گزشتہ سالوں کی فوت شدہ قربانیوں کے صدقہ کیلئے موجودہ قیمت کا اعتبار ہے

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚گزشتہ سالوں کی فوت شدہ قربانیوں کے صدقہ کیلئے موجودہ قیمت کا اعتبار ہے📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*السلام عليكم ورحمة الله وبركاته*
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس سوال میں کہ زید نے بلا عذر ۱۰ سال تک قُربانی نہیں کی اور اب بکری کی رقم صدقۃ کرنا چاہتا ہے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ
۱) کیا بکری کی قیمت اس سال کے حساب سے لگاۓ یا موجودہ سال کے حساب سے؟
۲) کیا کسی ایسے شہر میں جہاں بکریاں سستی ملتی ہوں جاکر ۱۰ بکریاں قربان کر دینا کافی ہوگا؟
*المستفتی: عبداللہ شاہ قادری عطاری، اکولہ، مہاراشٹر۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*
(۱)
*موجودہ سال کے حساب سے ، کیونکہ ادائیگی قیمت میں یوم اداء کا اعتبار ہے ،*

چنانچہ امام علاؤالدین ابوبکر کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء، فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أ أن هذا مذهب جميع أصحابنا؛ "*

*(📕بدائع الصنائع ، کتاب الزکوۃ ، فصل فی صفۃ الواجب فی مال التجارۃ ، ۲/۴۱۸ ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۴ھ)*
یعنی ، قیمت کی طرف منتقل کرنے کا اختیار یوم ادائیگی کے دن کے اعتبار سے ہے لہذا یوم ادائیگی کی قیمت کا اعتبار ہوگا اور صحیح یہی ہے کہ یہ ہمارے تمام اصحاب حنفیہ کا مذہب ہے ،

(۲)
*ایسا نہیں کرسکتا*
*اولا* اسلئےکہ اگرایک یا کئی سال کی قربانیاں فوت ہوئیں تو ہرسال کیلئے الگ الگ بکری یا اس کی مثل کی قیمت صدقہ کرناواجب ہے ، بکری ذبح کرنا کفایت نہیں کرےگا ،

چنانچہ امام برہان الدین محمود بن احمد بن مازہ مرغینانی بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ ھ فرماتےہیں

*🖋️" فإن لم يذبحها ولم يتصدق بعينها ولا بقيمتها حتى جاء أيام النحرمن قابل لا يجزئه الذبح عما لزمه في السنة الأولى، وكان عليه أن يتصدق بعينها أو بقيمتها،"*

*(📗ذخیرۃالفتاوی،کتاب الاضحیۃ،الفصل الثالث :فی وجوب الاضحیۃ بالنذر وماھو فی معناہ ،۸/۳۱۷ ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ،الطبعۃالاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی،قربانی کے جانور کو ذبح نہیں کیا اور نہ ہی عین بکری یا اس کی قیمت کو صدقہ کیا حتی کہ اگلے سال کے ایام نحر آگئے تو یہ ذبح پہلے سالوں کی لازم شدہ قربانیوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی ، بلکہ ان کیلئے عین جانور یا ان کی قیمت کو صدقہ کرنا لازم ہوگا ،

اور امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ولو ترک التضحیۃ ومضت ایامھا تصدق بہ حیۃ ناذر المعینۃ وفقیر شراھا لھا و بقیمتھا غنی شراھا او لا ،"*

*(📘تنویر الابصار ، کتاب الاضحیۃ ،ص۲۱۱, مکتبۃنبویۃ ، الطبعۃالاولی علی نفقۃ مصطفےمحمدیوسف۱۳۳۲ھ)*
یعنی،اگرقربانی چھوڑ دی اور اس کے ایام گزرگئے تو معین قربانی نذر کرنے والے اور خریدنےوالےفقیر پر زندہ بکری اور اس کی قیمت غنی پر صدقہ کرنا واجب ہے ، خریدا ہو چاہے نہ خریدا ہو ،
*ثانیا* اسلئےکہ جس جگہ آدمی پر قربانی واجب ہوئی ہے اسی جگہ کی قیمت کا اعتبار ہے ، نہ کہ دوسری جگہ کا ،

چنانچہ امام حسین بن علی سغناقی حنفی متوفی ۷۱۱ھ فرماتے ہیں

*🖋️" و اما مکان الاداء فھو مکان من یجب علیہ فی ظاھرالروایۃ "*

*(📙النھایۃ شرح الھدایۃ ، کتاب الزکوۃ ، باب صدقۃالفطر ، ۴/۲۲۸ ، جامعۃ ام القری ، العام الجامعی:۱۴۳۵ھ)*
یعنی ، مکان ادا اس کا معتبرہے جس پر واجب ہوا ہے ،

اور امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" والمنقول في النهاية معزيا إلى المبسوط ان العبرة لمکان من تجب علیہ لا بمکان المخرج عنہ موافقا لتصحیح المحیط فکان ھوالمذھب ولھذا اختارہ قاضی خان فی فتاواہ مقتصراعلیہ "*

*(📕البحر الرائق ، کتاب الزکوۃ ، باب المصرف قبیل باب صدقۃالفطر ، ۲/۲۶۹ ، شرکۃعلاؤالدین بیروت،۱۳۳۳ھ)*
یعنی، نہایہ میں مبسوط سے منقول ہےکہ اعتبار اس کی جگہ کاہے جس پر واجب ہواہے نہ کہ اس کی جگہ کا جس کی طرف سے نکالا جارہا ہے ، یہ صاحب محیط کی تصحیح کے موافق ہے تو اب یہی مذہب ہوا ، اسی لئے امام قاضیخان نے اس پر اقتصار کرتےہوئے اسے ہی اختیار فرمایا ،

*البتہ اگر عین جامع شرائط بکریاں سستی جگہ سے خرید کر مستحقین میں صدقہ کرے تو کوئی حرج نہیں لعدم المنع الشرعی ،*

*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*کتبــــــــــــــــــه:*
*✅محمد شکیل اخترقادری برکاتی، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت، صدر صوفہ، ہبلی، کرناٹک، الھند۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد شرف الدین رضوی، دارالعلوم حبیبیہ قادریہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ، الھند۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد عطاء اللہ نعیمی، دارالافتاء جامعۃالنور جمیعت اشاعت اہلسنت پاکستان، کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد جنید نعیمی، دارالافتاء جامعۃالنور جمیعت اشاعت اہلسنت پاکستان کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح، محمد امین صدیقی نعیمی ، مرادآباد۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد شہزاد نعیمی، دارالافتاء جامعۃالنور جمیعت اشاعت اہلسنت پاکستان کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد صادق رضا، شاہی جامع مسجد ، پٹنہ۔*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے