فقہائے احناف نزاعی مسائل کو حل فرمائیں

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

فقہائے احناف نزاعی مسائل کو حل فرمائیں

1-اہل سنت وجماعت کے فقہی مذاہب اربعہ میں اصحاب الترجیح فقہا ہوتے ہیں جو چند اقوال میں سے کسی قول کو شرعی دلائل کی روشنی میں راجح قرار دیتے ہیں۔ترجیح یافتہ مسائل میں سے راجح قول پر عمل کرنے اور فتوی دینےکا حکم ہے۔مرجوح قول پر عمل کرنا اور فتوی دینا جائز نہیں۔

2-عہد حاضر میں متعدد جدید فقہی مسائل کی تحقیق ہوئی۔فقہائے احناف مختلف الرائے ہو گئے۔چوں کہ صدیوں سے اصحاب الترجیح فقہا کا وجود نہیں,اس لئے جدید فقہی اختلافی مسائل بلا ترجیح ہیں۔

عہد حاضر میں طبقہ ہفتم کے فقہا موجود ہیں۔اصحاب الترجیح طبقہ پنجم کے فقہا کو کہا جاتا ہے,جیسے امام ابن ہمام حنفی قدس سرہ۔

3-جس طرح مجتہد کو اپنے قول پر عمل کا حکم ہے۔اسی طرح فقیہ مقلد اور قاضی مقلد صاحب نظر ہوں تو انھیں اپنے قول پر عمل کا حکم ہے۔فتاوی رضویہ(جلد 18ص 489 تا 501)میں اس کا تفصیلی بیان مرقوم ہے۔

4-غیر ترجیح یافتہ اختلافی فقہی مسائل میں عمل کا ایک طریقہ فتاوی رضویہ کے مذکورہ فتوی میں ہے کہ افقہ واورع کے قول پر عمل ہو,پھر جس جانب اکثریت ہو۔

امام اہل سنت نے رقم فرمایا:"اگر تفقہ میں متقارب اور ورع میں یکساں ہیں تو اب کثرت رائے کی طرف میل کرے۔فان مظنۃ الاصابۃ فیہا اکثر عند من لا یعلم وہو اعذر لہ عند ربہ عز وجل۔
اور اگر کثرت بھی کسی طرف نہ ہو۔مثلا چار متفقہ ہیں۔دو ایک طرف,دو ایک طرف تو جس طرف دل گواہی دے کہ یہ احسن یا احوط فی الدین ہے۔اس طرف میل اولی ہے۔ورنہ مختار ہے۔جس پر چاہے,عمل کرے"-(فتاوی رضویہ جلد 18 ص496-جامعہ نظامیہ لاہور)

مذکورہ بالا اصول سے متعلق چند سوالات درج ذیل ہیں۔

(الف) یہ ترتیب استحبابی ہے یا وجوبی؟درمختار کی آئندہ عبارت سے ترتیب ظاہر نہیں۔

(ب)غیر ترجیحی اقوال میں کسی ایک ملک کے فقہائے احناف کی اکثریت مراد ہے یا ساری دنیا کے فقہائے احناف کی اکثریت واقلیت مراد ہے؟

جس طرح ساری دنیا میں فقہائے اسلام کے منتشر ہو جانے  کے سبب کہا گیا کہ دو صدی بعد اجماع پر اطلاع کی کوئی راہ نہیں۔(فتاوی رضویہ۔جلد 19-ص594۔جامعہ نظامیہ لاہور)-اجماع کی طرح عہد حاضر میں ساری دنیا کے فقہائے احناف کی رائے معلوم کرنا اور اکثریت واقلیت کا معلوم ہوجانا بہت مشکل ہے۔

(ج)مذکورہ فتوی میں ہے کہ کسی جانب اکثریت نہ ہو تو جس قول پر چاہے,عمل کرے۔جب اکثریت واقلیت کا علم نہ ہو سکے,تب کیا کرے؟نیز یہ بتائیں کہ کیسے فقہا کی اقلیت واکثریت مراد ہے؟یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر مفتی صاحب نظر نہیں۔

(د)در مختار میں غیر ترجیح یافتہ اقوال پر عمل سے متعلق دیگر صورتیں بھی مرقوم ہیں۔ان میں ایک صورت"ارفق بالناس" کو اختیار کرنا ہے۔عہد حاضر میں بھارت کے مسلمانان اہل سنت کا حال یہ ہے کہ وہ مسائل جدیدہ میں اپنے معتمد علمائے کرام کے قول پر عمل کرتے ہیں۔وہ دیگر علمائے اہل سنت کے قول پر عمل ہی نہیں کرتے۔ایسی صورت میں کون سی صورت ارفق بالناس ہوگی؟

در مختار میں ہے:(فان قلت:ان للفقہاء اقوالا بلا ترجیح۔وقد یختلفون فی التصحیح۔

قلت:یعمل بمثل ما عملوا من اعتبار تغیر العرف واحوال الناس  وما ہو الارفق وما ظہر علیہ التعامل وما قوی وجہہ)(الدر المختار جلد اول ص82)

5-امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے یہاں قوالی مع مزامیر ناجائز ہے۔آپ سے سوال ہوا کہ ایک عالم باعمل قوالی مع مزامیر میں شریک ہوتے ہیں۔ان کی اقتدا میں نماز کا کیا حکم ہے؟امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے اپنے موقف کے اعتبار سے فرمایا کہ اس کی اقتدا میں نماز مکروہ ہے۔(فتاوی رضویہ:جلد ششم۔ص596)

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے اپنے فقہی موقف کے اعتبار سے بالکل صحیح فرمایا۔دوسری جہت یہ ہے کہ سلسلہ چشتیہ کے علما ومشائخ قوالی مع مزامیر کو جائز سمجھتے ہیں۔اب جو ائمہ مساجد اس باب میں مشائخ چشتیہ کے موقف کو اختیار کر کے قوالی مع مزامیر میں شرکت کرتے ہوں۔ان کی اقتدا میں امت مسلمہ کی ادا کردہ نمازیں مکروہ ہوئیں یا شرعی طور پر بچنے کی کوئی راہ ہے؟

  اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کے فتوی کے اعتبار سے ایسے ائمہ مساجد پر فسق کا حکم عائد ہو گا۔حضرات مشائخ چشتیہ کے قول پر عمل کے سبب حکم فسق عائد نہیں ہو گا۔

جس امام پر بعض اعتبار سے حکم فسق ہو,بعض اعتبار سے حکم فسق نہ ہو۔اس کی اقتدا میں ادا کردہ نمازوں کا کیا حکم ہے؟

 خیال رہے کہ جس فقیہ کے قول پر حکم فسق عائد ہوتا ہے۔ائمہ مساجد ان کے قول پر عمل پیرا بھی نہیں,بلکہ ان فقہا کے قول پر عمل پیرا ہیں,جن کے قول پر حکم فسق لازم نہیں آتا۔ایسی صورت میں نمازوں کا حکم کیا ہے؟ 

یہ معاملہ کئی صدیوں کو محیط ہے۔نہ جانے کب سے قوالی مع مزامیر میں اختلاف ہے۔

6-حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان اور اکثر فقہائے احناف کا قول ہے کہ لاؤڈاسپیکر پر نماز کی اقتدا جائز نہیں۔حضرت مفتی سید افضل حسین مونگیری علیہ الرحمۃ والرضوان نے جواز کا قول کیا تھا۔بلا حاجت شرعی قول جواز پر عمل کرنے والے مقتدیوں کی نمازیں ادا ہوئیں یا نہیں؟ کیا ان کے ذمہ میں نمازوں کی فرضیت باقی رہ گئی؟

گزارش:اکابر فقہا یا فقہائے متوسطین جواب عنایت فرمائیں,تاکہ قوم کو اعتماد حاصل ہو۔

مذکورہ بالا سوالوں کے جوابات سے عہد حاضر کے بہت سے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:یکم جولائی 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے