کفرفقہی کے اقسام واحکام / قسط ہفتم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

کفرفقہی کے اقسام واحکام

(قسط ہفتم)

لزوم التزام کی تشریح

گزارش:ہمارے قارئین میں بہت سے علمائے کرام علم کلام سے وابستہ ہیں۔ ان حضرات کو جہاں کہیں کوئی لغزش نظر آئے تواطلاع فرمائیں،تاکہ تصحیح کی جا سکے۔لغزش وخطا دیکھ کرخاموش رہنا شرعاً جرم ہے:جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدارین(آمین)


کفرلزومی کا علم نہ ہوتو حکم کفر نہیں:

  سوال:اگرکسی کے قول میں کفرلزومی پایاجاتا ہو،لیکن قائل کوخبر نہ ہوتواس پر کوئی حکم کفروارد ہوگایا نہیں؟

جواب: کفر کی دو قسمیں ہیں۔کفر لزومی اور کفر التزامی۔ متکلمین کفر لزومی کی صورت میں حکم کفر عائد نہیں کرتے۔کسی کے بتانے سے یاخودسے کفرلزومی پر مطلع ہوجائے،اس کے باوجود کفرپر اصرار کرے، تب حکم کفر وارد ہوگا۔اگر کفرلزومی صادر ہوگیا اور اس کا علم نہ ہو سکا تومعذور سمجھا جائے گا۔منقولہ ذیل عبارتوں میں اسی مفہوم کوبیان کیاگیا ہے۔

(۱)علامہ میر سیدشریف جرجانی حنفی(۰۴۷؁ھ-۶۱۸؁ھ) نے تحریرفرمایا:
(من یلزمہ الکفر ولایعلم بہ لیس بکافر)(شرح المواقف:ص556)

ترجمہ:جسے کفر لازم ہو،اوراسے اس کا علم نہ ہوتووہ کافر نہیں۔

(۲)امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۸۹۸؁ھ-۳۷۹؁ھ)نے تحریریر فرمایا: (لا یکفر اذا لم یعلم بان اللازم کفر)(الیواقیت والجواہر:جلددوم:ص ۳۲۱:مصر)

ترجمہ: جب لزوم کفر کا علم نہ ہوتو مرتکب کی تکفیرنہیں کی جائے گی۔

(۳)علامہ بحرالعلوم فرنگی محلی(م۵۲۲۱؁ھ)نے رقم فرمایا:(والتزام الکفرکُفرٌ- دون لزومہ)(فواتح الرحموت جلددوم:ص244-دارالکتب العلمیہ بیروت)

(۴)(ولزوم الکفر لیس کفرًا-بل التزامہ)
(فواتح الرحموت جلداول:ص145)

(۵)(واما لزومہم تکذیب ما ثبت قَطعًا اَنَّہٗ دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیس کفرًا-وانما الکفر التزام ذلک)
(فواتح الرحموت جلددوم:ص387)

قال الفرہاروی:(قد تقررفی الشرع ان التزام الکفرکفر-لا لزومہ)
(النبراس شرح شرح العقائد: ص128)

توضیح:التزام کفر یہ ہے کہ ضروری دینی کا مفسر وصریح متعین انکار ہو۔اسی طرح لزوم کفر کا علم ہے،اوراس کو کسی تاویل سے دور نہ کرے تو یہ بھی التزام کفر کی منزل میں ہے۔

(۶)قال السیالکوتی:(ان لزوم الکفر لیس بکفر بل التزامہ،اِن لَا یَکُونُ اللُّزُومُ ظَاہرًا-فہو بمنزلۃ الالتزام)(حاشیۃ السیا لکوتی علی الدوانی:ص 106)
توضیح: (ان لا یکون اللزوم ظاہرا)کا مفہوم یہ ہے کہ اگرلزوم کفر ظاہر نہ ہوتو یہ التزام کفر نہیں،اوراگر لزوم کفر ظاہر ہوتو یہ التزام کی منزل میں ہے،اور التزام کفر،کفر کلامی ہے۔

اگر لزوم کفر ظاہر ہے،لیکن کسی تاویل فاسد کے سبب اس لزوم کفر کا انکار کرے تو یہ بھی التزام کفر نہیں۔

مذکورہ عبارت اس طرح ہونی چاہئے۔
الا ان یکون اللزوم ظاہرا
شاید کاتب سے لغزش ہو گئی۔

مذہب معتزلہ کی تشریح وتفہیم:
 
معتزلہ رب تعالیٰ کو علیم،قادر، حی،سمیع،بصیر،متکلم وغیرہ تسلیم کرتے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کو صفات سے متصف مانتے ہیں، لیکن وہ صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پر زائد نہیں مانتے، بلکہ ذات الٰہی کو بعینہ نسبتوں کے اعتبارسے صفت بھی مانتے ہیں۔ان کا وہم یہ ہے کہ جب صفات کو ذات پر زائد ماناجائے تو متعدد امور کا قدیم ہونا لازم آئے گا۔ 

معتزلہ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں،جس سے مبادی صفات کا انکار لازم آتا ہے، اور مبادی صفات کے انکار سے صفات کا انکار لازم آتا ہے۔ مبادی صفات کے سبب ہی متصف کو متصف مانا جاتا ہے۔ اگر مبداوماخذ اشتقاق معدوم ہوتو متصف کو متصف نہیں مانا جاسکتا۔ عالم وہی ہوگا جس کے پاس علم ہو،پس عالم ہونے کے لیے صفت علم مبدا اور بنیاد ہے۔ معتزلہ رب تعالیٰ کی ذات ہی کو مبدائے صفات بھی مانتے ہیں۔

 معتزلہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات ہی بعینہ صفات الٰہی ہے،یعنی اللہ تعالیٰ عالم ہے، لیکن صفت علم ذات الٰہی پر زائد کوئی صفت نہیں،بلکہ ذات الٰہی علم ہے۔معتزلہ کے نظریہ سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ صفات الٰہیہ کے انکار لزومی کوتسلیم نہیں کرتے،بلکہ رب تعالیٰ کی صفات کو صراحت کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں،اس لیے لزومی انکار التزامی انکار کی منزل میں نہ آسکا اور معتزلہ پر کفر کلامی کا حکم عائد نہ ہوا۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(لما ثبت انہ تعالی عالم قادر حی الٰی غیر ذلک-ومعلوم ان کلا من ذلک یدل علٰی معنی زائد علٰی مفہوم الواجب -ولیس الکل الفاظ مترادفۃ-وان صدق المشتق علی الشیء یقتضی ثبوت ماخذ الاشتقاق لہ فثبت لہ صفۃ العلم والقدرۃ والحیوۃ وغیر ذلک -لا کما یزعم المعتزلۃ انہ عالم لا علم لہ وقادر لا قدرۃ لہ-الی غیر ذلک فانہ محال ظاہر،بمنزلۃ قولنا-اسود لا سواد لہ-وقد نطقت النصوص بثبوت علمہ وقدرتہ وغیرہما ودل صدور الافعال المتقنۃ علی وجود علمہ وقدرتہ-لا علی مجرد تسمیتہ عالما وقادرا) 
(شرح العقائد النسفیہ:ص64 -مجلس برکات مبارک پور)

توضیح: اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔رب تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں۔ہرمتصف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صفت کے ماخذاشتقاق سے متصف ہو،مثلاً عالم وہی ہوگا جو صفت علم سے متصف ہو۔اگر کسی کوعالم مانا جائے اور صفت علم اس کے لیے ثابت نہ مانی جائے تو اس کا عالم ہونا ثابت نہیں ہوگا۔

معتزلہ اللہ تعالیٰ کو صفات سے متصف مانتے ہیں،لیکن صفات کو نہیں مانتے،بلکہ ذات ہی کو صفت مانتے ہیں۔ذات صفت نہیں ہوتی ہے،بلکہ صفت سے متصف ہوتی ہے۔ صفت اور متصف بعینہ ایک نہیں ہوسکتے۔اگر کوئی ذات اور صفت کو ایک ہی مانتا ہے تو گویا وہ صفت کا انکار کرتا ہے۔ اس طرح معتزلہ کے نظریہ کے اعتبارسے صفات الٰہی کا انکار لازم آتا ہے۔معتزلہ کا مذہب مندرجہ ذیل ہے۔

قال التفتازانی:(النزاع فی انہ کما ان للعالم منا علما ہو عرض قائم بہ وزائد علیہ حادث،فہل للصانع العالم علم ہو صفۃ ازلیۃ قائمۃ بہ زائدۃ علیہ وکذا جمیع الصفات؟
فانکرہ الفلاسفۃ والمعتزلۃ وزعموا ان صفاتہ عین ذاتہ بمعنی ان ذاتہ یسمی باعتبار التعلق بالمعلومات عالما وبالمقدورات قادرًا الی غیر ذلک-فلا یلزم تکثر فی الذات ولا تعدد فی القدماء والواجبات-
والجواب ما سبق من ان المستحیل تعدد الذوات القدیمۃ وہو غیر لازم-ویلزمکم کون العلم مثلا قدرۃ وحیوۃ وعالما وحیا وقادرا وصانعا للعالم ومعبودا للخلق وکون الواجب غیر قائم بذاتہ الی غیر ذلک من المحالات)(شرح العقائد النسفیہ ص64-مجلس البرکات مبارک پور)

توضیح:معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ صفات الٰہیہ، عین ذات الٰہی ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کا تعلق معلومات سے ہے،اس اعتبار سے رب تعالیٰ عالم ہے،اور رب تعالیٰ کاتعلق مقدورات سے ہے،اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ قادر ہے۔

معتزلہ کا خیال ہے کہ اس طرح متعدد امور کا قدیم اور واجب ہونا لازم نہیں آتا ہے۔اہل سنت کا جواب ہے کہ متعدد ذات کا قدیم ہونا محال ہے۔ ایک ذات اور متعدد صفات قدیم ہوں تو یہ محال نہیں۔

معتزلہ ذات الٰہی کو بعینہ صفت الٰہی مانتے ہیں۔ اس سے بہت سے محالات لازم آتے ہیں،مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت علم ہی صفت قدرت اورصفت حیات ہو، پھر وہی صفت عالم اورحی اور قادر ہو، وہی صفت علم خالق عالم اور معبود خلائق ہو، کیوں کہ ذات اور صفت بعینہ ایک ہی ہے،نیز یہ بھی لازم آتا ہے کہ ذات واجب الوجود قائم بالذات نہ ہو،کیوں کہ صفت قائم بالذات نہیں ہوتی۔جب صفت علم ہی خدا ہے اورصفت قائم بالذات نہیں ہوتی تو اس سے یہ لازم آیا کہ اللہ تعالیٰ قائم بالذات نہیں،حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا قائم بالذات نہ ہونا محال بالذات ہے۔
چوں کہ صفات الٰہیہ غیرذات نہیں،اس لیے غیرکا قدیم ہونا لازم نہیں آیا،نہ ہی قدیم کا کثیر ہونا لازم آیا،کیوں کہ صفات الٰہیہ غیر ذات نہیں،گرچہ وہ عین ذات بھی نہیں۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:((وہی لاہوولاغیرہ)یعنی ان صفات اللّٰہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات-فلا یلزم قدم الغیر ولا تکثر القدماء)(شرح عقائد نسفیہ:ص66-مجلس برکات مبارکپور)


 انکار لزومی کا انکار ہوتو التزام نہیں:

 انکارلزومی کا التزام بھی التزام کفر ہے، لیکن اصحاب تاویل انکار لزومی کا التزام نہیں کرتے ہیں،بلکہ انکار لزومی کا انکارکرتے ہیں اور تاویل فاسدکرتے ہیں۔

انکارلزومی کی صورت میں کفرکلامی کاحکم عائدہونے کے درج ذیل شرائط ہیں۔
 (۱)کسی ضروری دینی کا انکار لازم آئے(۲) قائل کو اس انکارلزومی کا علم ہو۔
(۳) قائل انکار لزومی کا انکاراورتاویل نہ کرتا ہو۔مذکورہ شرائط کے وجود کے وقت لزوم، لزوم بین ہوجاتا ہے اور لزوم بین التزام کی منزل میں ہے۔

(۱)اگرضروری دینی کا انکار لازم نہ آئے،(۲)یا ضروری دینی کا انکارلازم آئے، لیکن قائل کو اس ضروری دینی کے لزومی انکار کا علم نہ ہو،(۳)یا ضروری دینی کے لزومی انکار کا علم ہو، لیکن قائل انکار لزومی کاصریح انکارکرے،اور تاویل کرے توان تینوں صورتوں میں کفر کلامی کا حکم نہیں،جیسے معتزلہ کے قول سے صفات الٰہیہ کا لزومی انکار ہوجاتا ہے،لیکن معتزلہ اس لزومی انکار کو تسلیم نہیں کرتے ہیں،بلکہ اس لزومی انکار کاتاویل فاسد کے ساتھ انکار کرتے ہیں۔

قال الہیتمی:(فان قُلتَ:المعتزلۃ تُنکِرُ الصفات السبعۃَ اوالثمانیۃَ وَلَم یُکَفِّرُوہُم-قُلتُ:ہم لا ینکرون اَصلَہَا-وانما ینکرون زیادتَہَا عَلَی الذَّات حذرًا من تعدد القدماء-فَیَقولون:انہ تعالٰی عالمٌ بذاتہ قادرٌ بذاتہ وہکذا-والجواب عن شبہتہم المذکورۃ ان المحذور تعدد ذوات القدماء،لاتعدد صفاتٍ قائمۃٍ بذات واحدۃٍ قدیمۃٍ)(الاعلام بقواطع الاسلام:ص350) 

 توضیح:معتزلہ صفات الٰہیہ کا صریح انکار نہیں کرتے،بلکہ وہ صفات کوثابت مانتے ہیں،گرچہ ان کے قول سے صفات الٰہیہ کاانکار لازم آتا ہے۔یہ لوگ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں،جس سے مبادی صفات کا انکار لازم آتا ہے اور مبادی صفات کے انکار سے صفات کا انکار لازم آتا ہے،لیکن وہ ذات الٰہی کو ہی صفت الٰہی بھی مانتے ہیں،یعنی ذات کو ہی مبدائے صفت بھی مانتے ہیں۔
 معتزلہ کہتے ہیں کہ اگر صفات الٰہیہ کو ذات الٰہی پرزائد تسلیم کیا جائے تو متعددامور کا قدیم ہونا لازم آئے گا،حالاں کہ صرف رب تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔اہل سنت کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ چند ذات کا قدیم ہوناممنوع ہے،لیکن ایک ذات کے ساتھ متعددصفات قدیم ہوں تو اس سے متعدد ذات کا قدیم ہونا لازم نہیں آتا۔

قال الامام احمد رضا:(وفی مسلم الثبوت وشرحہ للمولی بحر العلوم ملک العلماء قدس سرہ:(وَاَمَّا)البدعۃ(الغیر الجلیۃ)لم یکن فیہا مخالفۃ لدلیل شرعی قاطع واضح(کنفی زیادۃ الصفات)فان الشریعۃ الحقۃ انما اَخبَرَت بِاَنَّ اللّٰہ تَعَالٰی عا لمٌ قَادِرٌ-وَاَمَّا اَنَّہٗ عَالِمٌ قادر بِعِلمٍ وَقُدرَۃٍ،ہُمَا نَفسُ الذَّاتِ-اَوبِصِفَۃٍ قَاءِمَۃٍ بِالذَّات-فَالشَّرعُ سَاکِتٌ عَنہ- فَہٰذِہِ البِدعَۃُ لَیسَت اِنکَارُ اَمرٍوَاضِحٍ فِی الشَّرعِ(فَتُقبَلُ)شَہَادَتُہٗ وَرِوَایَتُہٗ (اِتِّفَاقًا)-لِاَنَّ ہٰذِہِ البِدعَۃَ لَا تُوجِبُ الفِسقَ-اِذ لَیسَ فِیہَا مُخَالَفَۃٌ لِاَمر شَرعِیٍّ(اِلَّا اَن دَعَا)ہٰذَا المُبتَدِعُ(اِلٰی ہَوَاہُ)فَاِنَّ الداعی الی الہوٰی مخاصم،لَا یؤتمن عَلَی الاِجتِنَابِ عَنِ الکذب)(المعتمد المستند: ص43)

توضیح: بدعت غیر جلیہ یعنی بدعت غیر صریحہ جس میں کسی دلیل شرعی قطعی کی صریح مخالفت نہ ہو،اس کی بنیادپر کفرکلامی کا حکم نہیں ہوگا،جیسے معتزلہ کاقول ہے کہ وہ ذات الٰہی پرصفات الٰہی کوزائدنہیں مانتے،بلکہ ذات ہی کو نسبتوں کے اعتبارسے صفت قرار دیتے ہیں۔وہ ذات وصفا ت کی عینیت کے قائل ہیں۔کسی شرعی دلیل میں یہ صراحت نہیں ہے کہ صفات الٰہیہ عین ذات الٰہی ہیں یاذات کے ساتھ قائم ہیں۔

ہاں،دلیل عقلی کی روشنی میں اہل سنت وجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ صفات الٰہیہ ذات الٰہی کے ساتھ قائم ہیں اور وہ صفات الٰہیہ نہ عین ذات ہیں، نہ ہی غیرذات۔باب عقائد کے ادلہ اربعہ میں عقل سلیم بھی دلیل قوی ہے۔معتزلہ کے عقیدہ سے کسی ضروری دینی کا صریح انکار نہیں ہوتا،لیکن ضروریات دین کا لزومی انکار ہوجاتا ہے۔ صفات الٰہیہ کوماننا ضروریات دین میں سے ہے۔

قال الامام احمد رضا القادری:(وَالاَصوَبُ عِندِی فِی خُصُوصِ المَسءَلَۃِ-اعنی نفی زیادۃ الصفات مَا قَدَّمتُہٗ عَن(مسلم الثبوت)وشرحہ (فواتح الرحموت)مِن اَنَّہٗ بِدعَۃٌ،لَا تُوجِبُ فِسقًا-اِذ لَیسَ فِیہِ اِنکَارُ قَطعِیٍّ- وَاللّٰہ تَعَالٰی اَعلَمُ) (المعتمد المستند: ص51-المجمع الاسلامی مبارک پور)

توضیح: مذکورہ بالا عبارت میں فسق سے کفر کلامی مراد ہے۔کفر کو کبھی فسق کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔مفہوم یہ ہے کہ معتزلہ اس بات کے منکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات، ذات الٰہی پر زائد ہیں،بلکہ وہ بعینہ ذات الٰہی کو ہی نسبت کے سبب صفت مانتے ہیں۔اس زیادتی کی نفی سے کسی دلیل قطعی شرعی کا انکار نہیں ہوتا،کیوں کہ کسی دلیل قطعی میں ایسا ذکر موجود ہی نہیں کہ صفات الٰہیہ ذات الٰہی پر زائد ہیں۔
چوں کہ صفات کی زیادتی کے انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے،اوران صفات کوماننا ضروریات دین سے ہے،اور جس سے ضروری دینی کا انکار لازم آئے، اس کو نہ ماننا اور اس کی ضد ومقابل کو ماننا ضروریات اہل سنت میں سے ہوتا ہے۔

 ضروریات اہل سنت کا تاویل فاسد کے ساتھ انکار کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں ضلالت ہے تو یہاں بھی منکر پر کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں ضلالت کا حکم عائدہوگا،کفر کلامی کا حکم نہیں ہوگا۔منقولہ بالا عبارت میں فسق سے کفر کلامی مراد ہے۔

ضروریات اہل سنت کا بلا تاویل انکار استخفاف بالدین اور کفر کلامی ہے تو یہاں بھی بلا تاویل انکار کفر کلامی ہوگا،لیکن معتزلہ تاویل کے ساتھ انکار کرتے ہیں،پس معتزلہ پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا۔
الحاصل زیادتی صفات کو ماننا ضروریات اہل سنت میں ہے،اور زیادتی صفات کا انکار ضلالت وگمر ہی ہے،کیوں کہ اس انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آتا ہے۔

قال الہیتمی ناقلًا عن امام الحرمین:(وبعض التفاصیل المذکورۃ المندرجۃ تحت الشہادتین اختلف فیہا-ہل التصدیق بہا داخل فی مسمی الایمان؟فیکفرمنکرہا-اَو لَا،فَلَا-فمن ذلک اختلاف اہل السنۃ فی تکفیر المخالف فی بعض العقائد بعد اتفاقہم علٰی کفرالمخالف فی بعض الاصول المعلوم ضرورۃً-کالقول بقدم العالم ونفی حشرالاجساد ونفی علمہ تعالٰی بالجزئیات ونفی فعلہ بالاختیار-بخلاف ما لیس کذلک کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی-عالم بلا علم- وکنفی عموم الارادۃ للخیر والشر-وکالقول بخلق القراٰن-فقال جماعۃ: ہوکفر-والصحیح عند جمہورالمتکلمین والفقہاء والاشعری خلافہ- انتہٰی) (الفتاوی الحدیثیہ: ص141-دارالفکر بیروت) 

توضیح: معتزلہ ضروریات دین کوتسلیم کرتے ہیں۔تاویل کے ساتھ ضروریات اہل سنت میں سے بعض امور کے منکر ہیں،اسی لیے وہ گمراہ ہیں،کافر نہیں۔(کنفی مبادی الصفات مع اثباتہا کقول المعتزلی)کا مفہو م یہ ہے کہ معتزلہ مبادی صفات کے منکر ہیں، لیکن صفات کو ثابت مانتے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ کو عالم وقادروسمیع وبصیر وغیرہ مانتے ہیں۔

در حقیقت معتزلہ مبادی صفات کا بھی صریح انکار نہیں کرتے،بلکہ زیادتی صفات کا انکار کرتے ہیں اور ذات الٰہی کوہی مبدائے صفات بھی مانتے ہیں،لیکن ذات مبدائے صفات نہیں ہوتی،لہٰذا مبادی صفات کا انکار لازم آیا،پھر مبادی صفات کے انکار سے صفات الٰہیہ کا انکار لازم آیا،لیکن چوں کہ معتزلہ صفات الٰہیہ کوصریح لفظوں میں ثابت مانتے ہیں،پس ان کا کفر لزومی،کفر التزامی نہ ہوسکا اور ان پر کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوسکتا۔کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم عائد ہوگا۔

علامہ عزالدین بن عبد السلام (م660ھ)نے لکھا:(فان قیل:یلزم من الاختلاف فی کونہ سبحانہ فی جہۃ ان یکون حادثا؟قلنا:لازم المذہب لیس بمذہب -لان المجسمۃ جازمون بانہ فی جہۃ جازمون بانہ قدیم ازلی لیس بمحدث-فلا یجوز ان ینسب الی مذہب من یصرح بخلافہ وان کان لازما من قولہ)
(قواعد الاحکام فی مصالح الانام:ص203-مکتبۃ الکلیات الازہریہ قاہرہ)

توضیح:(فلا یجوز ان ینسب الی مذہب من یصر ح بخلافہ:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو ایسے مذہب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا،جس مذہب کی وہ صریح مخالفت کرتا ہو، گرچہ اس کے قول سے وہ لازم آتا ہو۔ متکلمین لازم مذہب کومذہب نہیں مانتے۔

مجسمہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت مانتے ہیں،جس سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے،لیکن مجسمہ صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حادث نہیں،بلکہ قدیم وازلی ہے،پس ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کوحادث مانتے ہیں۔ہاں،جب ان کے قول سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے تو انہیں گمراہ کہا جائے گا۔اسی طرح معتزلہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو مانتے ہیں تو انہیں صفات الہیہ کا منکر نہیں کہا جائے گا۔ہاں،ان کے قول سے صفات کا انکار لازم آتا ہے تو انہیں گمراہ کہا جائے گا۔


لازم کا اعتقاد التزام ہے
 
قال الہیتمی الشافعی:(وَوَصفُ مُحدِثٍ بِمَا یَستَلزِمُ قِدَمَہٗ اِنَّمَا یَتَّضِحُ کَونُہٗ کُفرًا-اِن اِعتَقَدَ ذٰلِکَ اللَّازِمَ-کَمَا مَرَّ اَنَّ الاَصَحَّ اَنَّ لاَزِمَ المَذہَبِ لَیسَ بِمَذہَبٍ-لِاَنَّ القَاءِلَ بِالملزوم قَد لَایخطرلہ القول بلازمہ)
(الاعلام بقواطع الاسلام:ص374)

توضیح:کسی نے کسی حادث کو ایسی صفت سے متصف کردیا کہ اس سے اس حادث کا قدیم ہونا لازم آتا ہے اور حادث کوقدیم ماننا کفر ہے،لہٰذا قائل پر حکم کفر عائد ہونا چاہئے، لیکن حکم کفر عائد نہیں ہوگا،کیوں کہ متکلمین کے یہاں لازم مذہب کومذہب تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔اگر قائل اس لازم مذہب کا اعتقاد رکھتا ہو، اور اس لازم مذہب کو مانتا ہو،مثلاً مثال مذکور میں قائل مذکورہ حادث کو قدیم مانتا ہو،تب اس پر کفرکلامی کا حکم عائد ہوگا۔
قال السخاوی ناقلًا عن شیخہ ابن حجر العسقلانی:(قال شیخنا: والتحقیق انہ لا یرد کل مکفر ببدعۃ-لان کل طائفۃ تدعی أن مخالفیہا مبتدعۃ وقد تبالغ فتکفرہا-فلو أخذ ذلک علی الإطلاق لاستلزم تکفیر جمیع الطوائف۔ 
فالمعتمد أن الذی ترد روایتۃ من أنکر أمرًا متواترًا من الشرع معلومًا من الذین بالضرورۃ أی إثباتا ونفیا-فأما من لم یکن بہذہ الصفۃ وانضم إلی ذلک ضبطہ لما یرویہ مع ورعہ وتقواہ فلا مانع من قبولہ أصلا 
 وقال ایضًا:والذی یظہران الذی یحکم علیہ بالکفرمن کان الکفرصریح قولہ-وکذا من کان لازم قولہ-وعرض علیہ فالتزمہ-اما من لم یلتزمہ-وناضل عنہ فانہ لَا یکون کافرًا-ولو کان اللازم کفرًا-وینبغی حملہ علٰی غیر القطعی لیوافق کلامہ الاول)(فتح المغیث جلد اول:ص365)

توضیح: (وکذا من کان لازم قولہ وعرض علیہ:الخ)کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کلام سے کسی ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہو۔ قائل کوبتایا گیا کہ تمہارے اس قول سے ضروری دینی کا انکار لازم آتا ہے تو اس نے اس انکار لزومی کا انکار نہیں کیا،بلکہ اس کوتسلیم کیا،اور انکار لزومی کو دور کرنے کے لیے کوئی تاویل بھی نہیں کی تو یہ انکار لزومی کا التزام کرنا اوراس کوتسلیم کرنا ہے۔یہ کفر کلامی ہے۔اگر انکار لزومی کو تسلیم نہ کرے،بلکہ انکار کرے اور اپنی تاویل پیش کر ے تو حکم کفر عائد نہیں ہوگا، جیسے معتزلہ ودیگر اصحاب تاویل انکار لزومی کو تسلیم نہیں کرتے۔
التزام پر کفر کلامی کا حکم ہے،لزوم کفرپرنہیں۔

 التزام کفرپر متکلمین حکم کفر نافذکرتے ہیں۔لزوم کفر پر نہیں۔فقہا ئے کرام لزوم کفر پر بھی حکم کفر نافذکرتے ہیں۔یہ کفر فقہی ہے،کفر کلامی نہیں۔

واضح رہے کہ جہاں تاویل بعید کی گنجائش ہو، اس کو متکلمین لزوم کفر سے تعبیر کرتے ہیں،اوریہی تعبیر مشہور ہے۔ جہاں تاویل قریب کی گنجائش ہو، فقہا اس کو لزوم کفر کہتے ہیں اورتاویل قریب کی گنجائش نہیں،صرف تاویل بعید کی گنجائش ہے،جیسے قطعی بالمعنی الاعم یعنی ظاہر ونص میں تاویل قریب کی گنجائش نہیں ہے تو فقہا کے یہاں ظاہر ونص کے طورپرکسی ضروری دینی کا انکار ہوتو التزام کفر ثابت ہوجائے گا۔ متکلمین اس کو التزام کفرنہیں کہتے ہیں،کیوں یہاں تاویل بعید کی گنجائش ہے،اورمتکلمین تاویل بعید قبول فرماتے ہیں،یعنی تاویل بعید کا لحاظ کر کے حکم کفرجاری نہیں فرماتے۔ باب تکفیر میں لزوم اورالتزام کا وہی معنی متعارف ہے،جو متکلمین کی مشہوراصطلاح ہے۔جہاں لزوم والتزام کا ذکر ہوتو متکلمین کی اصطلاح کے اعتبارسے لزوم والتزام مراد ہوتا ہے۔ التزام کا معنی درج ذیل ہے۔

(1)قال الامام احمد رضا القادری:(والاکفار لا یجوز الا اذا تَحَقَّقَ لَنَا قَطعًا اَنَّہ مُکَذِّبٌ اَو مُستَخِفٌّ-ولا قَطع الا فی الضروریات-لان فی غیرھا لہ اَن یَقُولَ لَم یثبت عندی)(المعتمد المستند: ص212-مبارک پور)

توضیح:(اذا تحقق لنا قطعا:الخ)سے مراد یہ ہے کہ جب قطعی طورپر ثابت ہوجائے کہ کسی ضروری دینی کا انکار ہوا ہے،تب حکم کفر عائد ہوگا۔ قطعی انکارسے قطعی بالمعنی الاخص انکارمراد ہے۔قطعی بالمعنی الاعم انکار میں احتمال بعید ہوتاہے۔

(2)وَقَالَ الامام احمد رضا:(الراجح عندنا اَنَّ لَا اِکفَارَ الا بالالتزام -وَلَا نرید بہ ان یَلتَزِمَ کَونَہ کَافِرًا-فَاِنَّ اَحَدًا مِنَ عَبَدَۃِ الاَوثَانِ اَیضًا لا یرضی لنفسہ بتسمیۃ الکافر-وانما المعنٰی ان یلتزم انکارَ بَعضِ مَا ھو من ضروریات الدین-وان زَعَمَ اَنَّہ من کملاء المسلمین وَاَنَّ لَہ تَاوِیلًا فی ھذا الانکار المھین کَمَا بَیَّنتُہ فی سبحٰن السبوح)(المعتمد المستند ص213- المجمع الاسلامی مبارک پور)
 
توضیح:(ان لا اکفار الا بالتزام)سے مذہب متکلمین کوبیان کیا گیا ہے کہ متکلمین التزام کفر کے وقت تکفیر کرتے ہیں۔امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز بھی باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر ہیں۔

(3)قال الامام احمد رضا:(والمحققون لایکفرون الابانکار ما علم من الدین ضرورۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع علیہ ہکذا،کَفَرَ مُنکِرُہٗ وَاِلَّا لَا-وَلَا حَاجَۃَ عندہم اَیضًا اِ لٰی وُجُودِ نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا من ضروریات الدین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہ کَمَا یَظہَرُ بِمُرَاجَعَۃِ ”الاِعلَام“) (المعتمد المستند:ص195-المجمع الاسلامی مبارک پور)

توضیح:(والمحققون لا یکفرون الا بانکار ماعلم من الدین ضرورۃ:الخ)سے مراد یہ ہے کہ متکلمین صرف ضروری دینی کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔

طارق انورمصباحی 

جاری کردہ:25:اگست 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے