ٹوٹی چٹائی اور سوکھی روٹی

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

 ٹوٹی چٹائی اور سوکھی روٹی 

یہ بات بہت مشہور ہے کہ علمائے دین نے ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر اور سوکھی روٹی کھا کر دینی تعلیم کو فروغ دیا۔یہ بات موافق حقیقت ہے,بلکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے حالات اس سے بھی ناگفتہ تھے۔

بھارت میں جنگ غدر:1857 میں ناکامی کے بعد انڈیا سے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہو گیا۔جنگ غدر میں حصہ لینے والے نوابوں کی نوابی ختم ہو گئی۔بہت سے علمائے دین اور عوام کو جنگ غدر میں حصہ لینے کے سبب پھانسی کی سزا دی گئی۔بہت سے علمائے کرام کو قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔

دینی خدمات انجام دینے والوں کے وظائف بند کر دیئے گئے۔مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔جب ماحول کچھ پرسکون ہوا تو بہت سے علمائے دین فی سبیل اللہ بچوں کو دینی تعلیم دینے لگے۔اس وقت عوامی کلیکشن کا رواج نہیں تھا۔ایک مدت بعد پبلک ڈونیشن سے مدارس کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔آج بھی ناظمین مدارس بہت مشقت وجاں فشانی سے مدارس کے اخراجات کا انتظام کرتے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم(1914-1918)کے موقع پر سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے بہت سے علاقے استعماری قوتوں کے قبضے میں چلے گئے۔ترک فوجیوں نے بہت سے علاقے بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ مصطفے کمال اتاترک(1881-1938)نے 03:مارچ 1924 کو عثمانی خلافت کو ختم کر دیا اور ترکی کو ایک جمہوری ملک کا درجہ دیا۔

ترکی میں اسلامی شعائر اور اسلامی تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ علمائے دین نے بہت سی مصیبتیں جھیل کر اسلامی تعلیمات کو اگلی نسل تک منتقل کیا۔ترکی کو جمہوری ریاست میں تبدیل کرنے کے واسطے درج ذیل اقدامات کئے گئے۔

دستور سے سرکاری مذہب اسلام کی شق خارج کر دی گئی۔

ملک بھر میں دینی مدارس اور خانقاہوں پر پابندگی لگا کر مذہبی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

عورتوں کو تمام معاملات میں مردوں کے مساوی قرار دے کر پردہ کو قانوناً جرم قرار دے دیا گیا۔

یورپی لباس پہننا اور ننگے سر رہنا ضروری قرار دے دیا گیا۔

پیری مریدی ممنوع قرار دی گئی اور مزاروں پر جانے اور دعائیں مانگنے پر پابندی لگا دی گئی۔

ہجری تقویم ختم کر کے شمسی کیلنڈر رائج کر دیا گیا۔

جمعہ کی چھٹی ختم کر کے اتوار کی چھٹی کا اعلان کیا گیا۔

عربی زبان میں قرآن کریم کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی اور ترکی زبان کا عربی رسم الخط منسوخ کر کے رومن رسم الخط اختیار کر لیا گیا۔

نماز، دعا اور قرآن کریم کی تلاوت ترکی زبان میں لازمی قرار دے دی گئی۔

حکومت ترکیہ کے مذکورہ بالا اقدامات کے باوجود علمائے دین نے ترکی میں دینی تعلیم کو زندہ رکھا اور خفیہ طور پر بہت سے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ فرمایا۔

عہد حاضر میں بہت سے مدارس اسلامیہ کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ عمدہ نظم ونسق کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں,لیکن شاید وہ کسی مقصد کے تحت ٹوٹی چٹائی اور سوکھی روٹی کی روایت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

(1)بعض ذمہ داران مدارس کو اپنے بچوں کے بارے میں فرماتے سنا کہ بچے مانتے نہیں,ہفتہ میں تین چار دن گوشت لانا ہی پڑتا ہے,پھر جب وہ اپنے مدرسے میں داخل ہوتے ہیں تو قوم کے بچوں کو ٹوٹی چٹائی اور سوکھی روٹی کے واقعات سنا کر صبر کی تلقین فرماتے ہیں۔

اے کاش! یہ نفوس عالیہ طلبائے مدارس کو بھی اپنے گھر کے بچوں کی طرح سمجھتے تو انہیں بھی ہفتہ میں دو تین دن بریانی ضرور مل جاتی۔

(2)چوں کہ مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور فارغین مدارس کا دنیاوی مستقبل بوسیدہ کتابوں کے دیمک زدہ اوراق کی طرح روشن وتابناک ہے,لہذا بہت سے علمائے کرام اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرتے ہیں اور قوم کو علم دین کے فضائل سنا کر ان کے بچوں کو مدارس میں داخل کرتے ہیں۔

اے کاش! یہ علمائے کرام مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام میں اصلاح کی کوشش فرماتے اور مدارس اسلامیہ میں دینی وعصری مشترکہ نصاب تعلیم رائج فرماتے۔بچوں کو اوپن اسکولنگ سسٹم کے ذریعہ اسکولی امتحانات دلاتے تو بچے بیک وقت دونوں قسم کی تعلیم سے حصہ یاب ہوتے۔

(3)ناظمین مدارس اپنی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اپنا مشاہرہ دیگر مدرسین کی بہ نسبت دوگنا یا چار گنا زیادہ رکھتے ہیں۔

اے کاش! نظمائے مدارس اپنے مدارس کے مدرسین وملازمین کی ضرورتوں کا بھی لحاظ فرماتے اور ان کی تنخواہیں بھی حالات زمانہ کے موافق رکھتے تو تعلیمی معیار بھی مستحکم ہوتا۔شیخ سعدی شیرازی قدس سرہ العزیز نے بوستاں(باب اول)میں رقم فرمایا:

ع/ مزدور خوش دل کند کار بیش 

معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ دعوت اسلامی کے مدارس وجامعات میں طلبہ کے خورد ونوش کا عمدہ نظم ہے۔وہاں دینی وعصری ہر دو قسم کی تعلیم دی جاتی ہے اور اساتذۂ کرام اور ملازمین کا مشاہرہ بھی حالات وضروریات کے موافق ہے۔اللہم زد فزد 

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:15:جولائی 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے