Header Ads

باب اعتقادیات کے اختلافی مسائل ‏

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما 

باب اعتقادیات کے اختلافی مسائل 

باب فقہیات کے ظنی اور غیر منصوص مسائل کی تحقیق میں اختلاف ہو سکتا ہے۔سوئے اتفاق ہمارے یہاں باب اعتقادیات میں چند مشہور اختلافات تھے، جن کا حل ضروری تھا۔

(1)فیورک کا مسئلہ (2)کتھائی مجلس کا فیصلہ (3)منہاج القرآن کے اختلافی نظریات (4)اہل سراواں کے اختلافی نظریات۔ 

(الف)اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے فیورک کا مسئلہ حل فرما دیا۔ حالیہ دنوں میں حضرت شیخ الاسلام دام ظلہ العالی نے بھی ایک قابل اعتراض شخص کوخلافت عطا فرمائی تھی،وہ خلافت بھی رد فرمادی اور بعض دیگر متعلقہ امور سے بھی رجوع فرمالیا۔اللہ تعالیٰ نے شہزادگان اہل بیت رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کو توبہ ورجوع کی توفیق عطا فر مائی،امید کہ دربار اعظم کے غلاموں کوبھی توبہ ورجوع کی توفیق عطا ہو، اور دیگر معاملات بھی حل ہوجائیں۔ 

(ب)کتھائی مجلس کے متعدد متخالف فتاویٰ منظرعام پر آئے۔ وہ مسئلہ آج تک حل نہ ہوسکا۔اس کے حل کے واسطے ہم نے پندرہ مباحث اور دیگر مضامین رقم کیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یوم ولادت اقدس حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثنا کو یعنی کل بروز دوشنبہ بوقت صبح صادق اسے جاری کیا جائے گا۔ یہ ایک مباحثاتی رسالہ ہے، تاکہ اس کے مشمولات ومندرجات کے پیش نظر یہ معاملہ حل کیا جا سکے۔السعی منی والتکمیل من اللّٰہ تعالٰی-وہو القادر والمستعان وعلیہ التکلان 

(ج)منہاج القرآن کے غلط نظر یات نے برصغیر کے سنی مسلمانوں میں بہت افراتفری پھیلائی۔علمائے اہل سنت وجماعت نے ڈاکٹر طاہر القادری کوصحیح راہ پرلانے کی بہت کوشش وکاوش فرمائی، لیکن کا میابی نہ مل سکی۔انجام کار اس پر شرعی حکم واردہوا۔تاہم جب تک موت نہ ہوجائے،تب تک توبہ ورجوع کی امید ضرور ہے۔ہم موصوف سے اپنے نظریات جدیدہ پر نظر ثانی کی گزارش کرتے ہیں۔

(د)اہل سراواں کہتے ہیں کہ ہمارا اختلاف صرف مسئلہ اقامت اور مسئلہ اذان ثانی میں ہے،حالاں کہ یہ لوگ اعتقادی امور میں بھی غلط نظریات پیش کرتے ہیں۔اسلامی عقائد ونظریات میں شک وشبہہ پیداکر نے کے واسطے علمائے اہل سنت وجماعت کے اقوال و فرمودات کی خود ساختہ تاویلیں کرتے ہیں۔

 ان لوگوں کا سب سے بڑا سہارا فقیہ عصرحضرت مفتی عبید الرحمن صاحب رشیدی اورفقیہ النفس حضرت مفتی مطیع الرحمن صاحب رضوی کے بعض اقوال ہیں۔ اول الذکر کی کوئی تحریر مجھےدستیاب نہیں ہوئی۔ اہل سراواں کی نقل سے ان کاجو قول مجھے ملا، وہ اسلامی اصول وقوانین کے خلاف تھا۔ہم نے اس کی تردید کردی ہے۔

مؤخر الذکر کا رسالہ ”اہل قبلہ کی تکفیر“ بھی اہل سراواں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ 

مذکورہ دونوں حضرات نے ”من شک فی کفرہ وعذابہ فقدکفر“ کی جدید تاویل کی ہے۔ اگر وہ تاویل صحیح ہے تو دونوں حضرات اپنے ہم درجہ وہم رتبہ اکابر علمائے اہل سنت وجماعت سے اس کی تصدیق وتائید حاصل فرما کر قوم کو پیش کریں،تاکہ ان نظریات جدیدہ کا حق یا باطل ہونا واضح ہو جائے۔لوگ اس مشکل سے نجات پا جائیں۔

حق مسئلہ کا علم علمائے حق میں سے صرف ایک ہی عالم کو ہوگا،اور دیگر علمائے حق کو اس کا علم نہ ہوگا،ایسا نہیں ہوسکتا۔واضح رہے کہ دلیل نہیں چاہئے۔ اکابر اہل سنت کی تصدیق وتائید پیش فرمائیں۔ سواد اعظم اہل سنت وجماعت کبھی ضلالت وگمرہی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔اگر سواد اعظم اہل سنت وجماعت کا وہی عقیدہ ہے، جویہ دونوں بیان فرماتے ہیں تو ہم سواد اعظم کے اجماع کو ضرورتسلیم کریں گے۔ 

دلیل ہرگز پیش نہ کی جائے۔مؤخر الذکر کا رسالہ:اہل قبلہ کی تکفیر اور مزید دوفتاویٰ ہم نے دیکھے،جن میں فقہ حنفی کی قیاسی واجتہادی جزئیات سے کلامی مسائل کوحل کیا گیا ہے۔

اگر اہل سنت وجماعت کے مذاہب اربعہ کے علمائے کرام اپنی فقہیات کی قیاسی واجتہادی جزئیا ت سے کلامی مسائل حل کرنے لگیں تو مذہب اہل سنت وجماعت کا علم کلام بھی چار ہوجائے گا، جس طرح چار فقہی مذاہب ہیں۔چار اصول فقہ ہیں، چارفقہ ہیں، اسی طرح چار اعتقادی مذاہب اور چار علم کلام ہو جائیں گے،حالاں کہ علم کلام ایک ہی ہے۔باب اعتقادیات کے قطعی مسائل یکساں ہیں۔ 

کیاچودہ صدیوں میں ایسا کوئی متکلم پیدا ہوا جو باب فقہیات کی قیاسی وظنی جزئیات سے اعتقادی وکلامی مسائل کو حل کرتا ہو؟صاحب معاملہ خودہی غور فرمائیں۔ 

(1)قیاسی مسائل، قیاس واجتہادکے اصول وضوابط کے تابع ہوتے ہیں۔ اعتقادی مسائل میں قیاس نہیں جاری نہیں ہوتا، پھر قیاسی مسائل سے اعتقادی مسائل کیسے حل ہوں گے؟

(2)قیاسی مسائل ظنی ہوتے ہیں۔ظنیات سے باب اعتقادیات کے قطعی مسائل کیسے حل ہوں گے؟کیا ناریل کے درخت میں آم پھل سکتا ہے؟

(3)موصوف نے اپنی متعدد تحریروں میں رقم فرمایا ہے کہ جب خبر مشہور کے ذریعہ کفریہ کلام مفتی کو پہنچے,تب تکفیر فقہی ہوگی۔ آمد اسلام پر چودہ صدیاں بیت گئیں۔اگراسلاف کرام کی کسی کتاب میں ایسا مرقوم ہوتو برائے کرم اطلاع فرمائیں۔

مسلمانو! اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ یہ دونوں حضرات بھی اپنے ہم منصب علمائے اہل سنت وجماعت سے اپنے نظریات جدیدہ پر تصدیق وتائید طلب فرمائیں۔ہمیں صرف یہ حکم ہے کہ کسی عالم کی بے ادبی نہیں کرنی ہے۔ نظریات باطلہ کے رد وابطال پر پابندی نہیں۔

مذکورہ دونوں بزرگوں کے متعلقین سے بصد ادب عرض ہے کہ ان حضرات کی حیات مبارکہ میں معاملہ حل کرنے کی کوشش فرمائیں۔انہیں اپنے ہم درجہ علمائے کرام سے مشاورت کے لیے زور ڈالیں۔ بعد وفات قبر پر آنسو بہانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

تاویلات باطلہ کا کچھ اعتبار نہیں۔نا گ پور کا معاملہ آج تک الجھا ہوا ہے۔اصحاب علم وفضل سے گزارش ہے کہ جو حضرات باحیات ہیں، ان پرنظر ثانی کے لیے دباؤ ڈالیں۔

ہم نے شدت کی راہ اس واسطے اختیار کی ہے کہ ان حضرات کی عمرکا اخیرحصہ ہے۔ خاتمہ کا اعتبار ہے۔ایمان پر خاتمہ ہو تو زہے قسمت۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری باتوں کوآنکھ بند کرکے مان لیں۔اکابر علمائے اہل سنت وجماعت سے دریافت کر لیں۔


ہم نے”اعلامیہ برائے اہل سنت وجماعت (1443-2021)میں متعدد امور کا ذکر کیا ہے۔ ان شا ء اللہ تعالیٰ ہم اس اعلامیہ پر علمائے متوسطین کی تصدیق لیں گے، جن کو مستقبل قریب میں قوم وملت کی قیادت کرنی ہے۔ بعض تصدیقات نشر ہوچکی ہیں۔

 ان شاء اللہ تعالیٰ امسال داخلی مسائل پر کام ہوگا۔ اہل سراواں بھی اپنے نظریات جدیدہ پر نظرثانی کریں۔اگریہ لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں، تب توبہ ورجوع کی توفیق ملنے کی امید ہے۔اگر دربار اعظم کے گستاخوں کی تائیدوحمایت مقصود ہے،تب توبہ کی توفیق ملنی مشکل ہے۔

 بہر حال سواد اعظم ضلالت میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ہاں، ایک گروپ ضرور بن سکتا ہے۔عہد رسالت میں بھی منافقین کا ایک گروپ تھا۔ان شاء اللہ تعالیٰ ہم پہلے ان بنیادوں کو ڈھائیں گے جن کے سبب غلط فہمی پھیل رہی ہے:واللہ الہادی وہو المستعان 

وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::واصحابہ وآلہ العظیم

طارق انور مصباحی
 
جاری کردہ:17:اکتوبر 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے