➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
آج بعد نماز مغرب سورہ بنی اسرائیل کی تلاوت کررہا تھا ۔دوران تلاوت آیت کریمہ :
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِىٓ أَرَيْنَٰكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِى ٱلْقُرْءَانِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَٰنًا كَبِيرًا ۔
کے ترجمہ اور تفسیر پر غور کرنے لگا کہ درخت پر لعنت کا کیا مطلب ہے۔ نتیجتاً تشنگی علم نےاس کی پنگھٹ تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ غواصی کے دوران جو موتی ہاتھ لگے حصول ثواب اور افادہ عام کی نیت سے شیئر کرہا ہوں
*تلاوت کردہ آیت کریمہ کا ترجمہ:*
اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں ۔اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمھیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انھیں ڈراتے ہیں تو انہیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی۔(کنز الایمان)
*وضاحت* اس آیت پاک میں رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم سے خطاب فرماتے ہوئے اللّٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ کفار ومشرکین میرے قبضہ قدرت میں ہیں ۔کوئی میری گرفت سے باہر نہیں اس لیے کسی کا خوف کھائے بغیر تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں اور لوگوں تک دین پہنچاتے رہیں ۔پھر آگے ارشاد فرمایا :شب معراج بحالت بیداری جو عجائب اور جلوے ہم نے تمہیں دکھائے انھیں لوگوں کے لیے امتحان اور آمائش بنادیا کہ جس نے تصدیق کی وہ کامیاب ہوا اور جو تکذیب کے درپے ہوا وہ خائب و خاسر اور نامراد ہوا۔یہی حال شجرہ ملعونہ کا ہے کہ اسےبھی سبب آزمائش بنادیا یہاں تک کہ کافروں نے اللّٰه تعالیٰ کی قدرت سے غافل رہ کر یہ اعتراض جڑ دیا کہا کہ محمد صلی اللّٰه عليه وسلم تم کو جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلادے گی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے۔ بھلا آگ میں درخت کیسے رہ سکتا ہے۔ان کور باطنوں نے یہ نہ جانا کہ یہ قادر مطلق کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ۔سمندل نامی ایک کیڑا ہے جو آگ ہی میں پیدا ہوتا ہے اور اسی میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے ۔عجائب الٰہیہ کا نظارہ تو دیکھیں کہ اس کیڑے کے اون سے جو تولیاں بنتی تھیں, میلی ہونے پر آگ میں ڈال کر صاف کر لی جاتیں اور جلتی نہ تھیں ۔یہی نہیں شتر مرگ انگارے کھاجاتا ہے مگر کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
حوالہ کے لیے بیضاوی شریف کی یہ عبارت دیکھیں۔
لما سمع المشركون ذكرها قالوا إن محمداً يزعم أن الجحيم تحرق الحجارة ثم يقول ينبت فيها الشجر، ولم يعلموا أن من قدر أن يحمي وبر السَمَنْدَل من أن تأكله النار، وأحشاء النعامة من أذى الجمر وقطع الحديد المحماة الحمر التي تبتلعها، قدر أن يخلق في النار شجرة لا تحرقها.
*شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے*
جمہور مفسرین نے شجرہ ملعونۃ کی تفسیر ,شجرة الرقوم سے کی ہے جس کا معنی تھوہڑ کا درخت ہے جو نہایت کڑوا اور حد درجہ بدبو دار ہوتا ہے ۔یہ جہنمیوں کی خوراک ہوگا ۔العیاذ باللّٰه تعالیٰ ۔
حدیث شریف میں ہے:
اگر تھوہڑ کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگی تہ وبالا ہوجائے ۔
حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
*لو أن قطرة من الزقوم قطرت في دار الدنيا لأفسدت على أهل الدنيا معايشهم فكيف بمن يكون طعامه.*
*تھوہڑ کے درخت کو ملعونہ کیوں کہا گیا*
آیت کریمہ میں شجرہ زقوم یعنی تھوہڑ کے پیڑ کو وصف لعن سے کیوں متصف کیا گیا, اس سلسلہ میں مفسرین نے چند تفسریں بیان کی ہیں ۔
قاضی بیضاوی نے فرمایا:
لعنها في القرآن لعن طاعميها وصفت به على المجاز للمبالغة، أو وصفها بأنها في أصل الجحيم فإنه أبعد مكان من الرحمة، أو بأنها مكروهة مؤذية من قولهم طعام ملعون لما كان ضاراً.
▪️درحقیت لعنت ان لوگوں پر ہے جن کی یہ خوراک ہے ۔مجازا بطور مبالغہ زقوم ہی کو ملعون قرار دیا۔
▪️یا اس پر لعنت کی وجہ یہ کہ یہ جہنم کی جڑ میں پیدا ہو گا ۔اس کی جائے پیدائش جہنم ہے جو اللّٰه کی رحمت سے دور ہے ۔اور لعنت کا یہی مطلب ہے ۔الإبعاد عن رحمة اللّٰه .
▪️یا ملعونہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ناپسندیدہ اور اذیت ناک درخت ہے ۔ اہل عرب بد مزہ ,ناپسندیدہ اور ضرر رساں خوراک کو *طعام ملعون* کہتے ہیں اسی مناسبت سے زقوم کو ملعون کہا گیاہے۔
مفسرین نے مزید توجیہات ذکر کی ہیں مثلاً :قرآن کریم میں اس کے جو اوصاف مذکور ہیں وہ سخت ناگوار اور اذیت ناک ہیں۔ اسی وجہ سے اسے ملعون کہا گیا گویا ملعون بمعنی مذموم و کريه ہے ۔
قرآن کریم میں ہے :
أَذَلِكَ خَيْرٌ نزلا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ۔ إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ ۔ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ ۔ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ ۔فَإِنَّهُمْ لآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ۔
یعنی جنّتی نعمتیں اور لذتیں اچھی ہیں یاتھوہڑ کا پیڑ جسے ہم نے کافروں کے لیے امتحان اور آزمائش کا سبب بنا دیا۔وہ ایک ایسا پیڑ ہے جو جہنم کی جڑ میں نکلتا ہے ۔اس کا شگوفہ شیاطین کے سر کی طرح ہیبت ناک اور قبیح المنظر ہے ۔جہنمی بھوک کی شدت سے مجبور ہوکر اسے کھائیں گے اور طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔العیاذ باللّٰه من ذالك.
دوسرے مقام پر اللّٰہ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ . طَعَامُ الْأَثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ كَغَلْيِ الْحَمِيمِ .
بے شک تھوہڑ کا پیڑ گنہگاروں کی خوراک ہے گلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارے گا جیسے کھولتا پانی جوش مارتا ہے ۔العیاذ باللّٰه من ذالك۔واللّٰه اعلم بما اراد . وما اوتينا من العلم الا قليلا قليلا .
کتبہ: محمد فیض اللّٰہ مصباحی
نائب قاضی:ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ ۔
استاذ:مدرسہ فیض العلوم, جمشید پور, جھارکھنڈ ۔
تاریخ :بہ شب ٤/محرم الحرام ١٤٤٤ھ۔
9304411329
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں