قسط پنجم
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
*استاذ کے لیے بعض شرائط:*
استاذ کو صالح طبیعت کاہونا چاہیے۔ اس کے اثرات متعلم (شاگرد) پر پڑتے ہیں۔ امام احمد رضا نے جو تعلیمی تصوّر دیا ہے اس میں استاذ کے مقام کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے اور استاذ کے لیے جو ضوابط متعین کیے ہیں، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
(۱) انہماکِ فلسفیات و توغل مزخرفات نے معلم کے نورِ قلب کو منطقی اور سلامتِ عقل کو منتفی نہ کردیا ہو، کہ ایسے شخص پر خود ان علومِ ملعونہ سے یک لخت دامن کشی فرض اور اس کی تعلیم سے ضرر اشد کی توقع۔
(۲) وہ عقائدِ حقہ اسلامیہ سنّیہ سے بروجہِ کمال واقف و ماہر اور اثباتِ حق و ازہاقِ باطل پر بعونہٖ تعالیٰ قادر ہو ورنہ قلوبِ طلبہ کا تحفظ نہ کر سکے گا۔
(۳) وہ اپنی اس قدر کو بہ التزام تام ہر سبق کے ایسے محل و مقام پر استعمال بھی کرتا ہے ہرگز کسی مسئلۂ باطلہ پر آگے نہ چلنے دے جب تک اُس کا بطلان متعلم کے ذہن نشین نہ کر دے۔
(٤) متعلم کو قبلِ تعلیم خوب جانچ لے کہ پورا سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے قلب میں فلسفۂ ملعونہ کی عظمت و وَقعت متمکن نہیں۔
(۵) اس کا ذہن بھی سلیم اور طبع مستقیم دیکھ لے، بعض طبائع خواہی نخواہی زیغ کی طرف جاتے ہیں، حق بات ان کے دلوں پر کم اثر کرتی اور جھوٹی جلد پَیر جاتی ہے،
(٦) معلم و متعلم کی نیت صالحہ ہو نہ اغراض فاسدہ۔
(۷) تنہا اسی پر قانع نہ ہو بلکہ دینیات کے ساتھ ان کا سبق ہو کہ اس کی ظلمت اس کے نور سے متجلی ہوتی رہے، ان شرائط کے لحاظ کے ساتھ بعونہٖ تعالیٰ اس کے ضرر سے تحفظ رہے گا۔ اور اس تعلیم و تعلم سے انتفاع متوقع ہوگا۔ ۱۵؎
*تعلیمی ادارے کا ماحول:*
کردار سازی اور تربیتی عناصر میں ماحول کا رول گہرا ہوتا ہے۔ جیسا ماحول ہو گا اس کے ہمہ گیر اثرات تعلیم اور اس کے متعلقات پر پڑیں گے۔ ماحول کا پُر سکون ہونا اور اس کی عمدگی بہتر نتائج کا اجرا کرتی ہے۔ تعلیمی ادارے کے ماحول کو بنانے میں غیر نصابی سرگرمیوں مثل کھیل، تفریح وغیرہ کا دخل ہے۔ امام احمد رضا کی تعلیمات کی روشنی میں جناب جندران نے جو نتائج اخذ کیے ہیں اور ماحول کی تشکیل میں معلم (استاذ) کے کردار کا ذکر کیا ہے؛ اُس کے بعض اجزا ملاحظہ ہوں:
(۱) معلم اچھے اخلاق اور خصائلِ حمیدہ کا مالک ہو۔
(۲) معلم طلبہ سے مشفقانہ رویہ رکھتا ہو۔
(۳) معلم اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرتی حالات سے واقفیت رکھتا ہو۔
(٤) طالبِ علم کو بُری صحبت سے بچایا جائے کہ یہی عمر بننے اور سنورنے کی ہے۔
(۵) غیر نصابی سرگرمیوں کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ کھیل کود اور سیر و تفریح طالبِ علم کے ذہن و دماغ کو طراوت بخشتے ہیں اور طبیعت کو نشاط و انبساط پہنچاتے ہیں، جب کہ مسلسل تعلیم سے بچوں کی طبیعت اُکتاجاتی ہے۔
(٦) امام (احمد رضا) صاحب کے نزدیک سکنیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ یعنی تعلیمی ادارے کا ماحول پر سکون ہو، باوقار ہو تا کہ طالبِ علم کے دل میں وحشت اور انتشارِ فکر نہ ہو۔ ١٦؎
طلبہ کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے ان کی طبیعت میں فرحت کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ نصاب کی سرگرمیوں میں جائز تفریح و کھیل کے گوشے کی شمولیت کو امام احمد رضا ناگزیر سمجھتے ہیں۔ (واضح رہے کہ لہو و لعب اور غیر شرعی کھیل کی آپ کے نزدیک قطعاً اجازت نہیں)
*ضابطۂ اخلاق اور تصوّرِ سزا:*
فی زمانہ محزب اخلاق تعلیم و تعلّم کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں اخلاق کے جوہر کا پایا جانا مشکل ہے۔ اسلام نے اخلاق کو تربیت میں بنیادی حیثیت دی ہے، اور اسے علم کا لازمی حصہ بنادیا ہے۔ استاذ دورانِ درس متعلم کی اصلاح کے لیے اور اس کے تعلیمی ذوق کو بڑھانے کے لیے سزا دینے کا حق رکھتا ہے لیکن اس کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق اور اُصول مدِ نظر رہے۔ سلیم اللہ جندران رقم طراز ہیں:
’’ امام احمد رضا خان بریلوی (۱۳۱۰ھ) فتاویٰ رضویہ جلد دہم، باب دہم، علم التعلیم اور عالم و متعلم میں استاد کے لیے یہ ضابطۂ اخلاق دیتے ہیں: ’’(استاذ) پڑھانے سکھانے میں رفق و نرمی ملحوظ رکھے، موقع پر چشم نمائی، تنبیہ تہدید کرے، مگر کوسنا نہ دے کہ اس کا کوسنا ان کے لیے سببِ اصلاح نہ ہوگا، بلکہ زیادہ فساد کا اندیشہ ہے- مارے تو منہ پر نہ مارے، اکثر اوقات تہدید و تخویف پر قانع رہے، کوڑا قمچی اس کے پیشِ نظر رکھے کہ دل میں رعب رہے۔‘‘
امام احمد رضا خان تدریس میں نرمی اور حکمت کے ذریعے ضبط قائم کرنے پر زور دیتے ہیں۔‘‘ ۱۷؎
۱۹؍ شوال المکرم ۱۳۱۵ھ کو مولانا خلیل احمد خان پیشاوری نے فارسی میں ایک سوال بھیجا، جس میں امام احمد رضا سے پوچھا کہ استاد اپنے شاگرد کو بدنی سزا دے سکتا ہے یانہیں؟ اس کے جواب (بزبان فارسی) کے اردو ترجمے کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ضرورت پیش آنے پر بقدر حاجت تنبیہ، اصلاح اور نصیحت کے لیے بلا تفریق اُجرت و درم اُجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے، مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں، بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہیے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے۔‘‘۱۸؎
*حوالہ جات:*
(۱۵) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا پوربندر گجرات، ص ٦٣٥
(١٦) معارفِ رضا سالنامہ ۲۰۰۵ء، سلور جوبلی ایڈیشن، کراچی، مقالہ: معلم مطلوب و متعلم مطلوب، ص٢٧٦ تا۲۷۸
(۱۷) ماہنامہ ضیاے حرم لاہور، نومبر ۲۰۰۰ء، ص ٤٣-٤٤
(۱۸) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا پوربندر گجرات، ص ٦۵۲
***
(بقیہ آئندہ)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں