قسط چہارم
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
*ابتدائی تعلیم کا نصابِ تربیت:*
سلیم اللہ جندران ریسرچ اسکالر پنجاب یونیورسٹی ( لاہور) فتاویٰ رضویہ، جلد دہم کے حوالہ سے رقم طراز ہیں:
امام احمد رضا خان ابتدائی تعلیم کا نصاب نہایت تصریح و وَضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں:
(۱) زبان کھلتے ہی اللہ اللہ، پھر پورا کلمہ لاالہ الا اللہ سکھائے۔
(۲) جب تمیز آئے آداب سکھائے۔ کھانے پینے، ہنسنے بولنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں، باپ، استاد اور دختر کو شوہر کی بھی اطاعت کے طرق و آداب بتائے۔
(۳) قرآن مجید پڑھائے۔
(٤) بعد ختمِ قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔
(۵) عقائدِ اسلام وسُنّت سکھائے۔
(٦) حضور اقدس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے۔
(۷) حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب و اولیا و علما کی محبت و عظمت کی تعلیم دے۔
(۸) سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔
(۹) علم دین خصوصاً وضو، غسل، نماز، روزہ کے مسائل سکھائے۔
(۱۰) توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامتِ صدر و لسان وغیرہ خوبیوں کے فضائل بتائے۔
(۱۱) حرص و طمع، حبِ دنیا، حبِ جاہ، ریا، عجب، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہ برائیوں کے رذائل پڑھائے۔
(۱۲) زمانۂ تعلیم میں ایک وقت کھیلنے کا بھی دے کہ طبیعت پر نشاط باقی رہے۔
(۱۳) زنہار زنہار (ہرگز ہرگز) بری صحبت میں نہ بیٹھنے دے کہ یارِ بد مارِ بد سے بدتر ہے۔ ۱۲؎
چوں کہ نصابِ تعلیم میں معلم (استاذ) کا کردار کلیدی ہوتا ہے، اور ابتدائی درس کے اثرات مستقبل کے لیے معاون ہوتے ہیں، اس لیے ابتدائی تعلیم میں تعمیرِ شخصیت کے پہلو کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ متعلم(شاگرد) اور تربیتِ اولاد کے ضمن میں سلیم اللہ جندران تحریر فرماتے ہیں:
’’مدرسہ میں استاذ کی شخصیت، گھر میں ماں باپ کی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ امام احمد رضا خان ۵؍ تا ٦؍ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول مدرسہ/ایجوکیشن کے آغاز پر والدین پر یہ ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ والد ’’بچے کو نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ اور عمر رسیدہ استاد کے سپرد کرے اور بیٹی کو نیک، پارسا عورت سے پڑھوائے‘‘،اگر چہ آج کل کے حالات میں بچوں کے لیے نیک، متقی، صحیح العقیدہ اور عمر رسیدہ (کہنہ مشق/تجربہ کار) استاد کا مل جانا نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں ہے اور عام حالات میں نہایت کٹھن کام ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ضمن میں والدین اگر اس قدر دلچسپی لیں تو ان کے بچوں کے یقیناً بہتر شخصیت کی تعمیر ممکن ہے۔‘‘ ۱۳؎
*استاذ کا مقام اور ادب و احترام:*
جس طرح جسمِ انسانی میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی طرح پورے نظامِ تعلیم میں استاذ کی حیثیت ہوتی ہے۔ نصاب کتنا ہی عمدہ ہو لیکن اس کی تدریس بہتر نہ ہو تو نتائج منفی ظاہر ہوتے ہیں۔ استاذ کے بغیر تربیت کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ متعلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاذ کی عزت اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھے۔ اس کی عظمت کو مانے کہ بغیر اس کے تعلیم کا فیض حاصل نہیں ہوتا۔ امام احمد رضا نے استاذ کے وقار، ادب، احترام اور مقام کی وضاحت فرمائی ہے جسے نکات کی صورت میں تحریر کیا جاتا ہے:
(۱) استاذ کا شاگرد پر ایک ساحق ہے برابر اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت میں بھی نہ بیٹھے، اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی بات کو رَد نہ کرے۔
(۲) اپنے استاذ کے حقوق واجب کا لحاظ رکھے، اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے۔ یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی خاطر حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔
(۳) استاذ کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔
(٤) جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع کرے، اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے۔
(۵) اپنے استاذ پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام سے؛ رشتوں سے ایک رسی کھول دی،
(٦) اور استاذ کی تعظیم سے ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہوا تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
(۷) عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، ہاں اگر وہ کسی خلافِ شرع بات کا حکم کرے ہرگز نہ مانے کہ: لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اللّٰہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں) مگر اس نہ ماننے میں گستاخی و بے ادبی سے پیش نہ آئے، فان المنکر لایزال بمنکر (گناہ کا ازالہ گناہ سے نہیں ہوتا) ١٤؎
*حوالہ جات:*
(۱۲) ماہنامہ ضیاے حرم لاہور، نومبر ۲۰۰۵ء، ص ۴۱
(۱۳) معارفِ رضا سالنامہ ۲۰۰۳ء کراچی، مقالہ تعمیرِ شخصیت اور تربیتِ اولاد کا اسلامی نفسیاتی ماڈل، ص ۸۲۔ ۸۳
(۱۴) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکاتِ رضا پوربندر گجرات، ص ٦٣٧تا ٦٣٩
***
(بقیہ آئندہ)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں