-----------------------------------------------------------
🕯️قربانی کے سماجی اور معاشرتی پہلو پر ایک نظر🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 مذہب اسلام میں دو قربانیاں بڑی اہم ہیں، ایک ماہ محرم الحرام میں دوسری ماہ ذی الحجہ میں، کیوں کہ اسلامی سال کی ابتدا قربانی سے ہوتی ہے جس میں دسویں تاریخ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا،جنھوں نے دینِ متین کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کی، اوراسلامی سال کی انتہا بھی قربانی پر ہوتی ہے جس میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار قربانی ہے جنھوں نے اسلام کے بنیادی احکامات کو عمل کی قوت سے روشن و فروزاں کیا، جس میں ان کی یہ قربانی سرِ فہرست ہے جوعید الاضحٰی کے موقع پر کی جاتی ہے،
عید الاضحٰی کے بے شمار فضائل ہیں اور تاریخِ انسانی میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پیش کی گئی قربانی ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے،جس میں جاں نثاری ، اطاعتِ خداوندی ، محبت الہی ، اخلاص و پرہیزگاری ، اور استقامت دین مطلوب ہے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قربانی کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی اسلامی روح ، ایمانی کیفیت ، اور اخلاص و محبت کی وہی شان اور وہی جذبہ پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی کیا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی انسان محض جانوروں کا خون بہانا ہی قربانی سمجھتا ہے اور اس کا دل اس کی روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے تو وہ دکھاوا اور صرف خون بہانا ہے ، اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ، کیوں کہ اللہ کے پیغمبر حضرتِ ابراہیم علیہ السلام طاعتِ الہی کے پیکر تھے آپ کی پوری زندگی استقامت دین سے لبریز اور سرشار تھی جن میں سر فہرست یہ عظیم قربانی ہے جو آپ کی عظیم ترین یادگار ہے اور اسی عظیم الشان قربانی کو تا قیامت امت محمدیہ کے لیے ایک فریضے کی شکل دی گئی تاکہ وہ بھی اطاعتِ خداوندی ، اور خلوص و للہیت کے ذریعے بارگاہِ الہی میں قرب حاصل کرے اور اسی میں امت محمدیہ کی معراج ہے_
قربانی کے کچھ ایسے پہلو بھی ہے جن کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے کیوں کہ قربانی اپنی معنویت اور روحانیت کے اعتبار سے الگ مقام رکھتی ہے، اس میں جہاں رشتے دار اور خاندان والوں کا جہاں تعاون ہے وہیں معاشرتی مسائل کا حل بھی ہے ، جی ہاں! قربانی کے سماجی اور معاشرتی کے ایسے پہلو جن پر دھیان دینے سے قومِ مسلم کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہوگا اور معاشرتی مسائل بھی حل ہوں گے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قربانی کی اہمیت اور عظمت و بزرگی سمجھیں، اور دوسروں تک پہنچائیں اور اسے صرف رسم سمجھ کر نہ ادا کریں کیوں کہ مذہبِ اسلام میں رسم نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،
قربانی میں قومِ مسلم کے معاشرتی مسائل کے حل کے لیے عظیم پیغام ہے ، قربانی معاشرتی مسائل کے حل میں دستورِ حیات ہے کہ اولا یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ قربانی کا مقصد اصلی تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے ، لہذا اگر کوئی نیک عمل محض نام و نمود اور نمائش کے لیے کیا جائے تو وہ ہرگز قابلِ قبول نہیں چناں چہ سنت ابراہیمی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہونا بہت ہی ضروری ہے کیوں کہ بندہ اسی کے ذریعے رب کا قرب حاصل کرتا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” لن ینال اللہ لحومھا ولادماؤھا و لکن ینالہ التقویٰ منکم ” ( سورۂ حج ،آیت نمبر: ٣٧ )
یعنی کہ اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک ضرور باریاب ہوتی ہے، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ تقوی اور رضائے الٰہی کی نیت سے سنت ابراہمی کو بجا لائے۔
اپنے معاشرے کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آج ہم کیا کررہے ہیں اور اپنی اولاد کو کیا سکھا رہے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے ، اس بات کے لیے قربانی ہمارے لیے عظیم نعمت ہے وہ اس طور پر کہ زندگی میں چاہے باپ کی شکل میں ہو یا بیٹے کی شکل میں دونوں صورت میں یہ قربانی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ایک باپ کے لیے اپنی اولاد سے الفت و محبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت و تربیت میں موجود ہے ، ایک بیٹے کے لیے اپنے والدین کی فرماں براداری ، اور حکم خداوندی کی تابع داری حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی سیرت میں موجود ہے ، اور بنت حوا کے لیے حقوقِ زوجین کی بجاآوری حضرتِ ہاجرہ علیھا السلام کے کردار میں ہے_
بلاشبہہ اگر مسلم معاشرہ قربانی کو ان زاویوں سے دیکھے اور خود کو اسی کے مطابق ڈھالے تو قربانی کے ساتھ ساتھ قومِ مسلم کی معاشرتی مسائل کی اصلاح ہوجائے گی ، کیوں کہ قربانی کے ذریعے ہمیں ایک پاب ، اور بیٹے کی شکل میں اور بنت حوا کے لیے عمدہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے ۔ قربانی جہاں اللہ رب العزت سے قرب کا ذریعہ ہے وہیں اس کے سماجی افراد کا تعاون بھی ہے ،
قربانی کے گوشت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے کے تین حصے کیے جاتے ہیں ایک حصہ گھر والوں کے لیے ، ایک حصہ فقرا حضرات کے لیے ، اور ایک حصہ دوست و احباب کے لیے ،لیکن قربانی کی جامعیت اور معنویت کو دیکھیے کہ قربانی میں اپنے ،اور فقرا اور دوست و احباب کا خیال رکھتے ہوئے یہ پیغام دنیا کو دیا جا رہاہے کہ اسلام میں ذات پات ، رنگ و نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، امیر و غریب سب برابر ہے اسلام سب کے حقوق کا ضامن ہے اور خصوصاً قربانی کے گوشت کے ذریعے غریبوں لوگوں کی مدد اور مستحق لوگوں کا تعاون ہوجاتا ہے اس سے ہر کوئی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکتا ہے،
قربانی کی خوب صورتی یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں میں خرید و فروخت کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانور لے جانے میں ضرورت مندوں کو مزدوری کا موقع مل جاتا ہے تو قربانی کے ذریعے معاشرے میں لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے انتظام و انصرام کا بند و بست ہوجاتاہے _
قربانی کا مقصد ہی یہی ہے لوگوں میں اونچ نیچ ختم ہوجائے ، ہر طرح کا امتیاز مٹ جائے اور اس کے ذریعے اخوت و مساوات ،پیار و محبت مزید پروان چڑھے اور قربانی میں اس کا عملی نمونہ بھی ہے کہ قربانی کے وقت سبھی لوگ حاضر ہوتے ہیں اور بڑے چھوٹے سب شریک ہوتے ہیں شرکا میں امیر و غریب بھی ہوتے ہیں نہ کوئی بڑا سمھا جاتا ہے اور نہ کوئی چھوٹا ، سبھی لوگ ایک ساتھ ہوتے ہیں ،تو اس سے معلوم ہوا کہ قربانی جہاں ایک فریضے کی ادائے گی وہیں ہمارے سماجی افراد کا تعاون ہے اور معاشرتی مسائل کا حل بھی ہے ، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ بندۂ مومن وہی جذبہ پیدا کرے جو حقیقت میں قربانی میں مطلوب ہے یعنی اس کے ذریعے سے اسلام و ایمان میں تازگی لائے ، والدین کی فرماں برداری کرے ، احکاماتِ خداوندی کو بجالانے میں خلوص کو ذہن میں رکھے ، سماجی میں لوگو کا تعاون اور معاشرتی مسائل کا حل ڈھونڈیں.
دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی کو قربانی کی نعمت سے مالامال فرمائے اور اس کی معنویت اور اہمیت کی سمجھنے کی توفیق دے اور صحیح معنوں میں احکامِ خداوندی کو بجالانے کی توفیق دے آمین ثم آمین
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم✍️ سبطین رضا مصباحی، کشن گنج بہار۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں