باب اعتقادیات کے جدید مغالطے قسط سوم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

باب اعتقادیات کے جدید مغالطے
 
قسط سوم 

مغالطہ:جامعہ نظامیہ (حیدرآباد) کے اساتذہ تکفیر دیابنہ سے سکوت کرتے ہیں۔ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیزجامعہ نظامیہ تشریف لے گئے۔مولانا طاہر رضوی صاحب نے منظوم عربی خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔تکفیر شخصی کا معاملہ بہت نازک ہے-

وضاحت:شایدمغالطہ پیش کرنے والوں کا مقصودیہ ہے کہ تکفیر دیابنہ سے سکوت کرنے والے کافر نہیں،اسی لیے حضورمفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز جامعہ نظامیہ گئے۔اگر آپ سکوت کرنے والوں کوکافر سمجھتے تو جامعہ نظامیہ تشریف نہیں لے جاتے۔

جواب اول:کسی کافر کے کفر پر مطلع ہوکر اس کومومن ماننے والا یقینا کافر ہے۔ یہی قانون عقائد وفقہ اور دیگر دینی کتابوں میں مرقوم ہے۔مذکورہ بالا واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سکوت کرنے والا کافر نہیں،بلکہ کسی کے کفرپر مطلع ہوکراس کی تکفیرسے سکوت،اس میں شک،توقف،تردد،اس کا انکار،اس کی باطل تاویل،اس کافر کومومن ماننا کفر ہے۔

جواب دوم:جامعہ نظامیہ (حیدرآباد) ایک سرکاری ادارہ ہے۔ وہاں کے اساتذہ وطلبہ میں سنی اور غیر سنی ہرقسم کے لوگ ہیں۔یہ دعویٰ کرنا کہ وہاں کے تمام اساتذہ ہرعہد میں تکفیر دیابنہ سے سکوت کے قائل رہے ہیں،یہ غلط دعویٰ ہے۔آج بھی بعض اساتذہ تکفیر دیابنہ کے قائل ہیں اور وہ لوگ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ 

جواب سوم: کسی جگہ جانے کا یہ مفہوم نہیں کہ وہاں تمام لوگوں سے سلام وکلام کیا جائے۔اصحاب علم وفضل احتیاط فرماتے ہیں، جیسا کہ مسلم پرسنل لا کنونشن(ممبئ) 1972 اورحضرت علامہ عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمۃوالرضوان کی دعوت پر لکھنو کی مشترکہ مجلس:1917 میں علمائے اہل سنت شریک ہوئے تو بدمذہبوں سے سلام ومصافحہ نہ فرمایا۔ 

حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمۃوالرضوان جب غسل کعبہ کو تشریف لے گئے توآپ کوایک سنی صحیح العقیدہ کے ذریعہ دعوت دی گئی تھی اور آپ نے وہاں بدمذہبوں سے میل جول نہ کیا تھا۔اس کی وضاحت آپ نے خود بھی فرمائی تھی۔

جواب چہارم: حیدرآبادکے دورہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب جنوبی ہند میں وہابیت ودیوبندیت پھیلنے لگی، تب ریاست حید رآباد (آندھرا پردیش)کے اکابر علما ومشائخ نے ”تحفظ عقائد اہل سنت“ کے نام سے ایک انجمن تشکیل دی۔اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں خاص شہر حیدرآباد کے علما ومشائخ بھی تھے اورجامعہ نظامیہ حیدرآباد کے مفتی اور جامعہ نظامیہ کے شیخ الادب والتفسیر حضرت علامہ سیدطاہر رضوی صاحبان بھی تھے۔

اس تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ یہ دونوں حضرات سنی تھی۔جب وہاں کے مفتی اور ادیب سنی تھے تو تمام اساتذۂ جامعہ کاصلح کلی ہونے کا خیال غلط ثابت ہوا۔

مذکورہ انجمن نے بریلی شریف سے رابطہ کیا تھا اور حضور مفتی اعظم ہندقدس سرہ العزیز سے شمالی ہند کے علما کے ساتھ شہر حیدرآبادکے تین روزہ تبلیغی دورہ کی گزارش تھی۔ آپ نے گزارش قبول فرمائی، اور 15:شوال المکرم 1392مطابق 1972کو حیدرآباد پہنچے۔

الحاص آپ خاص طور پرجامعہ نظامیہ تشریف نہیں لے گئے تھے،بلکہ جماعت علما کے ساتھ 1972 میں آندھرا پردیش کے دورہ پر گئے تھے۔اس تبلیغی دورہ کا مقصد یہ تھا کہ جولوگ وہابیہ ودیابنہ کے قریب ہورہے ہیں،ان کو اپنے قریب کیا جائے۔اس کی تفصیل حضرت مفتی مجیب اشرف رضوی علیہ الرحمۃوالرضوان نے ”تابش انوار مفتی اعظم“ (ص 135تا ص 154)میں رقم فرمائی ہے۔
 اسی موقع پرحضور مفتی اعظم ہند مختصر خطاب کے لیے جامعہ نظامیہ تشریف لے گئے۔ 
(علما ومشائخ حیدرآباد وبریلی کے علمی روابط:ص 38-شیخ الاسلام اکیڈمی حیدرآباد) 

دوسرے دن دس بجے دن سے بارہ بجے تک جامعہ نظامیہ میں استقبالیہ پروگرام تھا۔ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز کو گیارہ بجے وہاں جانا تھا۔آپ گیارہ بجے جامعہ نظامیہ تشریف لے گئے،یعنی اس وقت اجلاس جاری تھا۔جب آپ وہاں پہنچے تو آپ کا استقبال کیا گیا اور جلسہ گاہ میں لے جایا گیا۔اس پروگرام سے ڈیڑھ بجے آپ واپس اپنی قیام گاہ پہنچ چکے تھے۔(تابش انوار مفتی اعظم ہند:ص 146-144-ناشر:نوری میڈیکل ناگپور)

جواب پنجم:جامعہ نظامیہ میں حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیزکا طویل قیام نہیں تھا،نیزاگر کوئی بدمذہب کسی سنی عالم سے سلام وکلام کرلے اور اس سنی عالم کو اس کی گمرہی وبدمذہبیت کا علم ہی نہ ہوتوان پرشرعی گرفت نہیں۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہ العزیز بریلی شریف میں رہتے تھے۔آپ پہلی بار حید رآباد گئے تھے۔ ایسی صورت میں عقل بھی یہی فیصلہ کرتی ہے کہ آپ جامعہ نظامیہ کے صلح کلیوں کو نہیں پہچانتے ہوں گے، گرچہ یہ بات آپ کے علم میں ہوکہ یہاں کچھ صلح کلی قسم کے لوگ بھی ہیں۔

جواب ششم: جب یہ تحریک صلح کلیت وبدمذہبیت کے خاتمے کے واسطے تشکیل دی گئی تھی، اوراسی واسطے جابجا اجلاس ہورہے تھے توایسے جلسوں میں بدمذہبوں کی شرکت کی بھی امید کم ہی ہے،خاص کر بدمذہب ملاؤں کی شرکت کی امید بہت ہی کم ہے۔

جواب ہفتم:آندھرا پردیش کے اس دورہ کے موقع پر بہت سے صلح کلیوں نے آپ کے دست اقدس پر توبہ کی تھی۔ریاست آندھر اپردیش کایہ دورہ بائیس دنوں کا تھا۔
(تابش انوار مفتی اعظم:ص65-ناشر:نوری میڈیکل ناگپور)

 جامعہ نظامیہ میں آپ کا استقبال ضرور کیا گیا،لیکن بدمذہبوں سے میل جول کی کوئی روایت نہیں ملتی۔محض عقلی طورپر بدمذہبوں سے ملاقات کوثابت کرنا مناسب نہیں۔جب لوگ صلح کلیت سے تائب ہورہے تھے توظن غالب یہی ہے کہ آپ اسی امید پر جامعہ نظامیہ تشر یف لے گئے ہوں کہ گم گشتگان راہ کو ہدایت نصیب ہو جائے اور ہدایت یافتگان کی تائید وتقویت ہو جائے،پس اس میں کوئی شرعی حرج نہیں۔ علمائے کرام کو تبلیغ دین اور شرعی مسئلہ کے افہام وتفہیم کے واسطے ضرورت مندوں کے پاس جانے کی اجازت ہے،نیز جامعہ نظامیہ میں سب لوگ غلط راہ پر نہیں تھے،اورآپ سنی علما کی دعوت پر جامعہ گئے تھے۔

جواب ہشتم:علامہ یٰسین اخترمصباحی (دہلی)نے رقم فرمایا:”اہل سنت کی مرکزی درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپوراعظم گڈھ کی تاسیسی کانفرنس ۲۹۳۱؁ھ / ۲۷۹۱؁ء کے موقع پر دارالعلوم اشرفیہ کی قدیم عمارت میں جہاں حضور مفتی اعظم ہندکاقیام تھا،خانوادۂ اشرفیہ کی شاخ بسکھاری (ضلع فیض آباد:یوپی) کے سجادہ نشیں سیدظفرالدین اشرف المعروف بہ بابومیاں کانفرنس میں شرکت کی غرض سے مدعوتھے۔وہ حضورمفتی اعظم سے ملنے پہنچے،چوں کہ ان کے بعض آباواجداد دیوبندیوں سے رسم وراہ رکھتے تھے،اس لیے ان سے حکم حدیث کے مطابق آپ نے سلام وکلام سے انکارفرمادیا۔اب اس کے بعد کی سرگذ شت بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی سابق شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کی زبانی سماعت فرمایئے۔

”بابومیاں نے کہا:حضورمیں کبرائے دیوبند کی تکفیرمیں ساری دنیا کے اہل اسلام کا ساتھی ہوں،چناں چہ اسی وقت انہوں نے اس مضمون کی اپنی دستخطی تحریر مفتی اعظم کے حضور پیش کی۔

اس وقت لوگوں نے ایک عجیب وغریب منظردیکھا۔حضورمفتی اعظم ہندنے بابو میاں سے فرمایا: صاحبزادے! آپ ذرا کھڑے ہو جائیں،نہ توبابومیاں سمجھے کہ یہ حکم کیوں ہورہاہے؟نہ مجلس میں بیٹھنے والوں نے ہی،مگرجب حکم پا کر بابومیاں کھڑے ہوئے توحضور مفتی اعظم ہندنے بآں شان و جلال وبآں عظمت و تقدس وبآں ریش سفید ورفعت پیری ایک سبزہ آغاز نوجوان (بابومیاں)کا پیردونوں ہاتھ سے پکڑلیا۔ ڈبڈبائی آنکھیں ان کے چہرہ کی طرف اٹھا کر فرمایا:صاحبزادے!ہم توآپ کے غلام وخانہ زادے ہیں،ہمارے پاس جوکچھ ہے،آپ کے جدکریم ہی کا دیا ہوا ہے۔ہم نے شروع میں جوکیا،آپ ہی کے جد کریم کے حکم کی بجاآوری اور انہیں کے دین کا پرچم بلندکرنے کے لیے کیا“۔
(تین برگزیدہ شخصیتیں:ص42 - دار القلم دہلی)

جب حضورمفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز دیوبندیوں سے راہ ورسم رکھنے والوں سے میل جول پسند نہیں فرماتے تھے تو تکفیردیابنہ سے سکوت کرنے والوں سے کیسے میل جول کر سکتے ہیں-

جواب نہم:جامعہ نظامیہ جانے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ منکرین تکفیر کو مومن سمجھتے ہیں۔حضورمفتی اعظم ہندقدس سرہ العزیزنے”الموت الاحمر“میں تفصیل کے ساتھ صریح طور پر بیان فرمایا ہے کہ جوفرقہ دیوبندیہ کے عناصراربعہ کے کفریات پرمطلع ہوکر ان کے کفر میں شک بھی کرے،وہ بھی کافر ہے۔مشہور قانون ہے:(الصریح یفوق الدلالۃ)یعنی صریح قول دلالت پرراجح و غالب ہے۔ ایسے موقع پر صریح قول کا لحاظ ہوگا، نہ کہ دلالت کا۔

نیز یہاں دلالت کے طورپر بھی یہ ثابت نہ ہوسکا کہ آپ تکفیرسے سکوت کرنے والوں کو مومن سمجھتے ہیں،بلکہ خلیل بجنوری نے اشخاص اربعہ کی تکفیر سے سکوت اور تاویل باطل کی تھی،جس کے سبب ”الاقوال القاطعہ“میں اس کی تکفیر کلامی کی گئی۔اس پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃوالرضوان کی بھی تصدیق ہے،پس ایسے مغالطہ سے پرہیز کیا جائے۔

جواب نہم:جامعہ نظامیہ جانے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ منکرین تکفیر کو مومن سمجھتے ہیں۔حضورمفتی اعظم ہندقدس سرہ العزیزنے”الموت الاحمر“میں تفصیل کے ساتھ صریح طور پر بیان فرمایا ہے کہ جو فرقہ دیوبندیہ کے عناصراربعہ کے کفریات پرمطلع ہوکر ان کے کفر میں شک بھی کرے،وہ بھی کافر ہے۔مشہور قانون ہے:(الصریح یفوق الدلالۃ)یعنی صریح قول دلالت پرراجح و غالب ہے۔ ایسے موقع پر صریح قول کا لحاظ ہوگا، نہ کہ دلالت کا۔

نیز یہاں دلالت کے طورپر بھی یہ ثابت نہ ہوسکا کہ آپ تکفیرسے سکوت کرنے والوں کو مومن سمجھتے ہیں،بلکہ خلیل بجنوری نے اشخاص اربعہ کی تکفیر سے سکوت اور تاویل باطل کی تھی،جس کے سبب ”الاقوال القاطعہ“میں اس کی تکفیر کلامی کی گئی۔اس پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃوالرضوان کی بھی تصدیق ہے،پس ایسے مغالطہ سے پرہیز کیا جائے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:02:اگست 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے