Header Ads

معبودان کفار اور شرعی احکام قسط یازدہم بحث پانزدہم ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

معبودان کفار اور شرعی احکام

قسط یازدہم

بحث پانزدہم 

معبودان کفار کی مدح سرائی کفر  

سوال:معبودان کفار کی جے پکار نا کفر ہے توان کی مدح وثنا کیوں کفر نہیں؟

جواب: بتوں کی تعظیم کفر ہے۔اس میں حیثیت کا اعتبار نہیں۔حالت اکراہ کا حکم الگ ہے۔جے پکارنا شعار کفارہے،اور بتوں کی مدح وثناان کی تعظیم اورعلامت کفر ہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:"مشرکین کی جے پکارنا ان کی تعظیم ہے اور کافر کی تعظیم کفر ہے"-(فتاوی رضویہ جلد 15:ص271-جامعہ نظامیہ لاہور)

مشرکین کے حق میں کوئی ایسا لفظ کہا جو فی نفسہ کفرہے تو وہاں بھی حیثیت کا اعتبار نہیں ہوگا،بلکہ جس حیثیت سے کہے، کفرہی ہوگا،جیسا کہ غیر اسلامی کورٹ کے جج کو عادل کہنے سے متعلق امام اہل سنت قدس سرہ العزیزکافتویٰ ہے۔

 نصاریٰ کی کچہریوں کو عدا لت اور ان کے ججوں کو عادل کہنے سے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جج کوعادل کہنے کو کفر بتایا۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”عدالت بطورعلم رائج ہے۔ معنی وضعی مقصود نہیں ہوتے،لہٰذا تکفیر ناممکن۔البتہ عادل کہنا ضرور کلمہ کفر ہے، مگر محض بروجہ خوشامد ہوتا ہے، لہٰذا تجدید اسلام ونکاح کافی۔ہاں خلا ف ماانزل اللہ کو اعتقاداً عدل جانے تو قطعا وہی کفر ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ششم: ص 116-رضا اکیڈمی ممبئ)

احکام شرعیہ کے مخالف احکام کو حق وعدل اعتقاد کرناکفر ہے،کیوں اصل عدل، حکم خداوندی میں ہے۔حکم الٰہی کے مخالف جو دنیاوی قوانین ہیں،وہ عدل نہیں۔کورٹ کا جج دنیاوی قانون کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔ان میں بہت سے خلاف شرع قوانین ہیں۔ 

تعریف وتوصیف کے طورپر کورٹ کے جج کو عادل کہے تویہ کفر فقہی ہے۔اگر اس کے خلاف شرع فیصلے کوحق اعتقاد کرے تو کفر کلامی ہے،کیوں کہ جب اس نے خلاف شرع فیصلے کوحق اعتقادکرلیا تو اس کی نظرمیں شرعی حکم حق نہ رہا، حالاں کہ حکم شرعی کو حق ماننا لازم ہے۔


مثال کے ذریعہ مسئلہ کی تفہیم

مجوسی لوگ دوخدا مانتے ہیں:اہرمن اور یزدان۔زید مجوسیوں کی مجلس میں جائے،اور کہے کہ:لوگوں نے اہرمن کوکیسا سمجھا اورمیں بحیثیت مسلمان اہر من کوکیسا سمجھتا ہوں۔ہماری اردو زبان نے اہرمن کا تعارف کس طرح پیش کیا۔عمرو شاعر نے کہاہے:

ہے اہر من کے وجود پر ایرانیوں کو ناز  
 اہل نظر سمجھتے ہیں اس کوامام شرق 

 اہر من کا وجود ایساپاک اورپوتر وجود ہے۔اس کا کیرکٹر اتنا نرالا،پیارا اوربے مثال ہے۔دانشور طبقہ اسے امام مانتا ہے۔ امام سے بڑا رتبہ کسی کا نہیں ہوتا۔ایران میں سب سے بڑی اس ہستی کو امام شرق کے لقب سے شاعر عمرونے یادکیا ہے، اور میں اسی اہر من کوجانتا ہوں جس کے اخلاق بہت بلند تھے،وہ مظلوموں کا سہارا اورغریبوں کامددگارتھا،وغیرہ۔

زیدکے مذکورہ کلام میں متعددوجوہ سے حکم کفر ثابت ہوتا ہے۔تفصیل درج ذیل ہے۔

(1)قرآن مجید میں بتوں کوناپاک بتایا گیا۔زیدنے معبودکفار کوپاک وجودکہا۔
بت کا وجود خارجی(وجودجسمانی) نجس نہیں،بلکہ اس کا وجود ذہنی نجس ہے،کیوں کہ وجود ذہنی معبودیت کے تصور کے ساتھ ہے۔ اہر من اگر انسانوں میں سے تھا۔کبھی اس کا وجود خارجی (وجودجسمانی)تھا تواب نہیں ہے۔ اب اگر اس کے وجود پر فخر ہے تو اس کا وجودذہنی مراد ہے جو اس کے پرستاروں کے ذہن میں بہت خوبیوں اور معبودیت کے تصور کے ساتھ ہے۔بتوں کا ایسا وجودذہنی نجس ہے،کیوں کہ معبودیت کے تصورکے ساتھ ہے۔ 

فارسی زبان میں وجود کو ہستی کہا جاتا ہے۔ اس کا استعمال اردو میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام غزالی عظیم ہستی ہیں۔تو اس سے ان کا وجود ذہنی مراد ہوتا ہے۔ وجود خارجی یعنی وجود جسمانی(وجوددنیاوی) موت کے سبب منقطع ہوچکا ہے۔رستم بہادرہستی کا نام ہے تو اس سے وجود ذہنی مراد ہے، ورنہ موت کے سبب اس کا وجود جسمانی معدوم ہوچکا ہے۔

اسی طرح اہر من کا بھی وجود ذہنی مراد ہوگا۔معبود باطل جس کا وجود ہی فرضی وخیالی ہو، اس کا وجود خارجی کبھی نہ ہوا ہوتو اس کا وجود خارجی مرادکیسے ہوسکتا ہے۔

اگر یہ فرض کیا جائے کہ قائل نے سارے نظریات کفار کے بیان کیے ہیں تو کفار اہرمن کوخدا سمجھ کر اس سے متعلق ایسے نظریات رکھتے ہیں،اورغیر اللہ کومعبود سمجھ کر جو نظریات اس سے متعلق رکھے جائیں،وہ سب کفریہ نظریات ہوں گے،کیوں کہ وہ نظریا ت معبودیت کے تصور کے ساتھ ہیں۔کسی کو معبود مان کر اس سے متعلق جو عقیدہ وعمل ہو، وہ کفر ہے۔

 قائل نے ان نظریات کی تردید نہیں کی،بلکہ یہ کہاکہ میں ایسے ہی اہرمن کوجانتا ہوں، گویا اس نے ماقبل میں کہی ہوئی باتوں کی تاکید کردی۔ان نظریات کا انکار نہیں کیا۔

یہ صحیح ہے کہ نقل کفر،کفر نہیں۔نقل کفر کفر نباشد،لیکن جب کفر کو اچھا سمجھ کر نقل کرے تویہ کفر ہے۔ بحث دواز دہم میں نقل کفر کی چارصورتوں اوران کے احکام کی تفصیل ہے۔
اہر من کا حقیقی وجود نہیں،بلکہ فرضی وجود ہے۔ اگر یہی مان لیا جائے کہ اس کا حقیقی وجود کبھی تھا۔کسی زمانے کے کسی انسان کا نام اہرمن ہے،پس یہ بات ضرورسچ ہے کہ عہد حاضر میں اس کا جسمانی وجود نہیں۔ایسی صورت میں اہر من کے وجود سے اس کاذہنی وجود مراد ہوگا جو اہل عالم کے ذہن میں ہے۔

وہ ذہنی وجودمجوسیوں کے ذہن میں اس کی معبودیت کے تصور کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کے ذہن میں اس کا ذہنی وجود اس کی معبودیت کے تصور کے بغیر ہے، کیوں کہ مسلمان اس کی معبودیت کے منکر ہیں،پس وہ اس کے ذہنی وجود کو پاک وجود نہیں مانتے۔

اب کوئی مسلمان اہرمن کے وجود کوپاک وجود کہے تووہی ذہنی وجود مراد ہوگا،اور حکم قرآنی وارشاد ربانی کی مخالفت ہوگی۔اصنام واوثان کا ظاہر ناپاک نہیں تھا،بلکہ ان کے ساتھ معبودیت کا غلط عقیدہ تھا۔اسی سبب سے بتوں کو ناپاک کہا گیا۔ 

 قرآن مجید میں بتوں کو ناپاک بتایا گیا۔معبودان کفار کو پاک وجود کہنا قرآن عظیم کی مخالفت ہے۔ارشاد الٰہی ہے:(فاجتنبوا الرجس من الاوثان)(سورہ حج: آیت 30)
بتوں کی نجاست سے معنوی نجاست مراد ہے، جیسے مشرکین کو ناپاک کہا گیا۔ 

ارشادالٰہی ہے:(انما المشرکون نجس)(سورہ توبہ:آیت 28)

اہر من کا ذہنی وجود ناپاک ہے، کیوں کہ وہ معبودیت کے تصورکے ساتھ ہے۔ 

بت پتھر کے ہوتے ہیں۔ پتھرمیں جب کچھ پلیدی لگ جائے،تب ناپاک ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتوں کو ناپاک قرار دیا۔دراصل بتوں کے ذہنی وجود کوناپا ک بتایا گیا، کیوں کہ بتوں کے ذہنی وجود کے ساتھ معبودیت کا تصور ہے۔ اہر من کا بھی محض ذہنی وجود ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی انسانوں کے درمیان اس کا وجود ہواہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض فرضی، خیالی اورافسانوی کردار ہو۔خاص کر اہرمن ویزدان تو خیالی اور اختراعی ہی ہیں۔ہم نے محض مسئلہ کی تفہیم کے واسطے اس کے جود کوفرض کیا، تاکہ دیگرمعبودان کفار کا حکم معلوم ہو۔

 (2)قائل نے اہر من کوایران کی سب سے بڑی شخصیت کہا۔یران میں مسلمان بھی رہتے ہیں۔ کوئی کا فر کسی مسلمان سے بلند رتبہ نہیں ہوسکتا تو معبود کفار جو مخزن شرک اور منبع کفر ہو، وہ کسی مومن سے بلند رتبہ کیسے ہوسکتا ہے۔اس میں فرمان الٰہی کی مخالفت ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:(ولعبد مؤمن خیر من مشرک)(سورہ بقرہ:آیت 221)

(3)اگر اہرمن کا وجود فرضی وخیالی نہ ہو،بلکہ کسی زمانے میں وہ انسانوں کے درمیان پیدا ہواتھا،اوراس کا مشرک ہونا بھی ثابت ہوتو اس کوپاک وجودکہنا قرآن عظیم کی مخالفت ہے۔ رب تعالیٰ نے مشرکین کو بھی نجس بتایا ہے،کیوں کہ وہ نجس عقیدہ والا ہے۔

ارشاد الٰہی ہے:(انما المشرکون نجس)(سورہ توبہ:آیت 28)

الحاصل زید کے کلام میں قرآن مقدس کی تین آیات طیبہ کی مخالفت ہے۔

جب زید نے کہا کہ میں بحیثیت مسلمان اہرمن کوکیسا سمجھتا ہوں،اس کے بعد اپنی اردو زبان کا حوالہ دیا۔اردوزبان کوبھارت میں مسلمانوں کی زبان وادب مانا جاتا ہے،گویا کہ قائل نے یہ کہا کہ مسلمان اہر من کوکیسا سمجھتے ہیں۔جس شاعر کا قول پیش کیا،وہ بھی مسلمان ہے۔اس سے یہی واضح ہوا کہ قائل اہر من کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ بیان کر رہا ہے۔کم ازکم اتنا ضرور ثابت ہوا کہ وہ اہرمن کو ویسا ہی مانتا ہے، جیسا کہ بیان کیا۔

جاننا اور کہنا دنوں کے الگ معانی ہیں۔کسی نے کہا کہ میں اللہ کو ایک جانتا ہوں تو یہاں جاننے کا معنی ماننا اور اعتقاد رکھنا ہے۔کہنے کا معنی ہرجگہ ماننا اور اعتقاد رکھنا نہیں۔

 استاذ شاگر د کو گدھا کہا تو یہ مفہوم نہیں کہ استاد نے شاگرد کو گدھا مان لیا،بلکہ زجروتوبیخ کے طورپر ایسا کہا جاتا ہے۔ محل استعمال کے اعتبارسے جاننے اور کہنے کے مفہوم کا تعین ہوگا۔

زیدنے کہا کہ میں اسی اہرمن کو جانتا ہوں جوایسی صفات کا حامل ہے۔ اسلوب کلام اورسیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہاں جاننا بمعنی ماننا ہے کہ میں اسی اہر من کومانتا ہوں جو ایسی صفات کا حامل ہے،پس زیدنے اہرمن کی مذکورماقبل صفات کومانا،اور اس کی تاکید کی۔


 تاویل بعید اور عقلی احتمال 

تاویل بعید اورعقلی احتمال کے سبب کفرکلامی کا حکم عائد نہیں ہوتا ہے،لیکن کفرفقہی کا حکم عائد ہوجاتا ہے۔ جس تاویل پر کوئی صحیح دلیل نہ ہو، وہ تاویل بعید ہے۔ جو تاویل پیش کی جائے،اس کی دلیل دیکھی جائے کہ وہ صحیح دلیل ہے،یا محض اس کو دلیل کے طورپر پیش کیاگیا اور اس سے فاسداستدلال کیا گیاہے۔ اگر وہ صحیح دلیل نہیں ہے تواس سے استدلال فاسد ہو گا،اوروہ تاویل بعید ہوگی۔تاویل بعد کے سبب کفرکلامی کا حکم نہیں ہوگا،لیکن کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔تاویل بعید اور تاویل باطل میں فرق کرنا ہوگا۔بسااوقات تاویل باطل کو بھی تاویل بعید یا تاویل قریب کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔تاویل باطل دراصل تحریف ہے۔

تاویل کی تینوں قسموں کی تفصیلی بحث ”البرکات النبویہ“رسالہ سوم میں ہے۔

تمہید ایمان(دیابنہ کے مکرسوم) میں مثالوں کے ذریعہ تاویل باطل کی تفہیم ہے۔ مفسر وصریح متعین کلام کے ثابت شدہ معنی کے خلاف جو بھی تاویل ہوگی،وہ باطل تاویل ہوگی۔وہ تاویل بعیدیا تاویل قریب نہیں ہوگی۔ دیابنہ تاویل باطل کی مصیبت میں ڈیڑھ سو سال سے مبتلاہیں۔اشخاص اربعہ کا کفر اپنی جگہ اٹل ہے۔وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔


اقوال ابراہیمی پر قیاس کرنا غلط

زیدکے اقوال کو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اقوال پر قیاس کرنا غلط ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا فرما ن (بل فعلہ کبیر ہم)بطورتوریہ وتعریض ہے۔ یہ بلیغ کلام کے اقسام میں سے ہے۔مشہور قانون ہے:الکنایۃ ابلغ من التصریح۔نیز یہاں کوئی کفر یہ قول نہیں،جب کہ قرآن مقدس کی مخالفت کے سبب زید کاکلام فی نفسہ کفریہ ہے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قول (ہذاربی) میں ہمزۂ استفہام محذوف ہے،یعنی کیا یہی میرا رب ہے،جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔آپ نے مشرکین کے عقیدہ کو نقل کرکے اس کا رد فرمایا ہے۔ ستارہ وچاند وسورج کے غروب ہوتے ہی (لا احب الافلین)فرماکرآپ نے مشرکین کے درمیان ہی ان کے غلط عقیدہ کا ردوانکارفرمادیا۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اقوال کی تشریح بحث یازدہم کے اخیر میں ہے۔


نقل کا دعویٰ ناقابل قبول 

(1)اگر کوئی کہے کہ زید نے مجوسیوں کا نظریہ نقل کیا ہے۔بالفرض اگر زید نے مجوسیوں کا نظریہ بیان کیا ہے تو بھی اس سے مجوسیوں کے مذہبی جذبات کا احترام ہوا۔ 

کفار کے مذہبی جذبات کا اعزاز کفرہے۔ جس طرح کفار کے بتوں کی برائی بیان کرنے سے ان کے مذہبی جذبات کی توہین ہوتی ہے۔اسی طرح بتوں کی مدح سرائی سے ان کے مذہبی جذبات کا احترام ہوتا ہے۔کفار کے مذہبی جذبات کا احترام بھی کفر ہے۔
اہر من کے بارے میں زید کہے کہ اس کا وجود ناپاک وجودہے۔سوال ہونے پر کہے کہ ہم نے یہودیوں کا نظریہ بیان کیا تو مجوسی ناراض نہیں ہوں گے؟ضرور ناراض ہوں گے۔

 اب قائل کہے کہ میں نے تو یہودیوں کا نظریہ بیان کیا۔کیا مجوسی قوم یہ بات تسلیم کرلے گی،ہرگز نہیں۔ہاں، اگر اسی قول میں کہتا کہ یہودیوں کا نظریہ ہے کہ اہر من کا وجود ناپاک وجود ہے،تب یہ دعویٰ قبول ہوسکتا تھا کہ اس نے غیروں کا قول نقل کیا ہے۔اس صورت میں بھی مجوسی ناراض ہوتے،گرچہ ناراضگی کچھ کم ہوتی،لیکن ناراضگی ضرور ہوتی۔

زید کہے کہ ایک یہودی شاعر نے اہرمن کے بارے میں کہا ہے:
ہے اہرمن کے وجود پہ ایرانیوں کو عار اہل عجم سمجھتے ہیں اس کو ضلال شرق 
کیا یہ شعر سن کر مجوسی ناراض نہیں ہوں گے۔ضرورہوں گے،گرچہ دوسرے کا شعر نقل کیا ہے۔جس طرح اپنے معبودباطل کی برائی سن کرمجوسی ناراض ہوگئے،اسی طرح اپنے معبود باطل کی تعریف سن کر مجوسی خوش ہوں گے۔ان کے مذہبی جذبات کا اعزاز ہوگا۔

ارشاد الٰہی ہے:(واذا ذکر اللّٰہ وحدہ اشمازت قلوب الذین لا یؤمنون بالاٰخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذا ہم یستبشرون)(سورہ زمر:آیت 45)  

تر جمہ: اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، دل سمٹ جاتے ہیں ان کے جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر ہوتا ہے،جبھی وہ خوشیاں مناتے ہیں۔
(کنزالایمان)

جب مشرکین کے بتوں کا ذکرخیر کیا جاتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔اس سے ان کے مذہبی جذبات کا احترا م ہوتا ہے۔بتوں کے ذکرخیرسے بتوں کی تعظیم ہوتی ہے۔اس طرح معبودان باطل کی مدح وستائش میں دوقسم کا کفر پایا جاتا ہے۔ اس بلا میں کوئی مبتلا نہ ہو۔ بتوں کی مدح سرائی میں بتوں کی تعظیم بھی ہے اورکفار کے مذہبی جذبات کا اعزاز بھی۔

(2)اولاً نقل کا دعویٰ غلط ہے۔
 بالفرض نقل ہے تویہ استحسان کے ساتھ نقل ہے،اور استحسان کے ساتھ غیرکے کفریہ کلام کی نقل بھی کفر ہے۔ماقبل میں گزرا کہ ان کلمات میں تین آیات مقدسہ کی مخالفت ہے۔غیر کا کفریہ کلام تردید وتقبیح یا قائل کے خلاف شہادت کے واسطے نقل کیا جا سکتا ہے۔ زید نے نہ تردید کی ہے،نہ کسی کے خلاف شہادت دی ہے۔

بعدمیں زید نے یہ بھی کہا کہ میں اسی اہرمن کوجانتا ہوں جو ایسے عمدہ اخلاق والا ہے۔ اس سے ماقبل کی کہی ہوئی بات کی تاکید ہوگئی،اورواضح ہوگیا کہ زید خوداہر من کی تعریف کر رہا ہے۔اگر غیر کا قول بھی نقل کیا ہوتوزید ان اقوال کو اہرمن کے حق میں صحیح سمجھ رہا ہے۔

زید نے(قل ہواللہ احد)کی تفسیربیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔وہ خالق ومالک ہے۔اس کے بعد کہا کہ:میں اسی خدا کوجانتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں۔جو سب کا خالق ومالک ہے،پس یہ ماقبل کے کلام کی تاکید ہے۔

(3)نانوتوی کہے کہ ہم نے حدیث سبع ارضین کی تشریح میں سائل کا نظر یہ نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سائل اگراس حدیث کو صحیح سمجھتا ہے تو اس اعتبارسے ہرزمین میں ایک خاتم کاہونا ثابت ہوتا ہے اور ختم نبوت کے بعد بھی نبی جدید کا ہوناثابت ہوتاہے۔کیا نانوتوی کی یہ تاویل مانی جائے گی،ہرگز نہیں۔چوں کہ یہ سائل کاغلط نظریہ تھا تو اسے رد کرنا تھا۔کفریہ نظریہ کوتائید وتاکیداوراستحسان کے ساتھ نقل کرنا بھی کفر ہے۔

(4)زید کہے کہ ایک مجوسی شاعر نے معبود مجوس یزدان کے بارے میں کہا: 
ہے یزدان کی تخلیق پر ایر انیوں کوناز اہل عجم سمجھتے ہیں اس کو خدائے شرق 
یزدان کی تخلیق بہت پاکیز ہ ہے۔ اس نے اچھی چیزیں پیدا کیں۔ اہل عجم اسے مشرقی علاقوں کا خدا سمجھتے ہیں۔ خدا کا رتبہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔یزدان ایک روشنی کا نام ہے جس نے مشرقی علاقوں کومنور کررکھا ہے۔ اس کے احسان سے سارا مشرق باغ وبہار بن چکا ہے۔اس نے لوگوں کے ساتھ محبت کی ہے۔کسی پر ظلم نہیں کیا۔سب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
 میں اسی یزدان کو جانتا ہوں جس نے مشرقی علاقوں کے تمام لوگوں کے ساتھ محبت کی ہے،نفرت کو مٹایا ہے۔مظلوموں کی مدد کی ہے۔غریبوں کا سہارا ہے۔

سوال ہونے پر مفتی کہے کہ زید نے اپنا عقیدہ نہیں بیان کیا،بلکہ مجوسیوں کا عقیدہ بیان کیا ہے، لہٰذا زیدپرکوئی حکم شرعی نہیں تو کیا یہ فتویٰ صحیح ہے؟مجوسی اسے خالق خیر سمجھتے ہیں۔ زیدنے کہا کہ اس کی تخلیق بہت پاکیزہ ہے۔ زید نے صریح لفظوں میں اسے خالق کہا، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔زیدنے عقیدۂ مجوس کی تردید نہیں کی۔

شعر کی تشریح میں زید نے یزدان کے خداہونے کا ذکر کیا، لیکن تردید نہیں کی۔اگریہ نقل ہے تو اسے تردیدکرنا تھا،جب کہ اسلوب کلام استحسان کو ثابت کررہا ہے۔ استحسان کے ساتھ کفریہ کلمات کی نقل ہوتو ناقل پرکفر کا حکم عائد ہوگا۔بحث دوازدہم میں تفصیل ہے۔

(5)زیددیوبندیوں کی مجلس میں جائے۔وہاں گنگوہی کی یاد منائی جارہی ہو۔زید گنگوہی کی تعریف کرے،اور کہے کہ: محمود الحسن دیوبندی نے گنگوہی کی شان میں لکھا:

خدا ان کا مربی تھا وہ مربی تھے خلائق کے   
میرے مولیٰ میرے ہادی تھے بیشک شیخ ربانی

اللہ تعالیٰ گنگوہی پر فیضان فرماتا تھا اور گنگوہی لوگوں کی تربیت فرماتے۔دینی علوم سکھاتے، وہ عظیم عالم دین اور بڑے ماہرمعلم تھے۔ وہ شیخ ربانی تھے۔ وہ ولی کامل تھے۔ شیخ ربانی کا رتبہ بہت بلند ہوتا ہے۔ وہ فضل وکمال اوردرجہ ورتبہ میں بہت بلند ہوتے ہیں، اور میں اسی گنگوہی کوجو جانتا ہوں جو بلند اخلاق کے حامل اور قوم کی عمدہ تربیت کرنے والے مشفق استاذ تھے۔وہ بھارت کے بڑے عالم دین تھے۔
مفتی سے سوال ہوکہ زید کا کیا حکم ہے؟ مفتی جواب دے کہ زید نے گنگوہی کے بارے میں دیوبندیوں کا نظریہ بیان کیا ہے۔کیا یہ بات تسلیم کی جائے گی،ہرگز نہیں۔

زید نے ایک مرتد کوولی کا مل مانا ہے۔اس پر شرعی حکم وارد ہووگا۔مرتد کو عالم دین ماننے والا بھی مر تدین میں شمار ہوگا۔ جب اس نے مرتدکوعالم دین ماناتو اسے مومن سمجھا۔
اعلیٰ حضرت امام احمدرضاقادری قدس سرہ العزیزنے جواب میں رقم فرمایا:
”دیوبندیہ کی نسبت علمائے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق فرمایا ہے کہ وہ مرتد ہیں، اورشفائے امام قاضی عیاض وبزازیہ ومجمع الانہر ودر مختا ر وغیرہا کے حوالہ سے فرمایا کہ ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر“جوان کے اقوال پر مطلع ہوکر ان کے کفر میں شک کرے،وہ بھی کافر۔اوران کی حالت کفر وضلال اور ان کے کفری وملعون اقوال طشت ازبام ہوگئے۔ ہرشخص کہ نراجنگلی نہ ہو، ان کی حالت سے آگاہ ہے،پھر انھیں عالم دین جانے تو ضرور”منہم“ ہے،اور اس کے پیچھے نماز باطل محض:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد سوم:ص265 -رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا عبارت میں آخری حصے میں ان کی حالت کفروضلال اور ان کے کفری اقوال کی شہرت کا ذکر ہے۔ حالت کفر وضلال یہ ہے کہ حرمین طیبین سے ان لوگوں پر کفر کا فتویٰ آیا اور یہ لوگ تائب نہ ہوئے،پس اب تک کفر میں مبتلا ہیں۔ ان کے کفریہ عقائد اور ان پر نافذ شدہ حکم کفر مشہورومتواترتھے تواب جو ان کوکافر نہ مانے،وہ بھی کافر ہے۔ 
ہاں،اگر کوئی شخص حقیقت میں ناواقف ہوتو اس کودیوبندیوں کے کفریہ عقائد بتائے جائیں اورعلمائے عرب وعجم کے نافذکردہ کفر کلامی کے فتاویٰ کے بارے میں بتایا جائے۔ 

دیوبندیوں کے کفریہ عقائدکا قطعی علم اور فتویٰ تکفیر کا قطعی علم ہوجانے کے بعد بھی انکار کرے تو وہ کافرہے۔”منہم“کا مفہوم یہ ہے کہ جو ضروری تفصیل سے یقینی طورپرآگاہ ہوکر بھی اشخاص اربعہ کومومن مانے،وہ بھی کافرہے۔جس کو کچھ بھی معلوم نہیں، وہ معذورہے۔

امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے ایک سوال کے جواب میں رقم فرمایا:
”جوان کے خیالا ت وحالات پر مطلع ہوکر انہیں عالم جانے،یا قابل امامت مانے، ان کے پیچھے نماز پڑھے،وہ بھی انہیں کی طرح کافر ومرتد ہے کہ: من شک فی کفرہ فقد کفر۔
اس کے لیے حسام الحر مین کی وہ عبارتیں کہ سوال سوم میں مذکور ہوئیں،کافی ہیں۔ یوں ہی جوان احکام ضروریات اسلام کو کہے:یہ مولوی کے جھگڑے ہیں،وہ بھی کافر ہے“۔ 
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص109-رضا اکیڈمی ممبئ)

منقولہ بالا عبارت میں ہے کہ جو اس کے نظریات وحالات پر مطلع ہو کر اس کو عالم دین جانے,وہ بھی اسی طرح کافر ہے۔ایک دیوبندی کے بارے میں سوال تھا۔

  قرینہ اور تعریض کا دعویٰ 

سوال:کیا مذکورہ کلام کے معنی کا تعین قرینہ کے ذریعہ نہیں ہوگا؟

  جواب: اسلوب کلام اہم قرینہ ہے کہ تمام کلمات بطوراستحسان کہے گئے ہیں۔ 

سوال:زید نے بطور تعریض یہ کلمات کہے ہیں اور اس کی مراد دوسری ہے؟ 

جواب: کفریہ کلام کہے اور تعریض وتوریہ کے طورپر کوئی دوسرا معنی مراد لے تو بھی حکم کفرہے۔بحث دہم میں تعریض وتوریہ کی بحث ہے۔اگر کوئی کسی انسان کو کہے کہ تم میرے خدا ہو۔ بطور تعریض یہ مراد لے کہ جیسے خداتعالیٰ ہمیں نعمتیں دیتا ہے،تم بھی ہمیں نعمتیں دیتے ہوتو یہ کفر ہے۔اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔ایسی بلاؤں میں مبتلا ہوکر آخرت بربادنہ کریں۔

اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے فضل واحسان سے معبودان کفار سے متعلق شرعی احکام کے پندرہ مبا حث مکمل ہوئے۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے:(آمین) 

ان مباحث کو رقم کرنے کامقصد یہ ہے کہ کوئی مومن بھائی ایسی برائی میں مبتلا نہ ہو۔ اگر کسی سے کوئی لغزش ہوگئی ہوتو اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق سے سرفراز فرمائے: (آمین)

ان مباحث میں احکام شریعت کی توضیح وتشریح ہے۔ہرگزکسی قائل یا کسی فیصل پر تنقید مقصودنہیں۔ہم نے اپنی جانب سے مستقل تحقیق کی ہے۔یہ کسی کی تحقیق کا جواب نہیں۔ بوجہ ضرورت بعض فیصلے زیر بحث آئے۔جملہ مفتیان اہل سنت وجماعت دین مصطفوی کے عظیم خدام اورغلامان رسول ہیں۔انسا ن اپنے محنتی خادم اوروفادارغلام سے محبت کرتا ہے۔ 

جونفوس عالیہ ہمارے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام من اللہ المجیب کے دین متین کے خادم اور ان کے وفادار غلام ہیں، ہم ان کی شان اقدس میں کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کی مدد فرمائے،اور ان کے طفیل ہماری دستگیری فرمائے۔ان مباحث میں جو لغزش وخطاہو، وہ ہمارے لیے واضح فرماکرتوفیق توبہ اورپروانہ بخشش عطا فرمائے: (آمین)

ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی ان پندرہ مباحث کا مجموعہ سپرد قوم کردیا جائے گا۔اصحاب علم وفضل اپنافیصلہ سنائیں،تاکہ امت مسلمہ مخمصہ سے باہر ہو: واللہ الہادی وہو المستعان 
وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکر یم::وآلہ العظیم

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:05:اکتوبر 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے