق تھے۔شجرہ شریف میں اس طرح منظوم ہے:

صِدقِ صادق کا تصدق صادق ُالاسلام کر
بے غَضَب راضی ہو کاظِم اور رضا کے واسطے

سیرت و خصائص: امام الھدیٰ، منبعِ جود و سخا، جانشینِ مرتضیٰ، وارث  علوم وکمالاتِ مصطفیٰﷺ، لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا، جامع کمالاتِ علمیہ و روحانیہ، عارف اسرار و رموزِ قرآنیہ حضرت امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنھما۔
آپ رضی اللہ عنہ جامع کمالات  اور عظیم اوصاف کے مالک تھے۔اللہ جل شانہ نے آپ کو صوری و معنوی خوبیوں سےبےحساب مالامال کیا تھا۔ پہلی مرتبہ دیکھنے والا ہی محسوس کرلیتا  تھا کہ یہ خاندان نبوت کا چشم و چراغ ہیں۔ جب کسی موضوع پر سخن فرماتے تو علم کے دریا بہاتے، جب مامون کی مجلس میں ایک سوال کیا گیا، قاضیوں کی ایک جماعت جواب نہ دے سکی، جب آپ نےجواب ارشاد فرمایا تو حاضرین و سامعین عش عش کر اٹھے، اور علماء کو آپ کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا علم الیقین ہوگیا، اور خلیفہ مأمون نے آپ کے علمی کمالات دیکھ کر اپنی صاحبزادی کا اسی وقت آپ سے نکاح کردیا۔ (شریف التواریخ)

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخا ں قادری علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: 
امام ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں نقل فرماتے ہیں : جب امام علی رضا رضی ﷲ تعالٰی عنہ نیشاپور میں تشریف لائے، چہرہ مبارک کے سامنے ایک پردہ تھا، حافظانِ حدیث امام ابوذرعہ رازی و امام محمد بن اسلم طوسی اوران کے ساتھ بیشمار طالبانِ علم وحدیث حاضرِ خدمتِ انور ہوئے اور گڑگڑا کر عرض کیا اپنا جمالِ مبارک ہمیں دکھائیےے اور اپنے آبائے کرام سے ایک حدیث ہمارے سامنے روایت فرمائیے، امام نے سواری روکی اور غلاموں کو حکم فرمایا پردہ ہٹالیں خلقِ خدا کی آنکھیں جمال مبارک کے دیدار سے ٹھنڈی ہوئیں۔ د و گیسو شانہ مبارک پر لٹک رہے تھے۔ پردہ ہٹتے ہی خلق خدا کی وہ حالت ہوئی کہ کوئی چلّاتاہے، کوئی روتا ہے، کوئی خاک پر لوٹتا ہے، کوئی سواری مقدس کا سُم چومتا ہے۔ اتنے میں علماء نے آواز دی :خاموش سب لوگ خاموش ہورہے۔
دونوں امام مذکور نے حضور سے کوئی حدیث روایت کرنے کو عرض کی حضور نے فرمایا: حدثنی ابوموسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمدن الباقرعن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین عن ابیہ علی ابن ابی طالب رضی ﷲ تعالٰی عنھم قال حدثنی حبیبی وقرۃ عینی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال حدثنی جبریل قال سمعت رب العزۃ یقول لا الٰہ الاﷲ حصنی فمن قال دخل حصنی امن من عذابی۔ 
یعنی امام علی رضا امام موسٰی کاظم وہ امام جعفر صادق وہ امام محمدباقر وہ امام زین العابدین وہ امام حسین وہ علی المرتضٰی رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے روایت فرماتے ہیں کہ میرے پیارے میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول ﷲ ﷺ نے مجھ سے حدیث بیان فرمائی کہ ان سےجبریل نے عرض کی کہ میں نے ﷲ عزوجل کو فرماتے سنا کہ لا الٰہ الا ﷲ میراقلعہ ہے تو جس نے اسے کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا، میرے عذاب سے امان میں رہا۔یہ حدیث روایت فرماکر حضور امام علی رضا رواں ہوئے اور پردہ چھوڑ دیا گیا، دواتوں والے جو ارشاد مبارک لکھ رہے تھے شمار کئے گئے ، بیس 20ہزار سے زائد تھے۔

امام احمد بن حنبل رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا : 
لو قرأت ھذاالاسناد علی مجنون لبرئ من جننہ۔
یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھوں تو ضرور اسے جنون سے شفا ہوجائے۔
( الصواعق المحرقہ، الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض اہل البیت مطبوعہ مکتبہ مجددیہ ملتان ص ۲۰۵)

اقول فی الواقع جب اسمائے اصحاب کہف قدست اسرارہم میں وُہ برکات ہیں، حالانکہ وُہ اولیائے عیسویین میں سے ہیں تو اولیاء محمدیین صلوات ﷲ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کا کیا کہنا، اُن کے اسمائے کرام کی برکت کیا شمار میں آسکے۔ (فتاویٰ رضویہ: ج9،کتاب الجنائز)

 آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر ماہ اہتمام کے ساتھ تین روزے رکھا کرتے ۔اس قدر عاجزی پسند تھے کہ غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی انفرادی کوشش نے بے شمار کفارکودامنِ اسلام سے وابستہ کیا ۔مشہور بزرگ حضرت سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کی دعوتِ اسلام پر مسلمان ہوئے اور آسمان ولایت کے روشن ستارے بن کر چمکے ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم لدنی ومکاشفات ومغیبات کا خاص علم عطاء فرمایا تھا۔ آپ آئندہ کےرونما ہونے والے واقعات کو پہلے ہی دیکھ اور معلوم کرلیا کرتے تھے۔ اسی طرح جب مامون الرشید نےاپنے بعد آپ کو اپنا ولی عہد منتخب کیا،تو آپ نے اس کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا:
قبول العھدالذی کتبہ علی بن موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما الی المامون انک قد عرفت من حقوقنا ما لم یعرفہ اباؤک فقلبت منک عھدک الا ان الجفر والجامعۃ یدلان علی انہ لایتم۔ 
یعنی مامون رشید نے جب حضرت امام علی رضا بن امام موسٰی کاظم رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے بعد و لیعہد کیا اور خلافت نامہ لکھ دیا امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے قبول میں فرمان بنام مامون رشید تحریر فرمایا اس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے ہمارے حق پہنچانے جو تمہارے باپ دادا نے نہ پہچانے اس لیے میں تمہاری ولی عہدی قبول کرتا ہوں۔ مگر جفر وجامعہ بتارہی ہیں کہ یہ کام پورا نہ ہوگا۔( چنانچہ ایسا ہی ہوا اور امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مامون رشید کی زندگی ہی میں شہادت پائی)۔
(فتاویٰ رضویہ:ج29،کتاب الشتٰی)

تاریخِ وصال: امام علی رضا رحمۃ رضی اللہ عنہ کو انگوروں میں زہر ملا کر دیا گیا جس سے آپ 21/ رمضان المبارک 203ھ کو شہادت سے سرفراز ہوئے۔ آپ کا مزار شریف مشہد مقدس (ایران) میں ہے۔

ماخذ و مراجع: بارہ امام۔جامع کرامات اولیاء۔ خزینۃ الاصفیاء۔ اقتباس الانوار۔ شریف التواریخ۔ فتاویٰ رضویہ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے