Header Ads

کس قطعی میں اہل عقل کا اختلاف ہوتا ہے؟

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

کس قطعی میں اہل عقل کا اختلاف ہوتا ہے؟ 

جن امور کا یقین قرائن وعلامات کے ذریعہ ہوتا ہے، اس میں اہل علم کا اختلاف ہوتا ہے۔ اسی طرح یقین اختیاری میں بھی اہل عقل کا اختلاف ہوتا ہے۔یقین اضطراری میں اختلاف نہیں ہوتا۔آگ میں ہاتھ ڈالنے والا ہرشخص یہی کہے گا کہ آگ جلانے والی ہے۔

اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے ارشاد فرمودہ قطعی ویقینی احکام میں سے بہت سے احکام پرکفارومشرکین کو اضطراری یقین حاصل ہوتا ہے،لیکن وہ یقین اختیار ی سے محروم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید سے متعلق ارشاد فرمایا کہ اگر تم اسے انسانی کلام سمجھتے ہوتو اس کی طرح کوئی ایک سورہ بھی پیش کرو۔نزول قرآن مقدس کے عہد مسعود میں کفار ومشرکین میں بڑے فصحاوبلغا موجود تھے۔ مثل قرآن ایک سورہ بھی پیش نہ کرسکے۔ انہیں یقین اضطراری حاصل ہوگیا کہ قرآن مجید انسانی کلام نہیں، لیکن وہ یقین اختیاری یعنی تصدیق وایمان سے محروم رہے۔جن کی تقدیرمیں ایمان تھا،وہ داخل اسلام ہوگئے۔

حضوراقدس تاجدار کائنات علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کثیرروشن معجزات کو دیکھ کر کفار ومشرکین کو یقین اضطراری حاصل تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ورسول ہیں، لیکن وہ یقین اختیاری یعنی تصدیق وایمان سے محروم رہے۔ 


 ایمان کی تعریف:

 علامہ میرسید شریف جرجانی حنفی نے ایمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے رقم فرمایا: 

(التصدیق للرسول فیما علم مجیۂ بہ ضرورۃً)
(شرح مواقف:ص718-مطبع نول کشور لکھنو)

ترجمہ: ضروریات دین میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا ایمان ہے۔

 ایمان کی تعریف میں لفظ تصدیق سے تصدیق شرعی مراد ہے۔شبہات باطلہ کو دور کرکے اپنے قصد واختیارکے ساتھ دین اسلام کے ضروریات دین پر یقین اختیاری کا نام تصدیق وایمان ہے۔ یہی تصدیق شرعی ہے۔تصدیق شرعی میں یقین اختیاری مطلوب ہے۔ یقین اضطراری مطلوب ومراد نہیں، ورنہ تکلیف کا مفہوم باطل ہوجائے گا۔

یہودونصاریٰ اوریقین اضطراری 
یہود ونصاریٰ کو ہمارے رسول حضور اقدس سروردوجہاں علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نبوت ورسالت کی حقانیت پر یقین اضطراری حاصل تھا، لیکن وہ تصدیق شرعی(یقین اختیاری) سے محروم تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن مقدس میں کافر قراردیا۔ارشاد الٰہی ہے:

(الذین آتینٰہم الکتٰب یعرفونہ کما یعرفون ابناۂم وان فریقًا منہم لیکتمون الحق وہم یعلمون)(سورہ بقرہ:آیت 146)

یہود ونصاریٰ کوجیسے اپنے بیٹوں پر یقین تھا کہ یہ ہمارے بیٹے ہیں، اسی طرح یہ یقین تھا کہ حضوراقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ورسول ہیں جن کی آمد کی بشارت توریت وانجیل میں دی گئی ہے۔توریت وانجیل میں حضور اقدس نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی واضح نشانیاں اور علامتیں بیان کی گئی تھیں۔ان نشانیوں کے سبب یہودو نصاریٰ کو یقین اضطراری حاصل تھاکہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی آخری نبی ورسول ہیں جن کی نشانیاں توریت وانجیل میں بیان کی گئی ہیں۔

ایمان بالغیب اوریقین اختیاری
بنی اسرائیل نے دیدار الٰہی کا مطالبہ کیا، تاکہ یقین اضطراری حاصل ہوجائے،لیکن یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا، کیوں کہ ایمان بالغیب کا حکم ہے۔ایمان بالغیب میں یقین اختیاری ہوتا ہے، اور ایمان میں یقین اختیاری مطلوب ہے،گرچہ بعض ضروریات دین کا یقین اضطراری بھی حاصل ہو۔

(1)(وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ)(سورہ بقرہ:آیت 55)

ترجمہ: اور جب تم نے کہا:اے موسیٰ! ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اورتم دیکھ رہے تھے۔(کنز الایمان)

(2)(یَسْءَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ)(سورہ نساء:آیت 153)
ترجمہ: اے محبوب! اہل کتاب تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتاردو تووہ تو موسیٰ سے اس سے بھی بڑا سوال کرچکے کہ بولے ہمیں اللہ کوعلانیہ (ظاہر کر کے) دکھا دوتو انہیں کڑک نے آلیا ان کے گناہوں پر۔(کنز الایمان)

قرآن مجیدکی متعدد آیات مقدسہ میں ایمان بالغیب کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود کا یقین کیا جائے۔ عقل کے ذریعہ غوروفکر کرکے شبہات باطلہ کو دور کیا جائے۔یہی یقین اختیاری ہے۔ شبہات باطلہ کو دورکرنے کے واسطے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃووالسلام کی بعثت ہوئی۔ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری علمائے اسلام کے سپرد ہے۔موت کے وقت حالت نزع میں سب کچھ دیکھ کر کافر ایمان لائے تو معتبرنہیں۔ اسی طرح قیامت میں کفار بھی سب کجھ دیکھ کر ایمان لائیں گے۔ یہ ایمان معتبر نہیں۔وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی تمنابھی کریں گے،لیکن مرتے ہی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ جو کچھ کرنا ہے، موت سے پہلے کرلیا جائے۔   

منافقین کو یقین اختیاری حاصل نہیں تھا

 منافقین کو یقین اختیاری حاصل نہیں تھا، اسی لیے انہیں کافر قرار دیا گیا۔

ارشاد الٰہی ہے:(اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ)
(سورہ منافقون:آیت 1)
ترجمہ:جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں،کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بے شک یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں۔(کنز الایمان)


کفارومشرکین اورمرتدین وضالین:
 
(1) کفار ومشرکین کو اسلام کی حقانیت کا یقین اختیاری حاصل نہیں ہوتا۔

(2)مرتدین کو بعض ضروریات دین کا یقین اختیاری حاصل نہیں ہوتا،لہٰذا وہ خارج اسلام قرار پاتے ہیں۔ ضروریات دین کی دلیل قطعی الدلالت بالمعنی الاخص(مفسر) وقطعی الثبوت بالمعنی الاخص (متواتر)ہوتی ہے،لیکن مرتدین کو شبہہ لاحق ہوجاتا ہے،جس کے سبب یقین اختیاری حاصل نہیں ہو پاتا ہے اور وہ خارج اسلام قرار پاتے ہیں۔

(3)ضالین کو ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر کا یقین اختیاری حاصل نہیں ہو پاتا،لہٰذا وہ خارج اہل سنت قرار پاتے ہیں۔ضروریات اہل سنت کی دلیل قطعی بالمعنی الاعم ہوتی ہے۔ضلالت کے مختلف درجات ہیں۔ ضروریات اہل سنت کے علاوہ بھی متعددامور کے سبب ضلالت کا حکم نافذ ہوتا ہے۔
علمائے حق کو قطعی بالمعنی الاخص وقطعی بالمعنی الاعم امور کا یقین اختیاری حاصل ہوتا ہے۔ اجماع کا دلیل شرعی ہوناضروریات اہل سنت میں سے ہے،یعنی ضروریات دین کی قسم دوم سے ہے۔ تاویل کے ذریعہ ضروریات اہل سنت کا انکارمتکلمین کے یہاں ضلالت ہے اور فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی۔رسالہ:اہل قبلہ کی تکفیر میں فواتح الرحموت کی جو عبارت منقول ہے،اس کا تعلق اجماع کے منکرین سے ہے۔ 

علامہ بحر العلوم فرنگی محلی قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:(ان الفقہ عبارۃ عن العلم بوجوب العمل-وہو قطعی لا ریب فیہ ثابت بالاجماع القاطع،بل ضروری فی الدین-وان کان معرفۃ الاحکام علی سبیل الظن-ولا یعبأ بالمخالف،لانہ نشأ بعد الاجماع-وانما لا یکفر لانہ لا یسلم الاجماع- ومنکر الاجماع انما یکفر اذا انکر بعد تسلیم تحقق الاجماع-والقطع یختلف باختلاف الاشخاص کما سیجئ فی بحث الامر ان شاء اللہ تعالی فخلاف المخالف لا یضر القطع)
(فواتح الرحموت:جلد اول:ص12-دارالکتب العلمیہ بیروت)

ترجمہ:فقہ وجوب عمل کے علم کا نام ہے۔ اور یہ بات بلا شبہ قطعی ہے، اجماع قطعی (اجماع صحابہ)سے ثابت ہے، بلکہ ضروری دینی (قسم دوم) ہے،گرچہ فقہی احکام کی معرفت ظنی طورپر ہو،اورمخالف کا اعتبار نہیں،اس لیے کہ وہاجماع کے بعد پیدا ہوا،اور اجماع کے مخالف کی تکفیر نہیں کی جائے گی،کیوں کہ وہ اصل اجماع کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اجماع کے منکر کی تکفیر اس وقت ہوگی، جب وہ اجماع کے تحقق کو تسلیم کرنے کے بعد انکار کرے، اور یقین اشخاص کے بدلنے سے بدل جاتا ہے،جیسا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ امر کی بحث میں آئے گا، پس مخالف کی مخالفت یقین کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

اصل اجماع کے ضروریات اہل سنت میں سے ہونے کی بحث اوراصل اجماع کے منکر کی تضلیل کی بحث ”البرکات النبویہ“ (جلد یازدہم:باب ہفتم:فصل اول)میں مرقو م ہے۔
فواتح الرحموت میں اس مقام پر یقین اختیاری کی بحث ہے کہ بعض کو کسی امر کایقین اختیاری حاصل ہوتا ہے اوربعض کو یقین اختیاری حاصل نہیں ہوتا ہے۔

 ضروریات دین(قطعی بالمعنی الاخص اموردینیہ) کا یقین اختیاری حاصل نہ ہو تو کفر کلامی کا حکم ہوگا اورضروریات اہل سنت (قطعی بالمعنی الاعم اموردینیہ)کا یقین اختیاری حاصل نہ ہو توضلالت کا حکم ہوگا۔

تکفیر کلامی اس وقت ہوتی ہے جب کلام کفری معنی میں قطعی بالمعنی الاخص ہو۔اب کسی شخص کو اس قطعی بالمعنی الاخص کی قطعیت کا یقین اختیاری حاصل نہ ہو سکا،جس کے سبب اس نے کفر کلامی کا انکار کردیا اور ملزم کو مومن مان لیا تووہ بھی اسی کی طرح کافرکلامی ہے۔

اسی طرح جس کو اصل اجماع کا یقین اختیاری حاصل نہ ہوسکا،پس اس نے اصل اجماع کا انکار کر دیا،اوراسے دلیل شرعی نہ ماناتو اس پر ضلالت کا حکم ہوگا۔ 

فواتح الرحموت کی منقولہ بالاعبارت میں یقین اختیاری کا ذکرہے کہ یقین اختیاری میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔جس کو ضروریات دین وضروریات اہل سنت کا یقین اختیاری حاصل نہ ہو، اس پر شرعی حکم وارد ہوگا۔ایسا نہیں کہ یقین اختیاری حاصل نہ ہوسکا تو وہ معذور ہے۔

رسالہ:اہل قبلہ کی تکفیر میں قلت التفات کے سبب یہ مرقوم ہوا کہ جس مفسرکلام پر کفر کلامی کا حکم دیا گیا ہو، پھر اس کلام میں کسی کو احتمال نظر آیا اور وہ تکفیر کلامی نہ کرے تو اس پر حکم کفر عائد نہیں ہوگا۔ امت مسلمہ اس نظریہ پر عمل نہ کرے۔مفسرکلام میں ایک معنی کے علاوہ دیگر معانی کا احتمال نہیں ہوتا۔اگر اس میں کسی کو احتمال نظر آتا ہوتو وہ احتمال باطل ہوگا۔



بدیہی کسبی اولی میں شبہات باطلہ کا امکان

بدیہی کی دوقسمیں ہیں:کسبی اور غیر کسبی۔
بد یہی کسبی کی دوقسمیں ہیں:بدیہی اولی وبدیہی غیر اولی
بدیہی غیر کسبی میں شبہہ ممکن نہیں،کیوں کہ وہ علم اضطراری ہے۔

بدیہی اولی کسبی میں شبہہ ممکن ہے۔اسلام کی حقانیت بدیہی اولی کسبی ہے۔

امام فخر الدین رازی نے (وتلک الایام نداولہا بین الناس)کی تفسیرمیں رقم فرمایا:
(واعلم أنہ لیس المراد من ہذہ المداولۃ أن اللّٰہ تعالی تارۃ ینصر المؤمنین وأخری ینصر الکافرین-وذلک لأن نصرۃ اللّٰہ منصب شریف وإعزاز عظیم،فلا یلیق بالکافر،بل المراد من ہذہ المداولۃ أنہ تارۃ یشدد المحنۃ علی الکفار-وأخری علی المؤمنین والفائدۃ فیہ من وجوہ:
 الأول:أنہ تعالی لو شدد المحنۃ علی الکفار فی جمیع الأوقات وأزالہا عن المؤمنین فی جمیع الأوقات لحصل العلم الاضطراری بأن الایمان حق وما سواہ باطل-ولوکان کذلک لبطل التکلیف والثواب والعقاب فلہذا المعنی تارۃ یسلط اللّٰہ المحنۃ علی أہل الایمان،وأخری علی أہل الکفر لتکون الشبہات باقیۃ والمکلف یدفعہا بواسطۃ النظر فی الدلائل الدالۃ علی صحۃ الاسلام فیعظم ثوابہ عند اللّٰہ
.والثانی:أن المؤمن قد یقدم علی بعض المعاصی،فیکون عند اللّٰہ تشدید المحنۃ علیہ فی الدنیا أدباً لہ وأما تشدید المحنۃ علی الکافر فانہ یکون غضبا من اللّٰہ علیہ)(تفسیرکبیر:سورہ آل عمران:تفسیرآیت منقولہ)

اگراللہ تعالیٰ کفار کوہمیشہ آفات وبلیات اور مصائب ومشکلات میں مبتلا رکھے،اور مومنین کو ہمیشہ مصیبتوں سے محفوظ رکھے تو مومنین کو اسلام کی حقانیت کا اضطراری علم حاصل ہوگا، پھر اس سے تکلیف باطل ہوجائے گی،یعنی دین اسلام کو اپنی عقل وفہم سے حق سمجھ کر اختیار کرنے کا حکم ہے،اسی لیے کبھی مومن بندوں کوآزمائش میں مبتلا کیاجاتا ہے،تاکہ وہ علم اضطراری کے سبب اسلام کوحق نہ سمجھیں،بلکہ دلائل کی روشنی میں اپنی عقل وفہم کے ذریعہ اسلام کوحق سمجھ کر قبول کریں۔

علم اضطراری شبہات باطلہ سے پاک ہوتا ہے، اور اسلام کی حقانیت گرچہ بدیہی ہے، لیکن یہ بدیہی کسبی اولی ہے،بدیہی غیرکسبی یعنی بدیہی اضطراری نہیں،اسی لیے بہت سے انسانوں کو اسلام کی حقانیت میں باطل شبہہ لاحق ہوتا ہے،جیسے بدیہی اولی میں شبہات باطلہ لاحق ہوتے ہیں کہ لوگ ہنومان کی دم کوہنومان سے بڑی کہتے ہیں۔مور کے پنکھ کومور سے بڑا کہتے ہیں۔یہ سب شبہات باطلہ ہیں جو ادنیٰ سی توجہ سے ختم ہوجاتے ہیں۔


عقل،تکلیف شرعی اور احتمالات باطلہ

تمام بدیہیات قطعی بالمعنی الاخص ہیں،لیکن وہ قطعی بالمعنی الاخص جو ضروریات دین میں سے ہیں،وہ عام طورپربدیہی غیر کسبی نہیں،جن میں احتمالات باطلہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

اگراحتمالات باطلہ نفس الامر میں معدوم ہو ں،اور بندوں کو علم اضطراری حاصل ہوتو تکلیف کا معنی باطل ہو جائے گا۔

عقل کے سبب بندوں کو احکام خداوندی کا مکلف بنایا گیا ہے۔ احتمالات باطلہ کو عقل کے ذریعہ دور کرنا ہے، اور حکم خداوندی کے حق ہونے کا یقین کرناہے،اوران کو حق ماننا ہے۔ یعنی یقین مع الاعتقاد کا نام ایمان ہے۔ اگریقین ہوگیا،لیکن تسلیم نہ کیا تو مومن نہیں،جیسا کہ ابوطالب کو یقین حاصل تھا،لیکن اعتقاد حاصل نہیں۔ 

چوں کہ بندوں کی عقلیں متفاوت ہیں،پس اللہ تعالیٰ نے عقل کی مددکے لیے حضرات انبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃوالسلام کو مبعوث فر مایا،تاکہ بندوں کوعذرنہ رہے،اور حضرات انبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃوالسلام کی ہدایت وارشادسے احتمالات باطلہ کو دور کرلیں۔

(الف)(وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتّٰی نَبعَثَ رَسُولًا)(سورہ اسراء:آیت 15)
ترجمہ:اورہم عذاب کرنے والے نہیں،جب تک رسول نہ بھیج لیں۔(کنز الایمان)

(ب)(وَمَاکَانَ رَبُّکَ مُہلِکَ القُریٰ حَتّٰی یَبعَثَ فِی اُمِّہَا رَسُولَا یَتلُو عَلَیہِم آیَاتِنَاوَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ)(سورہ قصص:آیت 59)

ترجمہ:اور تمہارا رب شہروں کوہلاک نہیں کرتا جب تک ان کے اصل مرجع میں رسول نہ بھیجے جو ان پر ہماری آیتیں پڑھے، اورہم شہروں کوہلاک نہیں کرتے،مگر جب کہ ان کے ساکن ستم گار ہوں۔(کنز الایمان)

انسانوں کو عقل دی گئی اور مکلف بنایا گیا کہ احکام خداوندی کو تسلیم کریں۔اگر شبہا ت باطلہ معدوم ہوں تو تکلیف کی صورت باطل ہوجائے گی،کیوں کہ بدیہی غیر کسبی میں عقل اس کوتسلیم کرنے پر مجبورہوتی ہے۔وہاں علم اضطراری پایا جاتا ہے،ایسی صورت میں عقل کو استعمال کرکے دو راستو ں میں سے ایک راہ کو اختیار کرنے کی صورت مفقود ہوگی۔

بندوں کو مکلف بنائے جانے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی عقل کواستعمال کرکے حق کوحق مانے،تب وہ مومن ہوگا۔اگر کسی کی گردن پر تلوار رکھ دی گئی اور وہ موت کے خوف سے ایمان لایا،عقلی یقین وقلبی اعتقاد نہیں تو ہرگز مومن نہیں۔

ارشاد الٰہی ہے:(لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ)
(سورہ بقرہ:آیت 256)

ترجمہ:کچھ زبردستی نہیں دین میں،بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمرہی سے۔
(کنزالایمان)

اکراہ کے سبب ظاہری ایمان ہوتو وہ قبول نہیں۔مدار تکلیف عقل ہے۔عقل کے سبب ایمان وتصدیق ہو،تب قبول ہے۔قرآن مجید میں جابجا اس حقیقت کی تفہیم کی گئی کہ ہم نے اپنے رسولوں اورنبیوں کے ذریعہ حق وباطل واضح کردیا۔عقل کے سہارے شبہات باطلہ دور کر لو۔نہ سمجھ میں آئے تو ہمارے رسولوں اور نبیوں کو شبہات باطلہ بتاؤ،وہ تمہارے شبہات باطلہ دور فرمائیں گے۔مشرکین مکہ ومشرکین عرب کے بہت سے شبہات باطلہ کو دور کرنے قرآن مجید میں آیات مقدسہ نازل ہوئیں،مثلاً سب فنا ہوجائیں گے تو حشر کیسے؟

رب تعالیٰ نے ارشادفرمایا:(وضرب لنا مثلًا ونسی خلقہ-قال من یحیی العظام وہی رمیم::قل یحییہا الذی انشأہا اول مرۃ وہو بکل خلق علیم)
(سورہ یٰسین:آیت 79-78)

ترجمہ: اورہمارے لیے کہاوت کہتاہے اور اپنی پیدائش بھول گیا۔بولا،ایسا کون ہے کہ ہڈیوں کو زندہ کرے جب وہ بالکل گل گئیں۔تم فرماؤ! انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایااوراسے ہرپیدائش کا علم ہے۔(کنز الایمان)

یہی وہ ہدایت ہے جو حضرات انبیائے کرام ومرسلین عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے ذریعہ عالم انسانیت کو عطا گئی۔ اسی کا نام ”اراءۃ الطریق“ہے۔ یہ ایصال الی المطلوب نہیں، بلکہ عقل کے ذریعہ احتمالات باطلہ دور کرکے مطلوب تک پہنچنا ہے۔حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی جانب سے اراءۃ الطریق کے بعد بندوں کو عقل کے سہارے حق کو سمجھنا اور حق کواختیار کرنا ہے۔

(1)ارشاد الٰہی ہے:(لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ)
(سورہ بقرہ:آیت 256)

ترجمہ:کچھ زبردستی نہیں دین میں،بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمرہی سے۔
(کنزالایمان)

(2)(قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا للظلمین نارًا احاط بہم سرادقہا)(سورہ کہف:آیت 29)

ترجمہ:اورفرما دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے توجو چاہے،ایمان لائے اور جو چاہے،کفرکرے۔بے شک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی۔(کنز الایمان)

(3)ارشاد الہٰی ہے:(وہدینہ النجدین)(سورہ بلد:آیت 10)

رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ ہم نے انسان کو دو راستے دکھلائے۔یعنی ہدایت وضلالت کے راستے اور خیر وشر کے راستے۔اللہ تعالیٰ انسانوں کے درمیان حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالتسلیم کو مبعوث فرماتا ہے۔وہ انسانوں کو ہدایت وضلالت اورخیر وشر کا فرق بتاتے ہیں۔ جن کی تقدیر میں ہدایت ہوتی ہے،وہ ہدایت کو اختیار کرتے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطی نے رقم فرمایا:(أخرج ابن مردویہ عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:إنما ہما نجدان نجد الخیر ونجد الشر فلا یکن نجد الشر أحب إلی أحدکم من نجد الخیر)(الدرالمنثور جلدہشتم:ص 522-مکتبہ شاملہ)

(أخرج عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن مردویہ من طرق عن الحسن رضی اللّٰہ عنہ فی قولہ:(وہدیناہ النجدین)قال:ذکر لنا أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: أیہا الناس إنما ہما نجدان،نجد الخیر ونجد الشر-فما جعل نجد الشر أحب إلیکم من نجد الخیر) 
(الدرالمنثور جلدہشتم:ص 522-مکتبہ شاملہ)

 منقوشہ بالاتمام آیات مقدسہ میں عقل کے سہارے شبہات باطلہ کو دورکرکے ایمان لانے کا حکم بیان کیا گیا ہے،اسی لیے اسلام پر مجبور کرنے کا حکم نہیں،لیکن آخرت کا عذاب بتا دیا گیا،تاکہ ان کی عقل اس جانب متوجہ ہو، اور غوروفکر کے ذریعہ ایمان لائیں۔

یہی شبہات باطلہ ہیں،جن کوعقلی توجہ کے ذریعہ باطل سمجھنا ہے، اور دین خداوندی کو قبول کرنا ہے۔اگر شبہات باطلہ میں مبتلا رہے توبارگاہ الٰہی میں کوئی عذر قبول نہیں ہوگا، کیوں کہ عقل کی ادنی سی توجہ سے شبہات باطلہ کا بطلان ظاہر ہوجاتا ہے۔

عقل اسی لیے دی گئی کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے بندے اپنی دنیا وآخرت درست کریں۔لوگ دنیاوی کاموں کے لیے عقل استعمال کرتے ہیں اوردینی امور کے لیے کہتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کہا،ہم کیسے اس کوکافر مان لیں۔جواب یہ ہے کہ فلاں آدمی کہے کہ تم اپنی ساری جائیدادمجھے دے دوتوکیاتم دے دوگے؟ہرگز نہیں۔

دینی امور کے لیے عقل استعمال نہیں کیا تومواخذہ ہوگا۔جس کی عقل تکلیفی زائل ہو چکی ہو،جیسے پاگل،وہ اگر اشخاص اربعہ کو ولی اللہ مانے تو مواخذہ نہیں،کیوں کہ عقل تکلیفی موجود نہیں۔جب تک عقل تکلیفی موجود رہے،بندہ پر حکم خداوندی نافذرہے گا۔
شبہات باطلہ کاوجود لازم،ورنہ تکلیف کا معنی متصور نہیں ہوگا۔

ہاں،بعض امور ایسے ہیں کہ اصول شرع کو تسلیم کرنے کے بعد ان کا بدیہی علم حاصل ہوتا ہے۔ ایسے امور فی نفسہ بدیہی نہیں ہوتے ہیں،بلکہ اسلامی اصول کو تسلیم کرنے پر وہ بدیہی ہوجاتے ہیں،پس ایسے بدیہی امور میں علم یقینی حاصل ہوگا۔وہاں انکارکی صورت ہی نہیں تووہاں انکار غلط ہوگا،اور انکارپرحکم شرعی نافذ ہوگا۔

مثلاً جب کسی کو رسول ونبی مان لیا،اور رسول ونبی کا صدق عقلاً واجب ہے،پس وہ جو کچھ فرمائیں گے تو سچ ہوگا،اسی لیے قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صداقت مسلمانوں کے حق میں بدیہی ہے،اور غیر مسلمین کے حق میں نظری۔

غیروں نے جب رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کورسول ہی نہیں مانا تو قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صداقت ان کے حق میں بدیہی نہیں ہوسکی۔مسلمانوں کے حق میں قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صداقت بدیہی ہے،کیوں کہ صدق رسول عقلاً واجب ہے۔
وہ قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام جو عہد رسالت سے تواتر کے ساتھ مروی ہوکر ہم تک پہنچا،وہ ہمارے حق میں بدیہی ہے،یعنی اس کی صداقت بدیہی ہے۔بدیہی کو ضروری کہا جاتا ہے،اسی لیے ایسے متواتر امور کوضروریات دین کہا جاتا ہے۔

وہ قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام جس کو ایک ہی صحابی نے سنا۔ امت کو تواتر کے ساتھ وہ قول نبوی نہیں مل سکا،وہ خاص اس صحابی کے حق میں ضروری دینی ہے،لیکن امت کے لیے ضروری دینی نہیں،کیوں کہ ایک راوی کی خبر،خبرواحد ہے۔خبر واحد یقینی نہیں ہوتی ہے،بلکہ ظنی ہوتی ہے۔وہ یقینی نہیں،اس لیے دوسروں کے حق میں وہ ضروری دینی نہیں۔

واضح رہے کہ قول رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہاں قرآن مجید اور احادیث طیبہ دونوں مراد ہیں۔قرآن مجید وحی متلو ہے،اور حدیث نبوی وحی غیر متلو۔

ہمارے حق میں دونوں قول رسول ہیں،کیوں کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہمیں موصول ہوئے۔فعل رسول بھی حکم رسول کی منزل میں ہے،لہٰذا متواتر افعال نبویہ بھی ضروریات دین میں شامل ہیں۔
عقل تکلیفی کیا ہے؟

ارشاد الٰہی ہے:(لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا)(سورہ بقرہ:آیت 286) 

ترجمہ:اللہ کسی جان پربوجھ نہیں ڈالتا،مگر اس کی طاقت بھر۔(کنز الایمان)

قطعی حکم ماننا سب پر لازم ہے۔عدم فہم کے سبب کوئی معذور نہیں ہوگا۔اگر عقل تکلیفی زائل ہوجائے،مثلاً پاگل ہوجائے،یا عقل تکلیفی تک کی مدت کونہ پہنچا ہو،مثلاً ناسمجھ بچہ تو ایسے لوگوں پر حکم عائد نہیں ہوگا:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المر جع والمآب

امام اکمل الدین بابرتی حنفی (۴۱۷؁ھ-۶۸۷؁ھ)نے عورتوں کے نقصان عقل کی وضاحت میں رقم فرمایاکہ عورتوں کو عقل تکلیفی ہوتی ہے،گرچہ اتنی عقل نہیں کہ حکومت وسلطنت اور ملک وقوم کی ذمہ داری نبھا سکے۔درحقیقت ان کی تخلیق کا یہ مقصد بھی نہیں۔

عقل بالملکہ مدارتکلیف ہے۔عقل بالملکہ یہ ہے کہ آدمی کے پاس غور وفکر کی قوت ہو۔پاگل ومجنوں کی یہ قوت ختم ہوجاتی ہے۔ مکلف ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ افلاطون،سقراط،بقراط اورفارابی وابن سینا کی طرح فلسفی اور دانشورہو۔جواپنے نفع ونقصان کو سمجھتا ہے، وہ عقل تکلیفی والا ہے۔ بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے،اسے اتنی عقل نہیں کہ وہ خیر وشر اورنفع ونقصان کوسمجھ سکے،لہٰذاوہ احکام شرعیہ کامکلف نہیں۔
امام اکمل الدین بابرتی حنفی نے عورتوں کی عقل کے بارے میں رقم فرمایا:

(وَالْجَوَابُ عَنْ الْأَوَّلِ:أَنَّہُ لَا نُقْصَانَ فِی عَقْلِہِنَّ فِیمَا ہُوَ مَنَاطُ التَّکْلِیفِ-وَبَیَانُ ذَلِکَ أَنَّ لِلنَّفْسِ الْإِنْسَانِیَّۃِ أَرْبَعَ مَرَاتِبَ:

 الْأُولَی:اسْتِعْدَادُ الْعَقْلِ وَیُسَمَّی الْعَقْلَ الْہَیُولَانِیَّ وَہُوَ حَاصِلٌ لِجَمِیعِ أَفْرَادِ الْإِنْسَانِ فِی مَبْدَإِ فِطْرَتِہِمْ.

وَالثَّانِیَۃُ:أَنْ تَحْصُلَ الْبَدِیہِیَّاتُ بِاسْتِعْمَالِ الْحَوَاسِّ فِی الْجُزْءِیَّاتِ فَیَتَہَیَّأُ لِاکْتِسَابِ الْفِکْرِیَّاتِ بِالْفِکْرِ، وَیُسَمَّی الْعَقْلَ بِالْمَلَکَۃِ وَہُوَ مَنَاطُ التَّکْلِیفِ.

وَالثَّالِثَۃُ:أَنْ تَحْصُلَ النَّظَرِیَّاتُ الْمَفْرُوغُ عَنْہَا مَتَی شَاءَ مِنْ غَیْرِ افْتِقَارٍ إلَی اکْتِسَابٍ وَہُوَ یُسَمَّی الْعَقْلَ بِالْفِعْلِ.

وَالرَّابِعَۃُ:ہُوَ أَنْ یَسْتَحْضِرَہَا وَیَلْتَفِتَ إلَیْہَا مُشَاہَدَۃً وَیُسَمَّی الْعَقْلَ الْمُسْتَفَادَ، وَلَیْسَ فِیمَا ہُوَ مَنَاطُ التَّکْلِیفِ وَہُوَ الْعَقْلُ بِالْمَلَکَۃِ فِیہِنَّ نُقْصَانٌ بِمُشَاہَدَۃِ حَالِہِنَّ فِی تَحَصُّلِ الْبَدِیہِیَّاتِ بِاسْتِعْمَالِ الْحَوَاسِّ فِی الْجُزْءِیَّاتِ وَبِالتَّنْبِیہِ إنْ نَسِیَتْ، فَإِنَّہُ لَوْ کَانَ فِی ذَلِکَ نُقْصَانٌ لَکَانَ تَکْلِیفُہُنَّ دُونَ تَکْلِیفِ الرِّجَالِ فِی الْأَرْکَانِ وَلَیْسَ کَذَلِکَ-وَقَوْلُہُ:صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (ہُنَّ نَاقِصَاتُ عَقْلٍ)الْمُرَادُ بِہِ الْعَقْلُ بِالْفِعْلِ وَلِذَلِکَ لَمْ یَصْلُحْنَ لِلْوِلَایَۃِ وَالْخِلَافَۃِ وَالْإِمَارَۃِ)(العنایۃ شرح الہدایۃ:جلد10ص384-مکتبہ شاملہ)

وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم 

طارق انور مصباحی
 
جاری کردہ:26:جنوری 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے