مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
بدیہیات میں اختلاف ناقابل قبول
(1)بعض دیابنہ معبودان کفارکی تعریف وتوصیف اور مدح سرائی میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ وہ نثر ونظم ہردو صنف کو معبودان کفار کی مدح سرائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ شرعاً بھی غلط ہے اور اس میں مسلمانوں کا کوئی دنیاوی فائدہ بھی نہیں۔ نہ قوم ہنود کا ظلم وستم مسلمانوں پرکم ہوتا ہے،نہ ہی وہ ہمیں انسان ماننے کوتیار ہیں۔ اہل ہند کی نظر سے کچھ پوشیدہ نہیں۔ اگربعض غیر مسلموں نے مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتو شکریہ ادا کرنے کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو شرعاً جائز ہو۔جائز طریقے بے شمار ہیں۔
(2) کفار ومشرکین کے مذہبی جذبات کی تعظیم واحترام اور اس کا اعزاز واکرام کفر ہے۔ جب کوئی مسلمان معبود ہنود کی تعریف وتوصیف اور مدح سرائی کرتا ہے تو قوم ہنود کو خوشی ہوتی ہے۔ اس سے اس کے مذہبی جذبات کی تسکین ہوتی ہے۔
اسی مذہبی جذبہ کی تسکین کے لیے قوم ہنود مسلمانوں کو ”جے شری ……“کا نعرہ لگانے کہتی ہے۔
خواہ مسلمان اس کے معبود ہنود ہونے کی حیثیت سے یہ نعرہ لگائے،یا بھارت کے ایک راجہ ہونے کی حیثیت سے یہ نعرہ لگائے،بہر صورت قوم ہنود کو خوشی ہوتی ہے۔
وہ لوگ بس یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی یہ نعرہ لگائیں۔معبود ہنودسمجھ کر یہ نعرہ لگائے، یا بھارت کے راجہ ہونے کی حیثیت سے یہ نعرہ لگائے،اس سے ان کوکچھ سروکار نہیں۔ اس نعرہ سے ان کے مذہبی جذبات کا احترام ہوتا ہے، اس لئے وہ اس نعرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
عام مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ نعرہ نہیں لگا سکتے، کیوں کہ یہ غیروں کے معبود کا نعرہ ہے۔ اہل علم کومعلوم ہے کہ جوکام صرف کفار کرتے ہوں،وہ شعار کفر ہے۔کفار کے مذہبی جذبات کا احترام واعزاز دراصل تعاون علی الکفر ہے۔خصوصاً جو مجلس معبودان کفار کے ذکر اور اس کے اعزاز واکرام ہی کے لیے منعقدہو۔ایسی مجلس میں معبودان کفار کی توصیف بیانی سے اس کے مذہبی جذبات کی تسکین زیادہ ہوگی۔ وہ زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔
لامحالہ لوگ اسی وقت خوشی محسوس کرتے ہیں،جب ان کی عزت افزائی ہو۔ تذلیل وتنقیص پر لوگ خوش نہیں ہوتے،بلکہ ناراض ہوتے ہیں،پس کسی قوم کے معبودکی تو صیف بیانی اس کے مذہبی جذبات کی تعظیم واکرام ہے،کیوں کہ معبوداور مذہب سیاسی امور میں سے نہیں، بلکہ مذہبی امور میں سے ہے۔معبودان کفار کی مدح سرائی میں سیاسی جذبات کا احترام نہیں،بلکہ مذہبی جذبات کا احترام ہے۔ خواہ اپنی جانب سے کوئی تعریفی جملہ کہے،یا بلا انکار کسی دوسرے کا تعریفی جملہ نقل کرے۔ بہر صورت مذہبی جذبات کا احترام ثابت ہوگا۔جب محض معبودان کفار کی جے پکارنا کفر ہے تو تعریف وتوصیف کیوں کفر نہیں؟
(3)جب کوئی پنڈت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف کرے تو مسلمان خوش ہوجاتے ہیں، کیوں کہ وہ ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نہیں مانتا ہے، اس کے باوجود ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصف کر رہا ہے۔ بعض دینی جلسوں میں پنڈت وپجاری بھی جاتے ہیں اوروہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ مسلمان سن کربہت خوش ہوتے ہیں۔خواہ وہ پنڈت کائنات عالم کے ایک بے مثال انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصیف کرے،یا مسلمانوں کے نبی ورسول ہونے کی حیثیت سے تعریف وتوصیف کرے۔بہر صورت مسلمان خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہ سب بدیہی باتیں ہیں۔
(4)اگر کوئی شخص اللہ ورسو ل (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی بے ادبی کرتا ہے تو مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں،کیوں کہ اس سے ان کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچتی ہے۔ جب کہ اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی تعریف وتوصیف سے مسلمان خوش ہوجاتے ہیں۔کسی قوم کے معبود کی تعریف وتحسین سے اس قوم کے مذہبی جذبات کا احترام ہوتا ہے۔ گرچہ اس کے معبود کی تعریف کسی بھی حیثیت سے کی جائے۔
(5)اگر کوئی قادیانی سیرت نبوی پر کتاب لکھے،یا لیکچر دے تو مسلمان خوشی محسوس نہیں کرتے،بلکہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم لوگ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہو،اس لیے تم نے جوسیرت مصطفویہ بیان کیا،وہ تمہارے حق میں کافی نہیں۔
اگر قادیانی اپنی مسجد کا نام ”مسجد مصطفےٰ“ رکھ دے تو مسلمان خوش نہیں ہوں گے، کیوں کہ سب کو معلوم ہے کہ قادیانی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ونبی مانتے ہیں،گر چہ صحیح طورپر نہیں مانتے،جس کے سبب ان لوگوں پر حکم کفر نافذ کیا گیا ہے۔
اگر کوئی مسلم کہلانے والا اپنی مسجد کا نام ”مسجدگوتم بدھ“رکھ دے تو گوتم بدھ کو معبودماننے پھولے نہیں سمائیں گے۔ ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوگی،بلکہ وہ لوگ تعمیر مسجد میں حصہ بھی لیں گے، کیوں کہ اس میں ان کے معبود کی عز ت افزائی ہے۔ان کے مذہبی جذبات کی تعظیم وتوقیر اور اعزاز واحترام ہے۔خواہ گوتم بدھ کے معبودقوم بدھ ہونے کی حیثیت سے یہ نام رکھے،یاایک راجکمارہونے کی حیثیت سے مسجد کا نام گوتم بدھ کے نام پر رکھے۔گوتم بدھ(400-480:قبل مسیح) کپل وستو (نیپال)کے راجہ شدھودن کا شہزادہ تھا۔
بدھسٹ لوگ اس نام پر خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے،لیکن مسلمان ناراض ہوں گے۔ شاید لوگ اس مسجد میں نماز بھی پڑھنے نہ جائیں۔جن شہروں کے نام مسلم سلاطین وغیرہ کے نام پر ہیں،وہ نام بدلے جارہے ہیں۔ لامحالہ ہرکوئی یہی سمجھتا ہے کہ جن کے نام پر شہرکا نام ہے،اس میں ان کی عزت افزائی ہے، اسی لیے نام بدلے جارہے ہیں۔
معبودان کفار کی مدح وستائش میں ان کومعبود ماننے والوں کے مذہبی جذبات کی تعظیم واکرام ضرور ہے۔اگر کسی کویہ بدیہی بات نہ سمجھ میں آئے تو سمجھنے کی کوشش کرے۔
(6)اگر قوم مسلم اپنی مسجد کا نام ”مسجد عیسیٰ ومسجد موسیٰ“رکھیں تو یہود ونصاریٰ اس جانب توجہ نہیں دیں گے،کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مذہب اسلام میں ہرنبی ورسول کو ماننے اور ان کی تعظیم وتوقیر کا حکم ہے۔ مسلمانوں نے اپنی مسجد کا نام ”مسجد عیسیٰ ومسجد موسیٰ“رکھا ہے تو وہ اپنے مذہب کے اعتبارسے رکھا ہے، نہ کہ یہود ونصاریٰ کی رعایت میں۔
سوال: نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنا معبود بنالیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصیف بھی نصاریٰ کے مذہبی جذبات کا احترام ہے۔ ایسی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃالسلام کی مدح سرائی کا کیا حکم ہوگا؟
جواب:(الف)اگر قوم مجوس حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصیف کرے تو نصاریٰ بہت خوش ہوں گے، کیوں کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی ہیں۔قوم مجوس کا کوئی تعلق حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام سے نہیں۔ لامحالہ قوم مجوس اسی سبب سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ذکر خیر کرے گی کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فالوورس(Followers) اوران کے امتی ہیں۔
اگر مجوسی لوگ نصاریٰ کی مذہبی مجلس میں جاکر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصیف کریں، تب تو یہ بات یقینی ہے کہ نصاریٰ کی مذہبی مجلس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ذکر خیرمحض اسی لیے قوم مجوس نے کیا ہے کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فالوورس ہیں۔انہیں خوش کرنے کے لیے ان کے نبی وپیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر خیرکیا ہے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ ایسی صورت میں نصاریٰ خوش ہوں گے۔
(ب)اگر مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعریف وتوصیف کریں تو نصاریٰ کے خوش ہونے کی وجہ ظاہر نہیں، کیوں کہ نصاریٰ کو معلوم ہے کہ مسلمان بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نبی ورسول مانتے ہیں اور حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم وتوقیراوران کا ذکر خیر مسلمانوں کے مذ ہب کا ایک حصہ ہے۔ خود مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃووالسلام کا ذکر خیر ہے۔
مسلمان اگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی توصیف بیانی کریں تو نصاریٰ اسی وقت خوش ہوں گے جب مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مدح سرائی نصاریٰ کے عقائدباطلہ کے مطابق کریں،یعنی ابن اللہ اور ثالث ثلاثہ ہونے کی حیثیت سے تعریف وتوصیف کریں،اورحضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کوابن اللہ اورعقیدۂ تثلیث مان لیں۔ اس کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے کہ جب تک مسلمان ان کے مذہب کونہیں مانتے،تب تک وہ مسلمانوں سے ہرگزخوش نہیں ہوں گے۔ارشاد الٰہی کولامحالہ ہر مسلمان مانے گا۔
ارشاد الٰہی ہے:(ولن ترضی عنک الیہود ولاالنصاری حتی تتبع ملتہم)(سورہ بقرہ:آیت120)
ترجمہ:اوریہودی اورعیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے، جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں۔(کنزالایمان)
جب نصاریٰ کے اعتقادات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توصیف بیانی ہو، تب وہ خوش ہوں گے اورصرف اسی صورت میں ان کے مذہبی جذبات کا احترام ثابت ہوگا۔ ایسی توصیف بیانی بجائے خود بھی کفر ہے اور کفار کے مذہبی جذبات کا احترام ہونے کی وجہ سے بھی کفر ہے۔بعض امور ہمارے اورنصاریٰ کے درمیان قدر مشترک ہیں، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا نبی ورسول ہونا،انجیل کا آسمانی کتاب ہونا،وغیرہ۔
ان امور مشترکہ کے ذکر سے نصاریٰ خوش نہیں ہوں گے۔ مختلف فیہ امور میں ان کی تائید کی جائے، تب وہ خوش ہوں گے۔دیگر معبودان کفار کو ماننا ہمارے اسلام کا حصہ ہی نہیں، پس کسی طر ح بھی ان معبودان کفار کا ذکرخیر کوئی مسلمان کرے،ان کے ماننے والے خوش ہوں گے۔ کوئی مسلمان اہر من ویزدان کی تعریف کرے تو مجوسی لوگ خوش ہوجائیں گے۔
(ج) اللہ تعالیٰ نے کفارومشرکین کے بارے میں فرمایا:(انکم وما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جہنم انتم لہا واردون:: لوکان ہؤلاء اٰلہۃ ما وردوہا وکل فیہا خلدون)(سورہ انبیا:آیت 98)
ترجمہ:بے شک تم اور جوکچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہو، سب جہنم کے ایندھن ہو۔ تمہیں اس میں جانا۔ اگر یہ خدا ہوتے، جہنم میں نہ جاتے، اور ان سب کو ہمیشہ اس میں رہنا۔
(کنز الایمان)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ کفار اور معبودان کفار جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ بعض قوموں نے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام اورمومنین صالحین کو معبودبنالیا ہے۔وہ حضرات یقینا اس حکم سے مستثنی ہیں۔ دیگر معبودان کفار جہنم میں ڈالے جائیں گے۔مشرک کا معنی یہی ہے کہ جو اللہ کے ساتھ دوسرے کوبھی معبود مانے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کوبھی وہ لوگ معبود مانتے ہیں اوراللہ تعالیٰ اس حکم میں داخل نہیں،اسی طرح اللہ والے بھی اس حکم میں داخل نہیں۔ مسلمان اللہ اوراللہ والوں کی مدح سرائی کرے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ بھی تو معبود مشرکین ہے، یا اللہ والے بھی تو معبود مشرکین ہیں تو اللہ اوراللہ والوں کی تعریف وتوصیف بھی ممنوع ہوگی۔ جو حکم سے مستثنی ہو، اس کے لیے حکم ثابت نہیں ہوتا۔ یہ بدیہی بات ہے۔ بدیہیات میں اختلاف یا تو بے عقل کرتا ہے، یاحق کا معاند۔”من دون اللہ“کے معنی پر غور کیا جائے۔ان شاء اللہ تعالیٰ مسئلہ واضح ہوجائے گا۔
(د)قرآن مجید کی بہت سی آیات طیبہ میں ”من دون اللہ“ وارد ہے۔وہاں پر ”من دون اللہ“ کا وہی معنی مراد ہوگا جو شریعت اسلامیہ کے موافق ہو۔ شیخ نجدی نے کتاب التوحید میں اور اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان میں اس کے غلط معانی بیان کیے ہیں۔
ارشادالٰہی ہے:(ام اتخذوا من دون اللّٰہ شفعاء قل ا ولو کانوا لا یملکون شیئا ولا یعقلون::قل للّٰہ الشفاعۃ جمیعا-الایۃ)
(سورہ زمر:آیت44-43)
ترجمہ: کیا انہوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں۔تم فرماؤ:کیا گرچہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں، اور نہ عقل رکھیں۔تم فرماؤ:شفاعت تو سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔(کنز الایمان)
منقوشہ بالا آیت مقدسہ میں ”من دون اللہ“ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور مومنین صالحین خارج ہیں، کیوں کہ وہ اہل اللہ ہیں۔اس آیت طیبہ میں ”من دون اللہ“سے وہ مراد ہیں جو اہل اللہ نہیں۔جو اہل اللہ ہیں،وہ دربار الٰہی میں بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ان کی شفاعت قبول ہوگی۔ ہمارے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو شفاعت کبریٰ کا منصب عطا فرمایا گیا ہے۔جب منصب عطا فرمایاگیا توشفاعت بھی قبول ہوگی، جیسا کہ اہل اسلام کا متوارث عقیدہ ہے اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:09:ستمبر 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں