حضرت علامہ مولیٰنا قاری عبد الرحمٰن صاحب نے اپنے گراں قدر مضمون "حق بیانیاں"
میں رضا بالفتح ہے یا بالکسر نیز کلام اعلیٰحضرت میں تصرف کرنا کیسا ؟ ان کا بھی جائزہ لیاہے تو آئیے ان کو پڑھیں اور معلومات میں اضافہ کریں ۔
*رَضا یا رِضا* : جون پور سے شمس العلماء حضرت العلام قاضی شمس الدین صاحب مصنف قانون شریعت نے بریلی شریف کا سفر کیا اور اپنے تلمیذ خاص استاذ العلماء حضرت مفتی محمد اعظم صاحب کو ساتھ لے کر مرشد برحق سیدی مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ دوران گفتگو حضرت مفتی اعظم ہند سے سوال کیا کہ اعلیٰحضرت کا نام نامی " احمد رَضا تھا یا احمد رِضا ؟" ۔تخلص "رَضا ہے یا رِضا" ؟ حضرت نے جواب دیا کہ لغت میں دونوں طرح ہے مگر والد ماجد کا اسم گرامی رَضا بالفتح تھا رِضا بالکسر نہیں ۔۔۔
کتنے لوگوں کو رِضا بالکسر (زیر کے ساتھ) پڑھتے ہوئے سنا ہے اسی طرح بہت سے لوگ رَضوی کی جگہ رِضوی را کے زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں انہیں اس سے سبق لینا چاہئے تحقیق کے لئے حضرت مفتی محمد اعظم صاحب (نوری مسجد جنکشن بریلی) سے رابطہ کریں ۔
*تجھ کتے ہزار بھرتے ہیں*
آقائے نعمت مرشد برحق قطب عالم حضور مفتی اعظم ہند سے ہوچھا گیا سرکار کیا ہم "کتے" کی جگہ "شیدا" کہ سکتے ہیں ؟ مقطع کا پورا شعر اس طرح ہے :
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں ۔
حضور مفتی اعظم ہند نے فرمایا کہ اعلیٰحضرت کے کلام میں تصرف کرنے والے تم کون ہوتے ہو ؟ جو انہوں نے نظم فرمایا وہی پڑھنا چاہئے ۔
یہ اسی کلام مقطع ہے جو اعلٰی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے بارگاہ رسالت میں نظم فرمایا تھا ۔ نظم کرنے سے قبل بارگاہ رسالت میں التجا پیش کی ۔سرکار خواب میں باربار جمال جہاں آرا کی زیارت سے مشرف ہوا ہوں آج آپ کی خصوصی عنایات سے بندہ روضہ پاک پر حاضر ہے قلب مضطر کی تمنا یہ ہے کہ سرکار کی حالت بیداری میں زیارت ہوجائے اور یہ دل ان کے قدموں پر نثار ہو تاکہ آپ کی حیات طیبہ کے طفیل حیات جاودانی کی سعادت نصیب ہوجائے۔ درود پاک کی ڈالیاں نچھاور کرتے رہیں اسی دوران اپنے آقا ﷺ کی بارگاہ پاک میں شعری وادبی کمالات ومحاسن سے مزین فی البدیہ یہ کلام پیش کیا جس کا مقطع گزر گیا اور مطلع یہ ہے
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں ۔
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر
لاکھوں گرد مزار پھرتے ہیں ۔
سولہ اشعار پر مشتمل اس کلام کے مقطع میں اعلیٰحضرت خود کو بارگاہ رسالت کا کتا کہا ۔ایک اور کلام ہے جس کے مقطع میں اعلیحضرت نے ان کی گلی کے کتوں کو تحفے میں اپنادل پیش کرنے کی آرزو رکھتےہیں۔
پارہ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفہ میں رضا ۔
ان سگان کو سے اتنی جان پیاری واہ واہ ۔
اپنے آقا و مولیٰ کی بارگاہ میں انکساری کا یہ عالم کہ ایک کلام کے مقطع میں فرماتے ہیں
ان کے آگے دعویٰ ہستی رضا ۔
کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم ۔
کلام میں ترمیم و تنسیخ کلام کے ساتھ ناانصافی ہے اور صاحب کلام کی دل آزاری کا سبب اس سے بچنا چاہئے کچھ نعت خواں حضرات کو دیکھا کہ وہ اعلیحضرت کے کلام میں دیگر شعراء کا کلام بھی شامل کردیتے ہیں اور آخر میں مقطع اعلیٰحضرت کا پڑھ دیتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ سارا کلام جو نعت خواں نے پڑھا وہ اعلیٰحضرت کا ہے یہ بھی نہایت بے جا اور خلاف ادب حرکت ہے اس طرح کی خواندگی سے احتراز کرنا چاہئے ۔
ماخوذ از ماہنامہ اعلیحضرت ماہ جنوری ۲۰۱۵ع
پیش کش : *محمد منصور عالم نوری مصباحی ۔*
28 / 5/2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں