Header Ads

معبودان کفار اور شرعی احکام قسط دہم (جزدوم)

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

معبودان کفار اور شرعی احکام

قسط دہم (جزدوم)

بحث چہاردہم:

 کتھائی مجلس کے فیصلے 

کتھائی مجلس کے ایک فیصلے میں قائل کے اقوال کا تجزیہ کیا گیا ہے، اس پربحث کے واسطے قائل کے اقوال کو نقل کرنا ہوگا۔ہمارا مقصود صرف یہ ہے کہ ایسے اقوال کفریہ ہیں یا غیر کفریہ۔نہ کسی خاص قائل کا شرعی حکم بیان کرنا مقصود ہے،نہ کسی فیصل پر تنقید مطلوب۔

قائل نے اپنے اقوال کو محتاط انداز ہی میں بیان کیا ہے۔ہاں، یہ ضرورہے کہ حکم شرعی وارد ہوتا ہے۔دراصل شریعت اسلامیہ میں غیرمومن معبودان کفارکے احکام سخت ہیں۔ 

ہابیل کو قتل کرنے کے بعد قابیل نے شیطانی وسوسہ سے آتش پرستی شروع کی۔اس طرح شرک اور مخلوق پرستی کاآغاز حضرت آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عہد ہی سے ہوگیا۔  

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بت پرستی کو فروغ دیا۔آج تک دنیا میں شرک ومخلوق پرستی اور بت پرستی رائج ہے۔

 چوں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃالسلام شرک کے خاتمے اور دعوت توحید کے واسطے مبعوث ہوئے،اس لیے معبودان باطل کے احکام ہمیشہ سخت ہی رہے۔بتوں کی مدح وستائش کفر پر تعاون اور کفار کے راہ حق سے دور ہونے کا سبب ہے۔اسلامی کتابوں میں بوجہ ضرورت ضمنی طورپربتوں کاذکرہے،مدح وتوصیف نہیں۔

 بوجہ حاجت خطاب مذکورکا پس منظراور خطیب کے اقوال منقولہ ذیل ہیں۔

قائل نے لکھا:”میری یہ تقریر گجرات کے ایک شہر میں ہوئی ہے۔ جب گجرات کے فساد میں مسلمانوں کا قتل عام ہواتھا، اوران کی عزت واملاک کی بے پناہ بربادی ہوئی تھی،مگر مراری باپونے اپنے ”رن کچھ“علاقے میں بھر پور ورک کرکے امن وامان قائم رکھا۔اس دیار میں مسلمانوں کی آبادی بہت ہے،مگر قتل وغارت گری تو کیا،کسی کی نکسیر بھی نہ ٹوٹی۔ 

انہوں نے ”گاندھی دھام“گجرات میں رام کتھا کی ایک محفل رکھی،جس میں سبھی لوگوں کو مدعو کیا اور اپنے اپنے نقطہ نظر کے لحاظ سے اظہار خیال کی دعوت دی۔ 

ان دنوں گیارہویں یابارہویں شریف کے سلسلے میں میرے تقریر ی پروگرام اسی دیار میں ہورہے تھے۔لوگوں نے مجھے بھی دعوت دی،اور وہاں کے سنی مسلمانوں نے زور دیا کہ آپ کو اس پروگرام میں شرکت کرلینی چاہئے۔مراری باپو نے یہاں باہمی امن وامان اور رواداری کی بڑی اچھی فضا قائم کی ہے۔ آپ کی شرکت سے اس میں اورپختگی آئے گی، اور مسلمانوں کا بھلا ہوگا۔ان حضرات کی تحریک پر اس علاقے اور اس ماحول کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ 

چوں کہ یہ پروگرام رام کے نام سے منسوب تھا،اس لیے رام کی امن پسندی،صفائی وپاکیزگی وغیرہ سے متعلق ہندؤں کے جو خیالات ہیں،انہی کو ان کے درمیان رکھتے ہوئے میں نے ان پر حجت قائم کی، اور کشت وخون سے ہٹ کر امن وآشتی کے سایہ میں زندگی گزارنے کی ہدایت کی۔مسلم دشمن اورفرقہ پرست عناصر جہادکوآتنک واد کی صورت میں دکھا کر مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے میں نے جہاد کے اصل معنی بتاتے ہوئے اسلام او ر مسلمانوں کا دفاع کیا اوریہ واضح کیا کہ خود رام کوماننے والے،رام کے راستے سے ہٹ چکے ہیں“۔ (یہ پس منظر خود قائل نے اشرفیہ کے استفتا میں لکھا ہے)

مذکورہ پس منظر سے واضح ہے کہ قائل نے نیک نیتی کے ساتھ خطاب کیا تھا۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ اسی نیک نیتی کے تصدق اسے توبہ ورجوع کی توفیق عطا فرمائے:(آمین)

قائل نے اقرارکیا کہ ہم نے بطور حجت ایسا کہا۔ فیصل نے بھی فرمایا کہ بطور حجت اور جدل ومناظرہ کے طورپر ایسا کہا گیا،لیکن جدل ومناظرہ میں مخالف کے قول کونقل کرکے اس کا رد ہوتا ہے،جب کہ مذکورہ خطاب میں مخالف کے قول کی باربار تاکید وتائیدہے۔مستقبل میں کوئی مومن بھائی ایسی بلا میں مبتلا نہ ہو۔اس موضوع پر طویل تحریر کا یہی مقصد ہے۔
خطاب کا ضروری حصہ منقولہ ذیل ہے۔آخری حصہ ہم نے نقل نہیں کیا۔قائل نے کہا:

(1)ایک کوہم ہندوکے نام سے جانتے ہیں،دوسرے کو مسلمان کے نام سے۔ باپو نے ہمیں یہ مزاج دیا ہے کہ ہندوشروع ہوتا ہے ”ہا“سے۔ مسلم شروع ہوتا ہے،”ما“سے۔ 
 
”ہا“ کو وہاں سے نکالو۔”ما“کو یہاں سے نکالو!جوائنٹ کردو تو یہ ”ہم“بنتا ہے۔

 ”ہم“بن کررہو،تاکہ مضبوط ہندوستان بنا رہے۔

(2)میرے بزرگو، میرے ساتھیو، میری بہنو، ماتاؤ! مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب اس ملک کے Ex Prime Minister of Indiaوشو ناتھ پرتاپ سنگھ کے ساتھ میں آل انڈیا جنرل سکریٹری جنتا دل کی حیثیت سے ایز اے ممبر آف پارلیامنٹ کام کر رہا تھا، اس وقت انسانیت کی بات چلی،آدمیت کی بات چلی، مانوتا کے اپاتھان کی بات چلی تو وی پی سنگھ صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ…… بھائی! کبھی موقع ملے تو مرار جی باپوکا درشن ضرور کرلیجئے۔

(3)آج ہم اس رام کتھا میں ہیں، اور مراری باپو ہی کو حق پہنچتا ہے، رام کتھا کی کتھا بیان کرنے کا۔رام کو کس طرح سے لوگوں نے یکھا،سمجھا، پرکھا؟میں نے ایز اے مسلمان کس طرح دیکھا؟ میری تاریخ ادب اردو نے شری رام کی حیثیت کوکس طرح جانوایا اورپہچانوایا؟ میں ڈاکٹر …………کی اس نظم کا حوالہ دوں گا جس نظم کا عنوان ہی ہے:”رام“۔
ڈاکٹر …………لکھتے ہیں:

ہے ……کے وجود پہ ہندوستاں کوناز  
 اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند

شری ……کا وجود ایسا پاک اور پوتر وجود ہے۔ان کا کیرکٹر اتنا نرالا،پیارا اور بے مثال ہے کہ جو انٹیلیکچول کلاس ہے، جو چیزوں کی گہرائی میں اتر کر ان کی حقیقتوں کو جاننے کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ شری ……کو امام ہند مانتا ہے۔ 
امام سے بڑا کسی کا درجہ نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں سب سے بڑے،اس انسان کو امام ہند کے نام سے ڈاکٹر ……نے یاد کیا ہے۔……نام ہے سچائی کا جو جھوٹ کو پراجت کرتا ہے۔ رام نام ہے مظلوموں اوردکھی لوگوں کی حمایت کا، جو ظلم کی گردن پکڑتا ہے۔ ……نام ہے اس ٹھنڈی ہوا کا جو جھلساتی ہوئی دھوپ میں انسان کے لیے چھتر چھایا بن جاتی ہے۔
……نام ہے سورج کی اس روشنی کا جس کے ذریعہ اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ …… نام ہے چاند کی اس چاندنی کا جس کے ذریعہ لوگوں کوسکون ملتا ہے۔

میں اسی ……کو جانتا ہوں جس نے نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کو نہیں دیا۔نفرت کے مقابلے میں محبت کے اس نے بادل برسائے۔ انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کو واپس کروایا۔…… کے ساتھ ایک آتنگ وادی نے جوآتنکت کرنے کی گھٹنا رچی تھی، ہم اسے راون کے نام سے جانتے ہیں۔اس آتنک واد کے خلاف شری ……نے جہاد چھیڑا تھا۔

(4)آج لفظ جہاد اور لفظ آتنک پر بڑی بحث ملک بھر میں ہورہی ہے۔ میں باپوکی موجودگی میں اپنا سوبھاگیہ سمجھتا ہوں کہ اپنے وچاروں کوآپ کے سامنے دو چار منٹ کی اگر اجازت ہوتو رکھ دوں۔ایک چیز ہے:”آتنک واد، جس سے ہمارا پورا ملک پیڑت ہے۔ 

ہمارا ہی ملک نہیں،پورا سنسار پیڑت ہے۔ کسی کوآتنکت کرنا یہی توہے آتنک واد۔ 

اورجو ایسا کرتب کرتا ہے،وہی آتنک وادی۔ایسے آتنک واد کا توڑ اور ایسے آتنک واد کے خلاف لڑائی لڑنے کا نام عربی زبان میں جہاد ہے۔ اس لفظ ”جہاد“کواتنا اَپوتر کرکے رکھا ناپاک لوگوں نے کہ جو لڑائی آتنک کے خلاف لڑنے کا ہتھیار تھا، اسی ہتھیار کو آج آتنک کا نام دے دیا گیا۔ جہاد نام ہے جد وجہد کا۔پریشرم کا۔پازیٹیو وے میں پریشرم کا نام جہاد ہے،اور نگیٹو وے میں پریشرم کانام آتنک وادہے۔ اسی نگیٹو وے میں جب پریشرم کیاتھا راون نے تو شری ……نے اس کے خلاف جدوجہد کیا تھا مانوتا کی عزت بچانے کے لیے۔

صرف ……کی عزت کا سوال نہیں تھا۔قیامت کی صبح تک پیدا ہونے ان ساری سیتاؤں کی عزت کا سوال تھا، جن کی عزت کے لیے ……نے اپنے جہاد کا قدم اٹھا یا تھا۔

(5)اس عظیم نام کو لیتے ہی نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے۔جہاں وہ نام لیا جائے اوروہاں سماج میں نفرت موجود ہوتو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شری ……کا نام زبان سے تو لیتے ہیں، اپنے عمل میں، اپنے کرتب میں،اپنے سنسکار میں شری ……کو داخل نہیں کرتے۔الخ

قائل کے مزید چند اقتباس ہیں۔ اس بحث میں اس کی ضرورت نہیں،لہٰذا نقل کرنا غیر مفید ہے۔مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ غیرمومن معبودان کفار کے بارے میں زبان نہ کھولیں۔ شرعی احکام سخت ہیں، جس طرح اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی ذرا سی بے ادبی ایمان کو ملیامیٹ کردیتی ہے۔وہی حال معبودان باطل کی تعظیم کا ہے۔
قائل نے جہاد اسلامی کی عمدہ تفہیم وتشریح کی۔اغیار کے مابین ہمت وجرات کے ساتھ جہاد کی خوبی بیان کی۔ بہت مبارک بادیاں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے:(آمین)

 قائل مذکورنے حتی المقدور سنبھل کر خطاب کیا۔ الفاظ وکلمات سے اسلامی درد بھی آشکار ا ہے۔ نادانستہ کچھ لغزشیں واقع ہوگئیں۔شرعی حکم وارد ہوگا۔ چوں کہ مذہب خداوندی کی حمایت کے قصد سے یہ کلمات کہے گئے تھے۔امیدکہ اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ احباب بھی توبہ کی ترغیب دیں۔کسی کی آخرت کا سوال ہے۔حکم شرعی سے بچنے کی راہ نظر نہیں آتی۔ میں نے مختلف جہات سے غورکیا:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب


قول اول 

ایک فیصل نے رقم فرمایاکہ قائل نے پیراگراف (۳)(ب)میں: ”لوگوں“ اور ”میں“کے تقابل سے ……کا نام لیتے بھی نفرت کا کاروبار کرنے والوں پر تعریض کرتے ہوئے کہا ہے کہ: جولوگ ……کا نام لیتے ہوئے بھی انسانیت وآدمیت کے خلاف کام کرتے ہیں، وہ گویا اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ……بھی ایساہی تھا۔ اس نے یہی درس دیا ہے۔

جواب:بتوں کی مدح وستائش ان کی تعظیم ہے اوربتوں کی تعظیم کفر ہے۔ کوئی شخص کفریہ کلمہ بولے اور بطور تعریض کوئی دوسرا معنی مراد لے تو بھی حکم کفر عائد ہوگا۔بحث دہم میں تعریض وتوریہ کی تعریف ا ورحکم کی تفصیل ہے۔

قول دوم:

(2)فیصل نے رقم فرمایا کہ فیصل حضرات کو فیصلہ سے قبل خطاب کا موقع و محل دریافت کرنا چاہئے تھا۔

جواب: تکفیر کلامی میں احتمال فی الکلام ,احتمال فی التکلم اور احتمال فی المتکلم کو دور کرنے کے واسطے لازمی شرائط کی تکمیل ضروری ہے۔ فقہی فتاویٰ میں اکثر محض قول کا حکم بتایاجاتا ہے کہ یہ قول کفریہ ہے،اور اس کے قائل کاشرعاً یہ حکم ہے۔وہ کسی خاص قائل کا حکم نہیں ہوتا،بلکہ جو کوئی بھی ایسے امر کا مرتکب ہے، اس پر حکم کفر ہے۔

 فیصل نے جس منسلکہ فتویٰ پر جرح فرمایا،اس میں بھی قول کا حکم بیان کیا گیا ہے۔کسی خاص قائل کا حکم نہیں،بلکہ قول کے پیش نظر حکم شرعی کا بیان ہے۔نہ سوال میں کسی کا نام مذکور ہے، نہ جواب میں نام مذکور ہے۔ یہ تکفیر کلامی شخصی نہیں،بلکہ قول کا حکم بیان کیا گیا۔

منسلکہ فتویٰ میں اسلام سے خروج کا لفظ دیکھ کر لوگوں کو تکفیر کلامی کا شبہہ ہوا۔

 کفرفقہی کا حکم بیان کرتے وقت بھی بسا اوقات اسلام سے خروج اور بیوی سے نکاح ٹوٹ جانے کا ذکر ہوتا ہے۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

قشقہ لگانے کے متعدد احکام 

قشقہ لگانا شعار کفربھی ہے، اور مہاد یوکی عبادت بھی۔ جب عبادت کی نیت سے قشقہ نہ لگائے تو کفرفقہی ہے۔ جب عبادت کی نیت سے لگائے،یا جائز سمجھ کر لگائے تو کفرکلامی۔

(1)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”قشقہ کہ ماتھے پر لگایا جاتاہے، صرف شعار کفار نہیں،بلکہ خاص شعارکفر،بلکہ اس سے بھی اخبث،خاص طریقہ عبادت مہادیو وغیرہ اصنام سے ہے۔اس کے لگانے پر راضی ہونا کفر پر رضا ہے،اوراپنے لیے ثبوت کفر پر رضا بالاجماع کفر ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم ص 676-جامعہ نظامیہ لاہور)

 قشقہ لگانا شعار کفر بھی ہے اورعبادت کفار بھی۔ جو عبادت کی نیت سے لگائے،وہ کافر کلامی ہوگا۔ کفر فقہی کا حکم اس وقت ہوگا جب نہ عبادت کی نیت ہو، نہ اسے جائزسمجھے۔

(2)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے تحریر فرمایا:”کارڈ میں بعض افعال گاندھویہ کہ فقہاً کفر ہیں، جیسے قشقہ لگانا،کافر کی جے پکارنا، کافر کی تعظیم،گناکر ان کے فاعلوں کوکہا ہے کہ یہ مسلمان یا وہ۔ان میں کون مسلمان ہے،بلا شبہہ جس طرح کفر فقہی میں مبتلاہوئے، اور استحلال کریں توکفر کلامی میں۔بعینہ یہی حالت فقہاً وکلاماً ان افعال واقوال کے مرتکبین کی ہے‘‘۔(فتاویٰ رضویہ:جلد15:ص160-جامعہ نظامیہ لاہور)

(3)”ماتھے پر قشقہ لگانا خاص شعار کفر ہے،اوراپنے لیے جو شعار کفر پر راضی ہو، اس پر لزوم کفر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ من شبہ بقوم فہو منہ۔جوکسی قوم سے مشابہت کرے، وہ انہیں میں سے ہے۔ اشباہ والنظائر میں ہے۔

عبادۃ الصنم کفرولا اعتبار بما فی قلبہ۔وکذا لوتزنر نزنار الیہود والنصاری -دخل کنیستہم اولم یدخل:واللہ تعالی اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم:جزدوم:ص 316 -رضا اکیڈمی ممبئ)


قشقہ لگانے والوں کے احکام

قشقہ لگانے والوں سے متعلق امام اہل سنت قدس سرہ العزیزکے فتاویٰ ذیل میں منقول ہیں۔یہ کفر فقہی کے فتاویٰ ہیں۔ان میں قائل سے نہ کوئی سوال کیا گیا،نہ ہی نسبت کی تحقیق۔ دراصل ایسے فتاویٰ کسی خاص شخص سے متعلق نہیں ہوتے،بلکہ ایسے قول وفعل کاحکم بیان کیا جاتا ہے۔ان فتاویٰ میں ہے کہ ملزم اسلام سے نکل گیا اوراس کی بیوی نکاح سے نکل گئی۔

(1)مسئلہ:بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمدللہ العلی العظیم والصلوٰۃ علی النبی الکریم واٰلہ وصحبہ المکرمین آمین!

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چندوسی میں مسلمانوں نے ہنود، مشرکین سے اتفاق کرنے میں یہ آثار ظاہر کئے کہ سوائے نوبت نقارے نوازی اور ناچ رنگ نا مشروع کے ایسا مبالغہ اور عروج ان کی رسوم جلادینے میں کہ بعض فریق تلک، قشقہ، سندے برہمنوں کے ہاتھ سے اپنی پیشانی پر کھنچوا کر خوش اور مسرور ہوا،اور بعض فریق برہمنوں کے ساتھ جے رام چند رجی اور جے سیتاجی کی بول اٹھا اور بعض فریق نے ہمراہ ہنود تخت رواں نستہ عورتوں کے گشت کی،اور وہ تخت رواں خلاف سالہائے گزشتہ پیوستہ کے بے خوف و خطر گلی کوچہ پھر اکر مسلمانوں کے جائے جلوس پر ہنود لائے، مسلمانوں نے سوائے تواضع پان، پھول اور ہار، الائچی وغیرہ ان کے آنے کا شکریہ بفخریہ ادا کرکے شیرینی کی تھالی پیش کی۔اس عمل سے کس فریق کی عورت نکاح سے باہر ہوئی اور کون مبتلائے کفر ہوا،اور کون مرتکب گناہ کبیرہ ہوا، اور ہر فریق کی توبہ کی صورت کیا ہے؟

الجواب: وہ جنہوں نے برہمن سے قشقہ کھنچوایا،وہ جنہوں نے ہنود کے ساتھ وہ جے بولی،کافر ہوگئے۔ان کی عورتیں ان کے نکاح سے نکل گئیں،اور وہ کہ گشت میں شریک ہوئے اگر کافر نہ ہوئے تو قریب بکفر ہیں۔

حدیث میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من سود مع قوم فھو منھم-وفی لفظ:من کثر سوادقوم۔جو کسی قوم کا مجمع بڑھائے وہ انہیں میں سے ہے۔ 

اور وہ جنہوں نے بت کے لانے پر شکریہ ادا کیا اور خوش ہوئے۔ان پر بھی بحکم فقہا کفر لازم ہے۔غمز العیون میں ہے:اتفق مشائخنا ان من رأی امرالکفار حسنا فقد کفر۔جس نے کافر کے عمل کو اچھا جانا وہ باتفاق مشائخ کافر ہوجاتا ہے۔ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں اور از سر نو کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں: واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ:جلدچہاردہم:ص319-318-جامعہ نظامیہ لاہور)

 منقولہ بالا فتویٰ میں دوفریق یعنی قشقہ لگانے والوں اور معبودان کفار کی جے پکارنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی عورتیں نکاح سے باہر ہوگئیں،یعنی حکم کفر ان لوگوں کے لیے ثابت ہے۔بعد میں متعدد فریق کے بارے میں فرمایاگیا کہ ان لوگوں پر بحکم فقہا کفر لازم آتاہے۔وہ لوگ توبہ،تجدید ایمان اور تجدید نکاح کریں۔لازم آنا الگ ہے، اورثابت ہوجانا الگ۔کفر لازم آنے پر بھی توبہ وتجدید ایمان وتجدیدنکاح کا حکم دیا گیا۔

اگر عبادت کی نیت سے قشقہ لگایا تویہ کفر کلامی ہے۔ اسی طرح جائز سمجھ کرقشقہ لگایا،یا جائز سمجھ کرمعبود ان باطل کی جے پکار ا،تب کفر کلامی ہے،ورنہ کفر فقہی۔حرام قطعی کو حلال سمجھنا کفر کلامی ہے۔اس صورت میں بیوی نکاح سے نکل گئی اور نکاح ٹوٹ گیا۔

 اگر عبادت کی نیت سے قشقہ نہیں لگایا،نہ جائزسمجھ کرلگایا،نہ جائزسمجھ کرجے پکار ا تو کفر فقہی ہے۔ کفرفقہی کی صورت میں فقہا کے اصول کے مطابق عورت نکاح سے نکل جاتی ہے،لیکن چوں کہ متکلمین کے اصول کے مطابق کفر ثابت نہیں ہوتا ہے،لہٰذا فقہا ئے کرام فساد نکاح کا حکم نہیں دیتے،بلکہ صرف احتیاطی طورپرتجدید نکاح کا حکم دیتے ہیں۔

در اصل کافر فقہی من کل الوجوہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا،بلکہ فقہا کے اصول کے مطابق اسلام سے خارج ہوتا ہے، یعنی قریب الخروج۔

 (2)امام اہل سنت علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”علمانے دوسرے کے کفر پر راضی ہونے کو کفر لکھا ہے۔ الرضا بالکفر کفر۔ نہ کہ دوسرے کو کافر بنانے میں کوشش۔یہ بلا شبہہ بحکم فقہا کفر ہے۔ بحکم فقہائے کرام ایسے شخص کی عورت اس کے نکاح سے نکل جائے گی“۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد ششم:ص22-رضا اکیڈمی ممبئ)
 
منقولہ بالا فتوی میں کفر فقہی کی صورت میں بھی بتایا گیا کہ بیوی نکاح سے نکل گئی۔ 


(3)امام اہل سنت نے اپنی خوشی سے قشقہ لگوانے والوں کے بارے میں رقم فرمایا:
”قشقہ زنار کی طرح شعارکفر، بلکہ اس سے بدتر شعاربت پرستی ہے۔ زنار بعض ملکوں کے یہود ونصاریٰ میں بھی ہے،اورقشقہ خاص علامت وشعار مذہب مشرکین وعبدۃ الاصنام۔ وہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے،اور ان کی عورتیں ان کے نکاح سے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلدچہاردہم:ص 678-جامعہ نظامیہ لاہور)

(4)امام اہل سنت نے ہنود سے قشقہ لگوانے والے دوفریق سے متعلق رقم فرمایا:
”وہ کافر تھے۔یہ اکفر ہوئے۔ دونوں فریق اسلام سے نکل گئے،اور ان کی عورتیں ان کے نکاح سے۔ان پر ویسے ہی مجمع کثیر میں علی الاعلان توبہ کرنا،ازسر نومسلمان ہونا فرض ہے“۔(فتاویٰ رضویہ:جلد چہاردہم:ص 677-جامعہ نظامیہ لاہور)
جب عبادت کی نیت سے یا جائز سمجھ کر قشقہ لگایا جائے، تب کفرکلامی ہے,ورنہ کفر فقہی ہے۔منقولہ بالا فتاوی میں قائل کی نیت دریافت نہیں کی گئی،لیکن ملزم کے اسلام سے خارج ہونے،اور نکاح ٹوٹ جانے کا حکم بیان کیا گیا۔ان فتاویٰ میں کفر فقہی کا بیان ہے، کیوں کہ شعار کفر کے طورپر قشقہ لگانے کا ذکرہے۔ عبادت کے طورپر قشقہ لگانے کا ذکر نہیں۔ دونوں فتاوی کے سوالنامے سے یہی واضح ہے۔

اسلام سے خارج ہونے اوربیوی نکاح سے نکل جانے کا مفہوم یہ ہے کہ فقہا کے اصول کے مطابق بیوی نکاح سے نکل گئی،اور ملزم اسلام سے نکل گیا۔ چوں کہ اسلام کے اصول عامہ یعنی متکلمین کے اختیار کردہ اصول کے مطابق بیوی نکاح سے نہیں نکلی،اس لیے فقہا ئے کرام اس موقع پر فساد نکاح کا حکم نہیں دیتے،نہ ہی کافر فقہی کے اعمال صالحہ کے برباد ہونے کا قول کرتے ہیں، گرچہ فقہی قانون کے مطابق لازم آتاہے کہ نکاح ٹوٹ جائے اورملزم اسلام سے خارج ہوجائے۔حکم کالازم آنا الگ ہے،اورحکم کاثابت ہوجانا الگ۔

قول سوم:

فیصل نے رقم فرمایا کہ قائل موصوف نے کہا:

(الف)……کو کس طرح سے لوگوں نے دیکھا، سمجھا،پرکھا؟ میں نے ایز اے مسلمان ……کو کس طرح دیکھا؟میری تاریخ ادب اردو نے شری رام کی حیثیت کو کس طرح جانوایا اورپہچانوایا؟ میں ڈاکٹر……کی اس نظم کا حوالہ دوں گا جس نظم کا عنوان ہی ہے:……
ڈاکٹر ……لکھتے ہیں: 

ہے ……کے وجود پہ ہندو ستاں کو ناز  
  اہل ہنر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند

اس میں ”لوگوں نے“اور ”میں نے ایز اے مسلمان“کا تقابل بتا رہا ہے کہ یہاں ”لوگوں“سے مراد ”ہندو“ہیں، مسلمان نہیں۔ مطلب یہ کہ آج کا وہ ہندوطبقہ جو رام کے نام پر مسلمانوں پہ ظلم وستم ڈھا رہا ہے،اور ان کا کشت وخون کرکے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ ……کی تعلیم اور اس کا عمل وکردار یہی ہے، وہ جانیں۔ میں نے ایز اے مسلمان ……کو کس طرح دیکھا؟ میری تاریخ اردو نے شری ……کی حیثیت کوکس طرح جانوایا اور پہچانوایا؟ 

وہ ڈاکٹر ……کی زبان میں یہ ہے:
  
ہے ……کے وجود پہ ہندو ستاں کو ناز  
  اہل ہنر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند

(ب)شری ……کا وجود ایسا پاک اور پوتر وجود ہے۔…………نام ہے اس ٹھنڈی ہوا کا جوجھلساتی ہوئی دھوپ میں انسان کے لیے چھتر چھایا بن جاتی ہے۔

ان الفاظ سے اقبال کے مذکور بالا شعر کی تو ضیح وتفہیم کی گئی ہے کہ ڈاکٹر ……کہتے ہیں: ہندوستان یعنی ہندوستان کے انٹلیکچول کلاس ہندؤں کو ……کے وجود پر ناز ہے۔ وہ ……کو امام مانتا ہے جس سے بڑا کسی کا درجہ نہیں تو ہندوستان کے انٹلیکچول کلاس ہندؤں کی نظر میں ……کا وجود پاک اور پوتر وجود ہے۔ ان کا کیر کٹر نرالا، پیارا اوربے مثال ہے۔ 

الغرض ان کی نظر میں ……نام ہے سچائی کا جو جھوٹ کو پراجت کرتا ہے۔ …… نام ہے مظلوموں اور دکھی لوگوں کی حمایت کا،جو ظلم کی گردن پکڑتا ہے۔ …… نام ہے اس ٹھنڈی ہوا کا جوجھلساتی ہوئی دھوپ میں انسان کے لیے چھتر چھایا بن جاتی ہے۔ 

(ج)”میں اسی ……کو جانتا ہوں جس نے نفرت کا کوئی سند یش انسانیت کو نہیں دیا۔ …………کے ساتھ ایک آتنگ وادی نے جو آتنکت کرنے کی گھٹنا رچی تھی، ہم اسے راون کے نام سے جانتے ہیں۔ اس آتنک واد کے خلاف شری ……نے جہاد چھیڑا تھا۔ 
یہ ……نے اپنی بات کہی ہے کہ:میں اسی ……کو جانتا ہوں جس نے اقبال کے بقول ہندوستان کے انٹلیکچول کلاس ہندؤں کی نظر میں نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کو نہیں دیا۔ نفرت کے مقابلے میں محبت کے بادل برسائے۔ انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کو واپس کروایا۔ ……کے ساتھ ایک آتنگ وادی نے جوآتنکت کرنے کی گھٹنا رچی تھی تو شری ……نے اس آتنک واد کے خلاف لڑائی چھیڑی تھی، اور آتنک واد کے خلاف لڑائی ہی کو عربی زبان میں جہاد کہتے ہیں۔ 

اس طرح ……نے اپنی اس تقریرکے ذریعہ مسلمانوں سے نفرت کرنے، ان پر ظلم وستم ڈھانے، اور ان کا کشت وخون کرنے والے ہندؤں پر فن منطق کی زبان میں برہان جدل،جس میں یہ مقدمہ ”……نے نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کونہیں دیا ہے۔ نفرت کے مقابلے میں محبت کے بادل برسائے ہیں“۔جو انٹلیکچول ہندؤں کا مسلمہ ہے، اسے پیش کرکے ان پر حجت قائم کی ہے۔ جوصحیح معنی میں مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے اور ان کا کشت وخون کرنے سے روکنے کے لیے ان ہندؤں کے سامنے بند باندھنے کی بلیغ کوشش کی ہے۔ جس پر ……کو ان کی ہمت مر دانہ اور حکمت مومنانہ پر بجا طورسے داد دی جانی چاہئے۔

جواب: بلاشبہہ قائل نے اپنے بیان میں ہمت وجرات سے کام لیا،اور مسئلہ جہاد پر اٹھنے والے اعتراض کا دندان شکن جوا ب دیا ہے،نیزغیروں کی ذہن سازی کی بھی عمدہ کوشش کی ہے۔ 

حکمت بالغہ کا تقاضا تھا کہ اس بیان کے متعدد جملوں پر جو شرعی حکم وارد ہوتا تھا، وہ پورا کر دیا جاتا اور ان جملوں کو کالعدم کردیا جاتا تو سونے پر سہاگہ ہوتا۔ 

(الف)جس شاعر کا شعر نقل کیا گیا ہے، وہ اخیر عمر میں جملہ قابل اعتراض امورسے تائب ہوگئے تھے۔(تجانب اہل السنۃ:ص 6-5-مدرسہ گلشن رضا،ناندیڑ مہاراشٹر)

بعد توبہ شاعرپر اعتر اض نہیں،لیکن جو بطورقبول وتسلیم اسے نقل کرے تو اس پر ضرور اعتراض ہوگا۔بقول فیصل قائل مذکور نے مذکورہ شعر کو قبول کیا ہے۔ فیصل نے تحریر فرمایا:

”میں نے ایز اے مسلمان ……کو کس طرح دیکھا؟ میری تاریخ اردو نے شری ……کی حیثیت کوکس طرح جانوایا اور پہچانوایا؟ 

وہ ڈاکٹر ……کی زبان میں یہ ہے:

ہے ……کے وجود پہ ہندو ستاں کو ناز   
 اہل ہنر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند

اسلوب کلام اورالفاظ کے ظاہری مفاہیم ومعانی یہی بتارہے ہیں کہ قائل نے اس شعر کوبحیثیت مسلمان قبول کیا ہے۔عہد حاضر میں اردو ادب کا تعلق بھی مسلمانوں سے ہے۔اردوکومسلمانوں کی زبان ہی سمجھا جاتا ہے،اور شاعر بھی مسلمانوں میں سے ہے۔گویا قائل نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہماری نظر اور مسلم سماج میں ……کیسا ہے۔ 

پیراگراف (ج)میں بھی فیصل نے فرمایا کہ قائل نے یہ اپنی بات کہی ہے۔

پہلے شعر پر بحث ہے۔ بعد میں دیگر جملوں پر بحث ہے۔ 

شعر میں معبود کفار کی مد ح وستائش ضرور ہے۔کہا جائے کہ فلاں کے وجود پر ہمیں ناز ہے تو یہ اس کی تعریف ہے،نہ کہ تنقیص۔ معبودکفار کی توصیف بیانی اس کی تعظیم ہے، جیسے کسی کی مذمت اس کی تنقیص ہے۔”تعرف الاشیاء باضدادہا“کا قانون مشہورہے۔

کسی قوم کے معبود کی مدح وثنا سے اس قوم کے مذہبی جذبات کا اعزاز واکرام ہوتا ہے،یہ بھی کفر ہے۔معبود سیاسی وسماجی نہیں ہوتا،بلکہ اس مذہب کی بنیادہوتا ہے۔مذکورہ شعر میں معبود کفار کی تعظیم اور کفار کے مذہبی جذبات کا اعزاز ہے،یعنی شعر میں متعددکفر ہیں۔

مصرع دوم میں ہے کہ اہل نظر فلاں کو امام ہند مانتے ہیں۔ بقول فیصل اہل نظر سے ہنود مراد ہیں تو ہنود اسے امام ہدایت مانتے ہیں، کیوں کہ وہ ہنود کی نظر میں اوتار ہے۔
اپنے اورتار کو ہنود امام ہدایت ہی مانتے ہیں، جیسے مسلمان اپنے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کوامام ہدایت مانتے ہیں۔اولاً معبودان ہنود کا وجود ہی فرضی ہے،ثانیا ً وجود فرض بھی کیا جائے تو ان لوگوں نے اپنی عبادت وپرستش کی ہدایت کی ہے۔یہ ائمہ کفر وضلالت ہیں۔

 حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز نے معبودان ہنودسے متعلق رقم فرمایا: 

(۱)”رام وکرشن ومانند آنہاکہ الٰہہ ہنود اند“۔
(مکتوبات:جلد اول مکتوب صدوشصت وہفتم:ص170-مطبع نول کشور لکھنو)

(رام وکرشن وغیرہ ہنود کے معبودہیں)

(۲)”بہر وے رام ہندوکہ اظہار اخلاص ایں طائفہ علیہ نمودہ بود:الخ)(ایضاً)
(رام ہندوہے، موحد نہیں)

(۳)”الہہ ہنود خلق را بعبادت خود تلقین کردہ اند،وخود را الہ دانستہ“۔“۔(مکتوبات:جلد اول مکتوب صدوشصت وہفتم-171-مطبع نول کشورلکھنو)

ترجمہ: ہنود کے معبودوں نے مخلوق کواپنی عبادت کی تلقین کی ہے اوراپنے آپ کو معبود سمجھا ہے۔

دراصل وید ک دھرم میں اوتار کی عبادت کی جاتی ہے۔ ان اوتاروں کا تعلق ویدک دھر م سے ہے۔ ویدک دھرم میں رام کو ساتواں اوتاراورکرشن کوآٹھواں اوتارمانا جاتا ہے۔

الحاصل وجود حقیقی ہویافرضی،بہرصورت ہنود اپنے معبود مذکور کو امام ہدایت قرار دیتے ہیں۔اگر وجود مانا جائے تو یہ سب دعویداران الوہیت اور ائمہ کفرہیں،نہ کہ ائمہ ہدایت۔ قرآن مجید میں ایسوں کو ائمہ کفر کہا گیا۔(فقاتلوا ائمۃ الکفر)(سورہ توبہ:آیت 12)فرعون بھی خدائی کا دعویدار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون وقوم فرعون کے بارے میں فرمایا: (وجعلنا ہم ائمۃ ید عون الی النار)(سورہ قصص:آیت41) 

ہر مشرک قوم اپنے معبود کوامام ہدایت مانتی ہے۔اسی طرح ہنودبھی اپنے معبود مذکور کو امام ہدایت مانتے ہیں۔ائمہ کفر کوائمہ ہدایت ماننا قرآن مجید کی صریح مخالفت اور کفر ہے۔ 
اگر یہی مانا جائے کہ شاعر نے غیروں کا قول نقل کیا ہے تو بھی اس مقام پر کفر ثابت ہوگا، کیوں کہ قول غیر کی نقل صرف دو صورت میں جائز ہے۔ اس کے ردوابطال کے لیے اور قائل کے خلاف شہادت کے واسطے۔

 مذکورہ شعر میں کفریہ قول معبودہنودکی تعریف کے طورپرمنقول ہے۔تردید وتقبیح اور شہادت وگواہی کے واسطے منقول نہیں۔

اسلوب کلام سے اس کفریہ نظریہ کا استحسان اوراس کو اچھا سمجھنا واضح ہے۔ بطور استحسان کفریہ کلام نقل کیا جائے توناقل پرحکم کفر وارد ہوگا۔یہ ایک نظم کا شعر ہے۔ اس نظم میں مزید توصیفی مصرعے موجود ہیں۔ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اشعار مدح وثنا کے واسطے ہیں۔

 بحث دواز دہم میں کتاب الشفا کے حوالے سے کسی غیرکے کفریہ کلام کی نقل کی چار صورتیں اور ان کے احکام مرقوم ہیں۔مذکورہ شعر میں جونقل ہے، وہ چوتھی قسم کی نقل ہے۔ اس نقل پر حکم کفر وارد ہوگا،کیوں کہ استحسان کے ساتھ یہ نقل ہے۔مصرع اول استحسان کو ثابت کرتا ہے، اوراسی نظم کے دیگر اشعاربھی استحسان کوثابت کرتے ہیں۔

(ب) فیصل نے پیراگراف (ج)میں جوکچھ رقم فرمایا،اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قائل مذکور نے ہنود کا قول نقل کیا کہ ہنود کا معبود مذکو ر ہنود کے دانشور طبقہ کی نظر میں ان صفات کا حامل ہے۔ یہ باتیں قائل نے اپنی جانب سے نہیں کہیں۔

اس کے بعد اخیر میں قائل نے کہا کہ میں اسی ……کو جانتا ہوں جس نے نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کونہیں دیا:الخ۔بقول فیصل یہ قائل کا اپنا کلام ہے۔

اس کے بعد فیصل نے تحریر فرمایا کہ قائل نے ہنود کے دانشوروں کا قول نقل کرکے ان پر حجت قائم کی ہے۔فیصل کے الفاظ ذیل میں دوبارہ نقل کیے جاتے ہیں۔

”اس طرح ……نے اپنی اس تقریرکے ذریعہ مسلمانوں سے نفرت کرنے، ان پر ظلم وستم ڈھانے، اور ان کا کشت وخون کرنے والے ہندؤں پر فن منطق کی زبان میں برہان جدل،جس میں یہ مقدمہ ”……نے نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کونہیں دیا ہے۔ نفرت کے مقابلے میں محبت کے بادل برسائے ہیں“۔جو انٹلیکچول ہندؤں کا مسلمہ ہے، اسے پیش کرکے ان پر حجت قائم کی ہے۔ جوصحیح معنی میں مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے اور ان کا کشت وخون کرنے سے روکنے کے لیے ان ہندؤں کے سامنے بند باندھنے کی بلیغ کوشش کی ہے۔ جس پر ……کو ان کی ہمت مر دانہ اور حکمت مومنانہ پر بجا طورسے داد دی جانی چاہئے“۔

بقول فیصل دانشوران ہنود کے اقوال نقل کرکے ان کے مسلمات کے ذریعہ قیاس جدلی کی طرح قائل نے ان ہنود پر حجت قائم کی جومسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں۔قائل نے انہیں ظلم سے روکنے کی کوشش کی۔

جواب یہ ہے کہ جو الفاظ قائل کے خطاب میں مذکور ہیں،وہ معبود کفار کی صریح مد ح وستائش ہیں، لہٰذا وہ کفر ہیں۔ان اقوال میں معبود کفار کوپاک وجود، امام اورسب سے بلند رتبہ کہا گیا۔ معبودان باطل کو پاک وجود کہنا کفر ہے۔قرآن مجید میں بتوں کوناپاک کہا گیا ہے۔ 

معبود کفار کوملک بھر میں سب سے بلند رتبہ کہنا کفر ہے،کیوں کہ ملک میں مومن بھی ہیں،اور جب کوئی مشرک مومن سے افضل نہیں ہوسکتا تو جو معبود کفار اور منبع کفر وشرک ہو، وہ کیسے افضل ہوسکتا ہے۔ 

اگر مذکورہ معبود کفار کا حقیقی وجود مانا جائے تو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے قول سے اس کا کافر وامام کفر ہونا ثابت ہے، لہٰذا مذکورہ اقوال میں تین آیات مقدسہ کی مخالفت ہے۔

  (۱)قرآن مجید میں معبودان کفار کو ناپاک کہا گیا ہے۔معبودان کفار کو پاک وجود کہنا بھی قرآن عظیم کے خلاف قول کرناہے۔ارشاد الٰہی ہے:(فاجتنبوا الرجس من الاوثان) (سورہ حج:آیت 30)یہاں معنوی نجاست مراد ہے، جیسے مشرکین کو ناپاک کہا گیا ہے۔

(۲) اگرکفار کے معبود مذکور کا حقیقی وجود مانا جائے تو وہ مشرک اور داعی شرک ہے۔قرآن عظیم نے مشرکین کونجس کہا ہے۔ مشرک کوپاک وجود کہنا قرآن کی مخالفت ہے۔
ارشاد الٰہی ہے۔(انما المشرکون نجس)(سورہ توبہ:آیت 28)

(3)کسی مشرک یا غیر مومن معبودان کفار کوکسی مومن سے افضل کہنا قرآن عظیم کی مخالفت ہے، اوریہ کفر ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:(ولعبد مؤمن خیر من مشرک)(سورہ بقرہ:آیت 221)

الحا صل قائل کے خطاب میں جو جملے اور اقوال ہیں،وہ کفریہ ہیں۔ بالفرض اگر وہ تمام جملے ہنود کے ہیں اورقائل محض ناقل بھی ہے تو بھی یہ نقل استحسان کے ساتھ ہے، لہٰذ ا حکم کفر ثابت ہوگا۔ قائل کے منقولہ ذیل کلمات سے ماقبل کی مدح وثنا کی تاکید ہوجاتی ہے۔ 

قائل نے پیراگراف (3)کے درمیانی حصے میں کہا:

میں اسی ……کو جانتا ہوں جس نے نفرت کا کوئی سندیش انسانیت کو نہیں دیا۔نفرت کے مقابلے میں محبت کے اس نے بادل برسائے۔ انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کو واپس کروایا۔…… کے ساتھ ایک آتنگ وادی نے جوآتنکت کرنے کی گھٹنا رچی تھی، ہم اسے راون کے نام سے جانتے ہیں۔اس آتنک واد کے خلاف شری ……نے جہاد چھیڑا تھا۔

قائل نے پیراگراف (4)کے اخیر میں کہا:

شری ……نے اس کے خلاف جدوجہد کیا تھا مانوتا کی عزت بچانے کے لیے۔
صرف ……کی عزت کا سوال نہیں تھا۔قیامت کی صبح تک پیدا ہونے ان ساری سیتاؤں کی عزت کا سوال تھا، جن کی عزت کے لیے ……نے اپنے جہاد کا قدم اٹھا یا تھا۔

قائل نے پیراگراف (5)میں کہا:

(5)اس عظیم نام کو لیتے ہی نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے۔جہاں وہ نام لیا جائے اوروہاں سماج میں نفرت موجود ہوتو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شری ……کا نام زبان سے تو لیتے ہیں، اپنے عمل میں، اپنے کرتب میں،اپنے سنسکار میں شری ……کو داخل نہیں کرتے۔

قائل نے اگر شروع میں اقوال ہنود کونقل بھی کیا ہوتو بھی منقولہ بالا تینوں پیراگراف کے جملے اوراسلوب واضح کر رہے ہیں کہ قائل نے ماقبل کے جملوں کواستحسان کے ساتھ کہا ہے۔ جس معبودکفار کے حق میں یہ جملے استعمال ہوئے ہیں،قائل اس کے حق میں ان جملوں کے استعمال کوصحیح اوراچھاسمجھتا ہے۔ یہی استحسان سبب کفر ہے۔

 بحث دواز دہم میں کتاب الشفا کے حوالے سے کسی غیرکے کفریہ کلام کی نقل کی چار صورتیں اور ان کے احکام مرقوم ہیں۔خطاب میں جونقل ہے، وہ چوتھی قسم کی نقل ہے۔ اس نقل پر حکم کفر وارد ہوگا،کیوں کہ استحسان کے ساتھ یہ نقل ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی کفار کے قول (ہذا ربی)کو نقل فرمایا تھا، لیکن وہ اسی قول کوباطل قرار دینے کے واسطے نقل فرمایا اورباطل بھی قرار دیا۔اس کی تفصیل بحث یازدہم کے اخیر میں ہے۔اس خطاب میں ان کفریہ جملوں کی تردید نہیں ہے۔

قائل نے نیک نیتی کے ساتھ مشرکین کو مسلمانوں پر ظلم وستم سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ فیصل نے بھی لکھا کہ اسی مقصد سے غیروں کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔

بالفرض اگر خطاب میں مذکور تمام تعریفی جملے بھی غیروں کے ہوں تو بھی حکم کفروارد ہوگا،کیوں کہ کہیں بھی ان کفریات کی ترد ید نہیں،بلکہ اس خطاب کو پڑھنے والا ہرشخص یہی کہے گا کہ قائل ان جملوں کو اچھا سمجھ کر نقل کررہا ہے۔ اسلوب کلام ہی سے یہ ثابت ہے۔
اسی خطاب کے اخیر میں قائل نے یہ بھی کہا ہے:

”میں توصر ف اپنی بھاؤناؤں کو آپ کے سامنے رکھ رہاہوں کہ انسانیت، آدمیت، یہ اس ملک کی کلپنا ہے۔ یہ اس ملک کی پہچان ہے سارے جہاں میں“۔
ان جملوں سے بھی واضح ہے کہ قائل نے ماقبل کے جملوں کی تردید نہیں کی۔ہاں،یہ ضرور ہے کہ قائل کا مقصد نیک ہے۔ کفریہ کلمات کی نقل کی دوہی جائز صورتیں ہیں۔ تردید وتقبیح کے لیے نقل کرنایا قائل کے خلاف شہادت وگواہی کے لیے نقل کرنا۔
 خطاب میں دونوں صورتیں مفقود ہیں۔بحث دوازدہم میں تفصیل مرقوم ہے۔چوں کہ کفریہ کلمات کی نقل بطوراستحسان ہے،لہٰذا حکم کفر وار د ہوگا۔

کفار کے کفریہ کلام کو نقل کرکے اس کا رد کیا جائے،یا قائل کے خلاف گواہی دی جائی تو ان دو مقصد سے کفریہ کلام کی نقل جائز ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کفار کے قول ”ہذا ربی“ کو نقل کرکے اس کا رد فرمایاہے۔انہوں نے ستارہ وچاند وسورج میں سے ہرایک کے ڈوبتے ہی کفار کے کفریہ قول کی تردید فرمادی۔

ستارہ وچاند وسورج کے غروب کے ذریعہ ہی ان کے معبود نہ ہونے کی تفہیم کرنی تھی، اس لیے کفریہ قول کی تردیدکے لیے اسے نقل کیا گیا،اورستارہ وچاندوسورج کے ڈوبتے ہی ان کی معبودیت کا رد فرمایا۔جب کہ قائل نے تردیدکی بجائے کفریہ کلمات کی بار بار تاکید کی ہے۔
اسلوب کلام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس خطاب میں اقوال غیر کی نقل ہے۔

شعر نقل کرنے کے بعد قائل نے درمیان میں بھی کہا کہ ڈاکٹر نے اس کوامام ہند کے نام سے یاد کیا ہے۔کسی دوسرے کانام بھی نہیں لیا۔قائل نے کہا:”……شری ……کو امام ہند مانتا ہے۔ امام سے بڑا کسی کا درجہ نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں سب سے بڑے،اس انسان کو امام ہند کے نام سے ڈاکٹر ……نے یاد کیا ہے۔……نام ہے سچائی کا جو جھوٹ کو پراجت کرتا ہے“۔ 

قائل نے کہا کہ ڈاکٹر نے فلاں کوامام ہند کے نام سے یاد کیا ہے۔قائل نے یہ نہیں کہا کہ ہنود نے امام ہند کہا۔اس کے بعدقائل نے ڈاکٹر کے شعر کی تشریح اپنی جانب سے کی ہے۔

 قائل نے جو کچھ کہا،وہ نقل کردہ شعر کی تشریح ہے۔ قول غیر کی نقل نہیں۔ قائل نے جوکہا کہ دانشور طبقہ فلاں کوامام ہند مانتا ہے تو شعر میں ”اہل نظر“کا لفظ ہے۔ اسی کی تشریح ”انٹیلیکچول کلاس“(دانشورطبقہ) سے خود قائل نے کی ہے۔شعر میں واردلفظ وجود کی تشریح پاک وجود سے خود قائل نے کی ہے۔ شعر میں واردلفظ امام کی تشریح خود قائل نے کی ہے۔یہ تمام کلمات خود قائل کے ہیں،اورنقل نہیں ہیں جیسا کہ اسلوب کلام سے یہی واضح ہے۔ 

قائل نے جوتوصیفی جملے کہے ہیں،اگروہ نقل ہے تو بھی کفر ہے،کیوں کہ یہ نقل استحسان کے ساتھ ہے۔اگر یہ توصیفی کلمات خود قائل کے ہیں توبھی کفر ہے،گرچہ ان کفریہ کلمات کو ہنو د پر حجت اور انہیں ظلم سے روکنے کے لیے کہے ہوں۔توبہ کے ذریعہ کفر کوزائل کیا جائے۔

خودسے کفریہ کلمات کہنے میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں۔ کسی نیت سے کہے، وہ کفر ہے۔

امام ابن حجر ہیتمی نے قاضی عیاض مالکی کے بیان کردہ کفریہ اقوال کونقل کرنے کے بعد رقم فرمایا:(وَمَا ذَکَرَہ مُوَافِقٌ لِقَوَاعِدِ مَذہَبِنَا-اِذِ المَدَارُ فِی الحُکمِ بالکفر عَلَی الظَّوَاہِرِ-وَلَا نَظرَ لِلمَقصُودِ وَالنِّیَّاتِ وَلَا نَظرَ لِقَرَاءِنِ حَالِہ)
(الاعلام بقواطع الاسلام: ص382)

 اگر نقل ہوتونقل کفرکی صرف دوصورتیں جائز ہیں،اوریہاں دونو ں صورتیں موجودنہیں۔ یہاں چوتھی صورت پائی جاتی ہے،لہٰذا حکم کفر وارد ہوگا:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب  

 چوں کہ یہاں کسی کی آخرت کا سوال ہے۔اگر قائل توبہ کے ساتھ دربار الٰہی میں حاضر ہوتو یہی بہتر ہے۔بہت سے اہل علم اسے کفر بتارہے ہیں۔ایسی صورت میں مشروط توبہ میں کیا حرج ہے کہ اگر عند اللہ ہماری باتیں غلط ہیں جیسا کہ بعض علما نے کہا تو ہم نے اس سے توبہ کی۔ جس کو تمام اہل علم صحیح بتائیں،وہاں تو بہ نہیں ہو سکتی۔صحیح بات سے توبہ کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ شخص اس بات کو صحیح نہیں مانتا ہے،اس لیے اس سے توبہ کی۔

قول چہارم 
فیصل نے فرمایا کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں بھی اس کے نظائر ملیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی ”بل فعلہ کبیرہم“فرمایا۔

جواب:فیصل نے تین واقعات درج فرمائے۔حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو واقعات منقول ہیں۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسائل کی تفہیم کے واسطے فرض وتقدیر کے طورپر وہ باتیں کہیں،پھران باتوں کی تردید فرمائی۔جب کہ قائل مذکور نے مدح وستائش کی بار بارتاکید کی ہے۔ قائل کا اسلوب کلام فرض وتقدیر کا اسلوب نہیں، کیوں کہ جابجا تاکیدہے۔قائل نے خود کہا کہ میں اسی …… کو جانتاہوں جوان صفات کا حا مل ہے،پس اس سے ماقبل کی مدح کی تاکید ہوئی۔ اہل زبان برائے تاکید ایسا کہتے ہیں۔

حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناظرہ والے واقعہ میں ہے کہ آپ نے ملحد مناظر سے فرمایا کہ میں نے راستے میں دیکھا کہ ایک درخت خود ہی سے کٹ کرگرپڑا۔تختے بنے اورکشتی بن گئی۔ چوں کہ وہ ملحد مناظر وجود خدا کا منکرتھا،اس لیے آپ نے فرض وتقدیر کے طورپریہ بات کہہ کراس کی تفہیم فرمائی۔ ملحد مناظر نے آپ کی بات سن کر کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ بغیر فاعل کے فعل انجام پاجائے،پس حضرت امام اعظم قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ تمہارے بقول:”جب یہ ممکن نہیں کہ بغیر فاعل کے فعل انجام پاجائے“تویہ کس طرح ممکن ہے کہ بغیر خالق کے کائنات وجود میں آجائے۔یہ سن کر ملحد ہکا بکا رہ گیا۔

اس آخر ی جملے سے حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی فرضی بات کی تردید اسی گفتگومیں فرمادی۔اس سے واضح ہوگیا کہ وہ بات آپ نے فرض وتقدیر کے طورپر الزام خصم کے واسطے فرمائی تھی۔الزام خصم کے لیے خصم کے مسلمات کونقل کیا جاتا ہے،پھر اس کی تردید کی جاتی ہے۔جب کہ قائل مذکور نے تردید نہیں کی،بار بارمدح وتوصیف کی تاکید کی ہے۔حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے فیصل کا استدلال غیرمناسب ہے۔

اگر حضرت امام اعظم قدس سرہ العزیز ملحد مناظر کے انکار کے بعد اپنے قول کی تاکید فرماتے اورکہتے کہ واقعتاً درخت خودبخودکٹ گیا اوکشتی بن گئی،تب تاکید ہوجاتی۔

دوسرے واقعہ میں ہے کہ ایک رئیس حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہودی اور کافر کہتا تھا۔آپ نے مسئلہ کی تفہیم کے واسطے اس سے کہا کہ میں تمہاری بیٹی کے لیے رشتہ لے کر آیا ہوں،لیکن لڑکا یہودی ہے۔یہ سن کر وہ رئیس آگ بگولہ ہوگیا،پھر آ پ نے فرمایا کہ جب تم اپنی بیٹی کا نکاح کسی یہودی سے نہیں کرسکتے تو حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔

شروع کلام میں فرض وتقدیر کے طورپر مسئلہ کی تفہیم کے واسطے یہودی لڑکے سے نکاح کی بات کہی۔ایسا نہیں کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی لڑکے سے مسلمان لڑکی کا نکاح جائز سمجھتے ہیں۔ آخری جملوں میں اس کی تردید فرمادی کہ جب یہ ناجائز امر ہے تو حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ مناظراتی مباحث میں الزام خصم کے طورپروہ بات کہی جاتی ہے جو خصم کے یہاں مسلم ہو، پھر اس کی تردید کی جاتی ہے۔   

حضرت ابراہیم علیہ الصلووٰۃوالسلام کے قول کی تشریح بحث یازدہم کے اخیر میں ہے۔ یہ بات بھی الزام خصم کے لیے کہی گئی،پھر اس کی تردید ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

(قَالُوْْا ءَ اَنْتَ فَعلتَ ہذا بالہتنا یا ابراہیم::قال بل فعلہ کبیرہم ہذا فاسئلوہم ان کانوا ینطقون:: فرجعوا الی انفسہم فقالوا انکم انتم الظلمون::ثم نکسوا علی رؤوسہم لقد علمت ما ہؤلاء ینطقون::قال افتعبدون من دون اللہ ما لا ینفعکم شیئا ولا یضرکم اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون)(سورہ انبیاء:آیت 67-62)
ترجمہ:بولے کیاتم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہیم۔فرمایا،بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھواگربولتے ہوں تو اپنے جی کی طرف پلٹے اور بولے،بے شک تمہیں ستم گار ہو، پھر اپنے سروں کے بل اوندھا ئے گئے کہ تمہیں خوب معلوم ہے،یہ بولتے نہیں۔کہا توکیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہوجونہ تمہیں نفع دے اورنہ نقصان پہنچائے۔ تف ہے تم پر اوران بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو توکیا تمہیں عقل نہیں۔
(کنزالایمان)

جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اسی جملے میں فرمادیا کہ اس بڑے بت سے پوچھو،اگر یہ بولتے ہوں تواسی میں تردید بھی ہے کہ یہ بت تو نہ بولتے ہیں،نہ کچھ کرسکتے ہیں تویہ بتوں کوتوڑبھی نہیں سکتے،نہ تمہیں کچھ بتا سکتے ہیں،اورجب کچھ کرہی نہیں سکتے تو ان کوپوجنے سے کیا فائدہ؟ پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے فرض وتقدیر کے طورپر ایک بات کہی،پھر اسی گفتگو میں اس کی تردید فرما کر اپنا مدعا ثابت فرمادیا،جب کہ قائل مذکور کے خطاب میں مدح کی باربار تاکید ہے۔

قول پنجم:

فیصل نے فرمایا کہ اگر کفار کے معبود مذکور کا وجود ہی نہیں تو اس کی تعریف ہی نہیں ہوگی۔اسی طرح فقہی اصول وضوابط سے ثابت فرمایا کہ حیثیت کا اعتبار ہوگا کہ تعریف کس حیثیت سے ہے۔اسی اعتبار سے حکم وارد ہوگا۔

جواب:مذکورہ قول اوراسی قسم کے بعض دیگر اقوال کے جواب شروع کے مضامین میں ہیں۔عنوان مضمون ہے:فقہی اصول وضوابط اور کلامی مسائل۔

قول ششم   
 
فیصل نے فرمایا کہ ساری دنیا کے لوگ حاتم طائی کی سخاوت کو بیان کرتے ہیں، اسی طرح عوام کے ساتھ نوشیرواں کے حسن سلوک کو بیان کیا جاتا ہے توکیا ساری دنیاکے مسلمانوں پر الزام عائد ہوگا۔

جواب:مشرکین اور معبود مشرکین کے حکم میں فرق ہے۔ بحث اول تابحث پنجم میں تفصیل مرقوم ہے۔غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم وتوقیر میں حیثیت کا اعتبار نہیں۔

حاتم طائی،نوشیرواں وغیرہ کے قصے ضرب المثل کے طورپر بیان ہوتے ہیں۔ایسی کہاوتوں کے ذریعہ نصیحت وترغیب مقصود ہوتی ہے۔کسی خاص شخص کی مد ح وستائش مقصود نہیں ہوتی۔

 ان کہاوتوں میں کوئی ایسا جملہ ہوجوکفریہ ہوتو اس پر بھی شرعی حکم وارد ہوگا۔ اگر کفریہ نہیں ہے تو اس سے کسی خاص شخص کی مدح مقصود نہیں،بلکہ ترغیب ونصیحت مقصود ہے،پس اعتراض وارد نہ ہوگا۔ کفریہ کلمات کاحکم جداگانہ ہے،دیگر کلمات کاحکم جدا گانہ۔کہاوت اورضرب المثل جب فی نفسہ کفر نہ ہوتو حکم کفر نہیں۔

صدر الشریعہ قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”عجیب وغریب قصے کہانی تفریح کے طور پرسننا جائز ہے، جب کہ ان کا جھوٹا ہونا یقینی نہ ہو، بلکہ جو یقینا جھوٹ ہوں، ان کوبھی سنا جاسکتا ہے، جب کہ بطور ضرب مثل ہوں،یا ان سے نصیحت مقصود ہو، جیسا کہ مثنوی شریف وغیرہ میں بہت سے فرضی قصے، وعظ وپند کے لیے درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح جانوروں اور کنکرپتھر وغیرہ کی باتیں فرضی طورپر بیان کرنا یاسننا بھی جائز ہے،مثلاً گلستاں میں حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے لکھا: ع / گلے خوشبوئے درحما م روزے: الخ۔(درمختار وغیرہ)
(بہارشریعت حصہ 16-مکتبۃ المدینہ کراچی)

امام ملک العلما کاسانی حنفی نے رقم فرمایا:(وَکَذَلِکَ لو قال:أنت تَزْنِی وأنا أُضْرَبُ الْحَدَّ لِأَنَّ مِثْلَ ہذا الْکَلَامِ فی عُرْفِ الناس لَا یَدُلُّ علی قَصْدِ الْقَذْفِ-وَإِنَّمَا یَدُلُّ علی طَرِیقِ ضَرْبِ الْمَثَلِ علی الِاسْتِعْجَابِ أَنْ کَیْفَ تَکُونُ الْعُقُوبَۃُ علی إنْسَانٍ وَالْجِنَایَۃُ من غَیْرِہِ کما قال اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی { (وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی)(بدائع الصنائع:جلد ہفتم:ص43-مکتبہ شاملہ)

ترجمہ:اسی طرح اگر کہا:تم بدکاری کرو،اور مجھے حدلگائی جائے۔ اس لیے کہ ایسا کلام لوگوں کے عرف میں قذف کے قصد پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ بطریق استعجاب ضرب المثل پر دلالت کرتا ہے کہ کیسے سزا کسی انسان پر ہوگی،جب کہ جرم کسی دوسرے کا ہو۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اورکوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:04:اکتوبر 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے