-----------------------------------------------------------
📚اگربتی بنانا، اس کا کاروبار کرنا جائز ہے، خریدنے والا چاہے کسی بھی کام میں استعمال کرے📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بسم اللہ الرحمن الرحیم...
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکتہ .. سوال.. کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے متعلق؟ جناب زید صاحب کا کہنا ھیکہ میں کئی سالوں سے اگربتی کی تجارت کر رہاہوں اچانک میرے ذھن پر یہ سوال آیا کہ میں جو یہ آگربتی وغیرہ بیچ رہاہوں کہیں جانےانجانے میں کچھ غلط تونہیں کررہاہو کیونکہ یہ اگربتی میں ان لوگوں کے پاس بیچ رہاہوں جولوگ حرام و شرکیا کاموں میں انکو استعمال کررہے ہیں ( یعنی بت پرستی میں) تو ان لوگوں کو اگربتی دینا کیسا ہےناجائزوحرام یا پھر اور کچھ( اگر ناجائزو حرام تو کیوں؟وگر حلال توکیسے ؟) کیونکہ ان جیسے تجارات بہت سے ہیں......تووجہ سوال یہ ھیکہ زید چونکہ اس بات کا علم رکھتا ہے علماء کے صحبت کی بناء پر اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے. وَلَا تعانوا علی الاثم والعدوان ... اور اسی بناء پر زید شک و تشکیک کا شکار ہے تو علماء کرام ومفتیان عظام زید کےذھن و فکر سے شک و تشکیک کو زائل فرمائیں قرآن و احادیث ودیگر دلائل شرعیہ کے مدد سے نوازش و کرم ہو گی ...
طالب جواب: محمد مظھرالاسلام رضوی۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
زید کا خیال بے بنیاد ہے ، اس کا اس معاملے میں گناہ سے کوئی تعلق نہیں کہ اس نے اگربتی محض حرام و شرکیہ کاموں کیلئے نہیں بنائی
امام مرغینانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
” ومن آجر بیتا لیتخذ فیہ بیت نار ، او کنیسة ، او بیعة او یباع فیہ الخمر بالسواد فلا باس بہ ۔۔۔۔ ان الاجارة ترد علی منفعةالبیت ولھذا تجب الاجرة بمجردالتسلیم ولامعصیة فیہ وانماالمعصیة بفعل المستاجر وھومختار فیہ فقطع نسبتہ عنہ “
{📙ھدایہ ج٧ص٢٢٨ ، ادارةالقرآن کراچی}
کہ کسی نے گھر اجرت پر دیا تاکہ اس میں آتشکدہ یا گرجاگھر بنایا جائے یا اس میں شراب بیچی جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اجارہ منفعت حاصل کرنےکیلئےہوتا ہے اسی لئے محض سپردگی سے اجرت واجب ہوجاتی ہے اوراس میں کوئی گناہ نہیں ، گناہ اجرت پرلینےوالےکےفعل سےہے جس میں وہ بااختیار ہے لہذا اجرت پر دینےوالےسےاس کی نسبت منقطع ہوگئی۔
اگربتی خوشبو کیلئے بنائی جاتی ہے نہ کہ محض مندر وغیرہ میں پوجا پاٹ کیلئے ، اب اگر کوئی اسے پوجا پاٹ یا حرام امور میں استعمال کرتاہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے ، بنانے والے پر کوئی الزام نہیں کہ بنانے والے نے اسے خوشبو کیلئے بنایا ہے
محقق علی الاطلاق کمال ابن ھمام علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
” اذا استاجر الذمی من المسلم دارا لیسکنھا فلاباس بذالک لان الاجارة وقعت علی امر مباح فجازت وان شرب فیھا الخمر او عبد فیھا الصلیب او ادخل فیھاالخنازیر لم یلحق المسلم فی ذالک شئی ، لان المسلم لم یواجرھا لھا انما آجر للسکنی “
{📘فتح القدیر ج٨ ص١٢٨ ، بولاق مصر}
کسی نے ذمی کو رہنےکیلئے گھر کرایہ پہ دیا تویہ جائزہے کہ یہ امرمباح ہے اگرچہ وہ اس میں شراب پئے ، صلیب پوجے ، خنزیر داخل کرے ، ان سب معاملے میں مسلمان ملحق نہیں ہوگا کیونکہ اس نےتو رہنے کیلئے دیا تھا نہ کہ ان کاموں کیلئے
اگر بتی بنانے والے کا نفس عمل مشرک کو شرک پر نہیں ابھارتا یعنی نہ تو اگر بتی بنانےوالے کے عمل کا حرام وشرک میں کچھ دخل ہے نہ خود اگربتی کا ، فلہذا اگربتی بنانا بھی جائزہے اور اسے اس قسم کےلوگوں کےہاتھ بیچنا بھی جائز ، آگے خریدنے والا ذمہ دار ، بیچنے والے دامن اس سے صاف
امام علامہ بدرالدین محمود عینی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
” فان قلت : الاتری ان قولہ سبحانہ وتعالی ”و لاتسبواالذین یدعون من دون اللہ “ الآیة ، حرم المسبب وان تخلل فعل فاعل مختار ، وقلت : الکلام فی السبب المحض ، اما اذا کان سببا بعمل العلة فلا ، وسب الکافر والضم کذالک ، لانہ یبعث لھم ذالک علی الفعل القبیح ، بخلاف اجارة البیت لانہ لایحمل المستاجر علی اتخاذہ بیت نار “
{📗البنایة ج١٢ ص٢٢١ ، دارالکتب العلمیة}
واللہ تعالی اعلم بالصواب؛
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍️ کتبـــــــــــــه:
محمد شکیل اختر قادری برکاتی شیخ الحدیث بمدرسةالبنات مسلک اعلی حضرت صدر صوفہ ھبلی کرناٹک۔
رابطہ؛☎7795812191)
الجواب صحیح وامجیب مصیب ومثاب: محمد شرف الدین رضوی دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیل خانہ ہوڑہ کلکتہ بنگال۔
الجواب صحیح: غلام غوث الاجملی الارشدی غفرلہ القوی؛ پورنیہ بہار انڈیا۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں